حارث قدیر
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں خلاف آئین وزیر اعظم کے انتخاب کیلئے کی جانیوالی کارروائی کو عدالت العالیہ نے معطل کر دیا۔ عدالت العالیہ کے فیصلے کے خلاف حکمران جماعت کی اپیل پر آج 16 اپریل کو سپریم کورٹ کا فل کورٹ بنچ سماعت کرے گا۔
قبل ازیں وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی نے اپنے خلاف اپنی ہی جماعت تحریک انصاف کے صدر تنویر الیاس کی قیادت میں جمع کروائی گئی تحریک عدم اعتماد کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان جمعرات کی شب کر دیا تھا۔ وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی کا کہنا تھا کہ پارٹی چیئرمین عمران خان نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں کمیٹی بنائی تھی جس نے جمعرات کے روز یہ مسئلہ حل کرنا تھا۔ تاہم کمیٹی کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا، اس لئے انہوں نے اپنا استعفیٰ پارٹی چیئرمین کو ارسال کیا اور دو گھنٹے بعد صدر ریاست کو بھی استعفیٰ ارسال کر دیا۔
یاد رہے کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی کے خلاف رواں ماہ 12 اپریل کو اپنے ہی وزرا کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی تھی۔ تحریک عدم اعتماد میں وزیر اعظم پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے اقربا پروری کو پروان چڑھایا، گڈ گورننس قائم کرنے میں ناکام رہے، پارٹی کے منشور پر عملدرآمد کرنے میں بھی ناکام رہے اور تحریک آزادی کو اجاگر نہ کر کے وہ اعتماد کھو چکے ہیں۔
سپیکر قانون ساز اسمبلی چوہدری انوار الحق نے تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں اسمبلی اجلاس جمعہ 15 اپریل کو صبح ساڑھے 10 بجے طلب کر رکھا تھا۔ تاہم وزیر اعظم کی جانب سے 14 اپریل کو رات گئے استعفیٰ دینے کے بعد اس اجلاس کو ملتوی کیا جانا تھا، جو نہ کیا گیا۔
سپیکر اسمبلی اور تحریک انصاف کی منصوبہ بندی کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن اراکین کی جانب سے جمعہ کے روز ہی عدالت العالیہ سے رجوع کر دیا گیا تھا۔ جب تک عدالت میں سماعت کا سلسلہ مکمل ہوتا، تب تک سپیکر قانون ساز اسمبلی نے اجلاس کی کارروائی شروع کرتے ہوئے نئے وزیر اعظم کے انتخاب کی کارروائی جمعہ کے روز ہی مکمل کرنے کی تحریک منظور کی اور وزیر اعظم کے انتخاب کا شیڈول بھی جاری کر دیا تھا۔
اپوزیشن نے ایوان کے اندر بھی احتجاج ریکارڈ کروایا، تاہم سپیکر قانون ساز اسمبلی نے اپوزیشن کے احتجاج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے چند گھنٹوں میں وزیر اعظم کے انتخاب کا عمل مکمل کرنے کا شیڈول جاری کروا دیا۔
دوسری طرف عدالت العالیہ کے دو رکنی بنچ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے اسمبلی میں ہونے والی تمام تر کارروائی کو پیر کے روز تک معطل کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔ عدالت العالیہ کے فیصلہ کے خلاف حکومتی اراکین کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ جہاں آج عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ بنچ حکومتی اراکین کی اپیل پر سماعت کرے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں نافذ العمل عبوری آئین 1974ء (ایکٹ74ء) کی دفعہ 16 کے مطابق اگر وزیر اعظم اسمبلی کے جاری اجلاس کے دوران مستعفی ہو جائے تواسی اجلاس میں نئے وزیر اعظم کا انتخاب کیا جانا لازمی ہے۔ تاہم اگر وزیر اعظم مستعفی ہو جائے اور اسمبلی کا اجلاس رواں نہ ہو تو پھر 14 روز کے اندر صدر اجلاس طلب کرنے کے پابند ہوتے ہیں تاکہ نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا عمل مکمل کیا جا سکے۔
