فاروق سلہریا
معزز کامریڈ، امید ہے خیریت سے ہوں گے۔
آپ میرے فیس بک دوست ہیں۔ اکثر آپ کی تحریریں آپ کی وال پر بصد شوق پڑھتا ہوں اور سیکھتا ہوں۔
گذشتہ چند روز سے آپ نے یوکرین پر روسی جارحیت بارے جو موقف اختیار کیا، اس پر میں حیران رہ گیا۔ میں تو سمجھا تھا کہ جنگ بارے فیض احمد فیض نے اپنی اس تقریر میں سوشلسٹ موقف بالکل واضح کر دیا تھا جو انہوں نے ’لینن امن انعام‘ وصول کرنے کے موقع پر کی تھی۔ یہ تقریر ’نسخہ ہائے وفا‘ میں شامل ہے اور ممکن نہیں کہ آپ ایسے صاحب مطالعہ انقلابی کی نظر سے نہ گزری ہو۔
فیض کے علاوہ لینن کے معزز نام سے منسوب یہ امن انعام ساحر لدھیانوی کو ملا۔ فیض کے علاوہ، میری حقیر رائے میں، اگر کسی نے برصغیر میں امن اور جنگ بارے سوشلسٹ موقف کو کامل طریقے سے بیان کر دیا ہے تو وہ میرے اور آپ کے پسندیدہ شاعر ساحرلدھیانوی ہیں۔ ’اے شریف انسانو‘ اگر امن بارے سوشلسٹ انقلابی سوچ کی ترجمانی ہے تو ’پرچھائیاں‘ جنگ کی تباہ کاریوں کے خلاف بہترین سوشلسٹ مقدمہ ہے۔
ہمارے سوشلسٹ اکابرین کے اتنے واضح موقف کے باوجود جب میں نے آپ کو یوکرین پر پوتن شاہی حملے پر بغلیں بجاتے ہوئے دیکھا تو یقین کیجئے مجھے یقین نہیں آیا۔ پھر سوچا طارق علی نے ایک بار ٹھیک ہی کہا تھا کہ ہمارے برصغیر میں شاعر اور ادیب پارٹی کے نظریہ دانوں سے ہمیشہ زیادہ دور اندیش ثابت ہوئے۔
پوتن کے لئے بغلیں بجانا سوشلسٹ اور انسان دوست موقف کی ہی نفی نہیں…اس سے آپ کی روس اور یوکرین بارے گہری لاعلمی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ موجودہ روس کسی بھی طرح سویت روس کا جانشین نہیں ہے۔ سٹالنسٹ قبضے کے بعد تو سویت روس بھی سوویت روس کا جانشین نہیں کہلا سکتا تھا لیکن کم سے کم سویت روس ایک سرمایہ دار ریاست نہیں تھی۔
سوویت روس کے بعد نہ صرف وہاں سرمایہ داری بحال ہوئی بلکہ روس ایک ابھرتی ہوئی سامراجی قوت ہے۔ جی ہاں! لینن کی اسی تعریف کے مطابق، روس ایک سامراجی طاقت ہے جو اس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’امیریل ازم: دی ہائی اسٹ سٹیج آف کیپیٹلزم‘ میں کی تھی(ویسے لینن نے لاسٹ سٹیج کہا تھا، انگریزی ترجمے کی غلطی کہ یہ ہائی اسٹ سٹیج بنا دی گئی)۔
معلوم نہیں بُچر آف چیچنیا کو آپ اپنا کامریڈ سمجھتے ہیں اس لئے روسی جارحیت کی حمایت میں بغلیں بجا رہے ہیں یا آپ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ موجودہ سامراجی روس سویت روس کا تو جانشین نہیں مگر آپ امریکہ کی مخالفت میں روس کی حمایت کر رہے ہیں جسے، مارکسی اطلاح کے مطابق، سرد جنگ کے دور میں کیمپ ازم کہا جاتا تھا۔
کامریڈ! پہلی بات تو یہ کہ یہ سرد جنگ نہیں ہے۔ اس کاآپ بیسیوں صدی کی پہلی تین دہائیوں میں ہونے والی اس عالمی چپقلش سے تو کسی حد تک موازنہ کر سکتے ہیں جو کلونیل طاقتوں اور ابھرتی ہوئی سامراجی قوتوں (جرمنی، جاپان) کے مابین تھی مگر اسے سرد جنگ نہیں کہا جا سکتا۔ سرد جنگ کی بنیادی تعریف اور خصوصیت ہی یہ تھی کہ یہ دو نظریات کے مابین جنگ تھی: سوشلزم بمقابلہ سرمایہ داری۔ اب چین، روس، امریکہ اور اس کے حواری سب سرمایہ دار طاقتیں ہیں۔ دوم، اس بات کا امکان کم ہے کہ یہ طاقتیں آپس میں براہ راست ٹکرائیں۔ یہ پراکسی وار کرتی رہیں گی۔ یوں موجودہ منظر نامے کا موازنہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے پہلے والے عالمی منظر نامے سے بھی ہو بہو نہیں کیا جا سکتا۔
بہرحال، کہنے کا مقصد یہ کہ یہ سرد جنگ نہیں اس لئے آپ کا کیمپ ازم (اگر کبھی یہ اہم تھا بھی) تو اب غیر متعلقہ ہو چکا۔
یوکرین ہو یا عراق، افغانستان اور شام بطور سوشلسٹ ہم’کیمپ ازم‘کی بنیاد پر اپنا موقف قائم نہیں کرتے۔ نہ صرف جنگ اور امن پر ہمارا موقف بالکل واضح ہے (جسے لینن، روزا لکسمبرگ، کارل لیبکنیخت اور ٹراٹسکی سے لے کر فیض احمد فیض اور ساھر لدھیانوی تک بڑی فصاحت و بلاغت سے پیش کیا جا چکا ہے) بلکہ ہم ہر سوال پر محنت کش طبقے کے مفادات اور انٹرنیشنل ازم کو مقدم رکھتے ہوئے اپنا موقف تشکیل دیتے ہیں۔
کیا کل کلاں کسی بھی وجہ سے اگر واشنگٹن نے اسرائیل کی بجائے فلسطین کی حمایت شروع کر دی تو کیا آپ کچھ پاکستانی لبرل حضرات کی طرح اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ گے؟
یاد آیا! آپ کو پوتن کا یہ بیان بہت پسند آیا کہ وہ یوکرین کو نازیوں سے نجات دلانا چاہتا ہے۔ یہ درست ہے کہ یوکرین گذشتہ کچھ سال سے یورپ بھر کے نازیوں کے لئے وہی کردار ادا کر رہا تھا جو افغانستان نوے کی دہائی میں دنیا بھر کے جہادیوں کے لئے کر رہا تھا مگر یاد رہے کہ دومباس اور کریمیا میں روس کی پراکسی فورس بھی فاشسٹوں پر ہی مبنی ہے۔
مزید یہ کہ ہم فلسطین کے حق خود ارادیت کی حمایت یا جموں کشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت کی حمایت اس لئے ترک نہیں کر سکتے کہ فلسطین کی ترجمانی حماس یا جموں کشمیر کی ترجمانی وہ لوگ کر رہے ہیں جن سے ہمارا اختلاف ہے۔ فلسطین پر اسرائیلی حملے کی اس لئے حمایت نہیں کی جا سکتی کہ فلسطین پر حماس کی حکومت ہے اور ہم بنیاد پرستوں کے خلاف ہیں۔
یوکرین پر روس کا حملہ سامراجی حملہ ہے۔ ہم ہر سامراجی حملے کے خلاف ہیں، وہ امریکہ کرے یا روس۔ یوکرین کے محنت کش اسی طرح ہمارے محنت کش بہن بھائی ہیں جس طرح روس کا پرولتاریہ۔ فاشسٹ یوکرین کے ہوں یا روس کے،ان کی پشت پر امریکہ ہو یا روس…ہم سب کو محنت کش طبقے کا دشمن سمجھتے ہیں اور ان کے خلاف (اگر ضرورت پڑے اور ممکن ہو تو مسلح) جدوجہد کے حامی ہیں۔ سوشلزم کیمپ ازم کی بنیاد پر کام نہیں کرتا۔ فل سٹاپ۔
امید ہے آپ نے پچھلے تین دن یوکرین کی کوریج دیکھی ہو گی۔ سویلین ٹھکانوں پر حملے میں آپ کا سامراج مخالف پوتن کن فاشسٹوں کو نشانہ بنا رہا ہے؟
جو لوگ روس میں جنگ مخالف مظاہرے کر رہے ہیں، آپ ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
پہلی انٹرنیشنل (جی ہاں پہلی انٹرنیشنل)، پھر دوسری انٹرنیشنل نے جنگ پر جو سوشلسٹ موقف اپنایا تھا، اس بارے آپ کیا کہتے ہیں؟
آخر میں فیدل کاسترو کا ہلکا سا حوالہ بھی دیتا چلوں (جنہیں 1962ء میں سویت نوکر شاہی نے اسی طرح دھوکا دیا جس طرح آج امریکہ نے یوکرین کو)۔ کاسترو اور کیوبا کی وجہ سے آج لاطینی امریکہ وہ براعظم ہے جو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہے۔ کیوبا کے لئے سرد جنگ کے دوران ایٹم بنانا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ماسکو سے کہنا تھا اور بس…لیکن کاسترو نے ایسا نہیں کیا۔ کیوں؟
اس کا جواب کاسترو نے خود یا تھا: ”ہم یہ بم کس کے خلاف استعمال کریں گے؟ امریکہ میں اپنے مزدور بہن بھائیوں کے خلاف؟“
اگلی بار اسکرین پر یوکرین کے شہریوں، بچوں، بوڑھوں، نوجوان مرد و خواتین کو خون میں لت پت، بے گھر اور ہجرت کرتا دیکھیں تو کیمپ ازم کی عینک اتار کر دیکھئے گا، شائد نظریاتی افاقہ ہو۔ آپ نے جو سیاسی پوزیشن لی ہے اس نے تو آپ سے آپ کی انسانیت تک چھین لی ہے۔ اگر کسی سوشلسٹ سے اس کی انسانیت ہی چھن جائے تو پھر اس میں اور ایک فاشسٹ میں کیا فرق؟
فقط۔
ایک کامریڈ
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