موجودہ حالات میں چونکہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جا چکی تھی اور سپیکر اسمبلی نے 15 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کیلئے اجلاس طلب کر رکھا تھا۔ تاہم وزیر اعظم نے اجلاس کے آغاز سے قبل ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ اپوزیشن کا خیال ہے کہ اس صورت میں طلب کیا گیا اجلاس ملتوی کرتے ہوئے 14 روز کے اندر دوبارہ اجلاس طلب کیا جانا مقصود تھا۔ سپیکر اسمبلی نے اس حوالہ سے ماضی کی کسی روایت کا تذکرہ کرتے ہوئے ایوان میں حکومتی ممبران سے تحریک منظور کروانے کے بعد تحریک عدم اعتماد کیلئے طلب کئے گئے اجلاس میں ہی نئے وزیراعظم کے انتخاب کا شیڈول جاری کیا، جسے عدالت نے معطل کر دیا۔
قبل ازیں سابق وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور کی قیادت میں جمعرات کی شب تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کو خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقام سے مظفر آباد کے ایک ہوٹل میں منتقل کیا گیا۔ جہاں علی امین گنڈا پور کی صدارت میں ہی اجلاس کے انعقاد میں 28 سے زائد اراکین اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد میں نامزد کئے گئے وزیر اعظم تنویر الیاس کے حق میں ووٹ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اپوزیشن کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ ان اراکین کو خریدنے کے بعد خفیہ مقام پر رکھا گیا تھا اور وزیر اعظم کے استعفیٰ کے بعدنیا اجلاس بلانے کی بجائے طلب کئے گئے اجلاس میں ہی نئے وزیر اعظم کے انتخاب کی کوشش بھی اسی وجہ سے عجلت میں کی گئی ہے تاکہ خریدے گئے اراکین کہیں وعدے سے انحراف نہ کر دیں۔
اپوزیشن رہنماؤں نے عدالت العالیہ کے فیصلے کے بعد پریس کانفرنس میں یہ الزام بھی عائد کیا کہ تحریک انصاف نے پاکستان کے وفاق کی طرح پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیرمیں بھی غیر آئینی اقدامات کرتے ہوئے آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے عدالتیں آئین کی بالادستی کو قائم کریں گی۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کسی وزیر اعظم نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہو اور نہ ہی یہ پہلا موقع تھا کہ کسی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی ہو۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں یہ عنصر اب ایک معمول بن چکا ہے۔ پاکستان کی سیاست کے اتار چڑھاؤ اس خطے کی سیاست پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ پاکستان کے وفاق میں قائم حکومت کی ہی حمایت یافتہ جماعت یہاں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔ پاکستان میں قائم سیاسی جماعتوں کے اپنے نمائندگان اس خطے کی سیاست اور حکومت پر نگرانی کیلئے معمور کئے جاتے ہیں۔ وفاقی وزیر امور کشمیر فیصلہ سازی میں ہمیشہ سے کلیدی کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ اسی طرح بیوروکریسی میں بھی پاکستان کے وفاق سے لینٹ افسران کی تقرری کی جاتی ہے جو مالیاتی اور انتظامی اختیارات کواپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ اس طرح اس نوآبادیاتی طرز کے سیٹ اپ کو مکمل طور پر نگرانی اور کنٹرول میں رکھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی اسلام آباد کی سیاست میں کوئی ہلچل ہوتی ہے، یا کسی بھی نوعیت کا بحران آتا ہے تو اس کا براہ راست اثر اس خطے کی سیاست پر بھی پڑتا ہے اور حکومتیں بننے اور گرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ممبران اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور اکثر حکومتی وزرا ہی اپنی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بنیادی محرک ٹھہرتے آئے ہیں۔ مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کی 12 نشستوں پر منتخب ہونے والے اراکین اس عمل میں پاکستان میں موجود جماعتوں کیلئے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ حالیہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والے اراکین میں بھی تمام وزرا حکومت شامل تھے۔ وزیر اعظم کے علاوہ تمام حکومتی اراکین تحریک انصاف کی جانب سے اس خطے میں سیاست پر نگرانی کرنے والے علی امین گنڈا پور کے احکامات کے آگے سرنگوں نظر آئے ہیں۔
ماضی میں مشرف کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد اس خطے میں پانچ سال کے دوران ایک ہی اسمبلی نے 3 مرتبہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کیا تھا۔ اس طرح پانچ سال میں 4 وزرا اعظم کا انتخاب عمل میں لایا گیا اور ہر مرتبہ تحریک عدم اعتماد کے بنیادی محرکین میں حکومت میں شامل وزرا کا کردار رہا ہے۔ ایک اور دلچسپ امر یہ بھی رہا ہے کہ ابھی تک پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریکوں میں مہاجرین جموں کشمیر سے منتخب رکن اسمبلی عبدالماجد خان کا بنیادی کردار رہا ہے اور انہوں نے ابھی تک ہر تحریک عدم اعتماد میں شامل ہونے کا ریکارڈ قائم کر لیا ہے۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے سامنے آنے والے فیصلہ کے بعد اس خطہ میں نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا شیڈول جاری کیا جائے گا۔ اپوزیشن ابھی تک وقت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے، تاکہ حکومتی اراکین کو اپنی جانب متوجہ کیا جا سکے۔ تاہم حکومتی اراکین کی بھرپور کوشش ہے کہ جلد از جلد وزیر اعظم کے انتخاب کا شیڈول جاری ہو سکے تاکہ وہ اپنے پورے نمبروں کیساتھ وزیر اعظم کا انتخاب کروانے میں کامیاب ہو سکیں۔
جب تک نئے وزیر اعظم کا انتخاب کیا جاتا، اس وقت تک وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی ہی بطور وزیر اعظم اپنی خدمات سرانجام دیتے رہیں گے۔ محکمہ سروسز کی جانب سے اس بابت جمعرات کی رات کو ہی نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔
ایک طرف ایوان میں اقتدار کی رسہ کشی کا یہ کھیل جاری ہے اور دوسری طرف شہری علاقوں میں 8 سے 10 گھنٹے اور دیہی علاقوں میں 12 گھنٹے تک کی بجلی کی غیر اعلانیہ جبری لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ مالیاتی امور پر فیصلہ سازی نہ ہونے کی وجہ سے محکمہ پبلک ورکس کے سیکڑوں دیہاڑی دار محنت کش 3 ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ کم از کم اجرت 25 ہزار مقرر کئے جانے کے باوجود یہ محنت کش آج بھی 14 ہزار ماہانہ پر اپنی محنت بیچنے پر مجبور ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری عروج پر ہے۔ عوامی مسائل سے لاتعلق حکمران اقتدار کی اس رسہ کشی میں دولت کے انبار لگا رہے ہیں۔ ضمیروں کے سودے لگائے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے جانی دشمن روپے کی چمک دھمک میں بغلگیر ہو رہے ہیں۔ آئین اور قانون کی جس بالادستی آج اقتدار کے حصول کیلئے قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی آئین میں موجود بنیادی انسانی حقوق پر سالہا سال سے پابندی عائد ہے۔
یہ آئین محض وزیر اعظم کے انتخاب کے طریقہ کار کی رہنمائی ہی نہیں کرتا، نہ ہی محض مسند اقتدار میں بیٹھے شخص کو اتارنے کے طریقہ کار کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسی آئین میں ہر شخص کو روزگار کی فراہمی یقینی بنانے، ہر شہری کے جان و مال کے تحفظ، ہر شہری کوتحریر و تقریر کی آزادی دینے سمیت دیگر بنیادی انسانی حقوق کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ ان آئین کی شقوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کوئی عدالت حکم امتناعی جاری کرتی ہے اور نہ ہی اپوزیشن اور حکومت اس آئینی خلاف ورزی پر سراپا احتجاج نظر آتی ہے۔
روز مرہ ضروریات کے حصول کی تگ و دو میں غرق اس خطے کے محنت کش اور نوجوان حکمرانوں کی اس سیاست سے نہ صرف لاتعلق اور بدظن ہو رہے ہیں بلکہ وہ وقت بھی دور نہیں جب وہ اس سیاست اور اقتدار پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مقدر اپنے ہاتھوں میں لینے پر مجبور ہونگے۔ تاہم یہ عدم اعتماد اسمبلی میں پیش نہیں کی جائیگی، یہ سڑکوں، گلیوں، چوراہوں، کھیتوں اور کھلیانوں میں پیش کی جائیگی۔ یہی اس نظام حکمرانی کے خلاف حقیقی طبل جنگ ہو گا۔