قمرالزماں خاں
حالیہ آئی ایم ایف پروگرام کی 25ویں شرط کے مطابق پاکستان ایئر لائنز کی نجکاری کو آگے بڑھانے کا حکم دیا گیا تھا۔ آزاد منڈی کی شفاف نجکاری پالیسی میں تمام ممکنہ بولی دہندگان پراسرار طور پر غائب ہوگئے، اور یہ عمل اس وقت مذاق بن گیا جب واحد بولی دہندہ کمپنی بلیو ورلڈ سٹی نے تین سو ارب روپے کی مالیت کی کمپنی کے 60 فیصد حقوق کی قیمت 10 ارب روپے کی حقیر بولی دے کر طے کی۔ یاد رہے کہ حکومت نے کم سے کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کی تھی۔ بولی کی دس ارب کی یہ رقم دراصل پی آئی اے کے فلیٹ میں موجود 17 ایئر بس اے 320 کے 113 گھنٹوں کے کرائے کے برابر بنتی ہے۔
اس پر مزید مذاق یہ چل رہا تھا کہ بولی دینے والے پراپرٹی ڈیلر کا نمائندہ اس قیمت پر ساٹھ کے بجائے 100 فیصد حقوق مانگ رہا تھا اور ادائیگی کی بجائے پوچھ رہا تھا کہ کیا ہم قیمت کو پلاٹوں کی شکل میں ایڈجسٹ کر سکتے ہیں؟ اس پراپرٹی ڈیلر نے زندگی میں جہاز تو کیا مکھی بھی نہیں اڑائی تھی اور وہ پاکستان کی قومی ایئر لائن کو پلاٹوں کے عوض ہتھیانا چاہتا تھا۔ ساری صورت حال واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان میں نجکاری کو کیا سمجھا جاتا ہے۔ اس ضمن میں نجکاری کی پوری تاریخ اسی قسم کی بدعنوانیوں، لوٹ کھسوٹ اور سامراجی اطاعت گزاری میں پبلک سیکٹر کو تباہ کر کے ہتھیانے پر مبنی رہی ہے۔
پاکستان میں ماضی کی نجکاری بیان کردہ الزامات اور عزائم کے برعکس، دراصل قومی اثاثوں کی لوٹ سیل کا بھیانک منظر نامہ رہی ہے۔ پہلے دن سے ہی جھوٹ اور سرمایہ دارانہ بددیانتی پر مبنی نجکاری محض عالمی سامراجی پالیسیوں کے بے ہنگم اجراء کے سوا کوئی واضح، ٹھوس اور بامقصد وجوہات سے عاری رہی ہے۔ پاکستان میں باقاعدہ نجکاری کا آغاز تاریخ کے بدترین سامراجی ایجنٹ اور آمر ضیاء الحق کے دور میں نہ ہوسکا۔ اس جرم کو اسی پیپلز پارٹی نے سرانجام دیا جس نے ماضی میں نحیف، ادھوری اور مکمل نتائج سے عاری نیشنلائزیشن کی تھی۔ تب اپنے تاسیسی پروگرام میں پی پی نے سرمایہ داری کے تحت قائم اجارہ داریوں اور بائیس خاندانوں میں دولت کے ارتکاز کی بیماری کا علاج سوشلسٹ نظام معیشت کے ذریعے تشخیص کیا تھا اور کہا تھا کہ "ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ طبقات سے پاک سماج کی تشکیل سے ہی ممکن ہے۔”
اس کا واضح مطلب سرمایہ داری اور سامراجیت کا خاتمہ تھا، مگر پاکستان میں نیشنلائزیشن "اسٹیٹ کیپٹل ازم” یا ریاستی سرمایہ داری کے اندر ہی کی گئی تھی، جو اپنے منشور اور مقاصد سے انحراف تھا۔ بہرحال اس کے کچھ مثبت اور کچھ منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ پاکستان میں رسوائے زمانہ نجکاری ہمیشہ سے سامراجی اطاعت گزاری اور عالمی سامراجی اداروں کی شرائط کے تحت کی جاتی رہی، اور اس میں ہر طرح کا جھوٹا پروپیگنڈہ بھی استعمال کیا گیا۔ نجکاری کی راہ ہموار کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے منافع بخش اور فعال اداروں کو برباد کیا گیا۔
دنیا میں کوئی ادارہ، خدمات، کاروبار، حتی کہ ذاتی استعمال کی کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جسے اپ گریڈ کیے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ ایک چھوٹی سی ورکشاپ کو بھی گاہے بگاہے عہد حاضر کی جدت کے مطابق بہتر نہ بنایا جائے تو وہ غیر فعال ہوجاتی ہے، مگر پاکستان میں ریاستی سطح پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بھینس کا کام صرف دودھ دینا ہے اور اس کو چارہ ڈالنا، ویکسی نیشن کرنا، علاج معالجہ کرنا اور بہتر حالات میں رکھنا ضروری نہیں ہے۔
چنانچہ نہ صرف ایسی ایئر لائن، جو کہ دنیا کی بہترین فضائی سروس تھی اور دنیا بھر کے لیے قابل مثال اور استاد کا درجہ بھی رکھتی تھی، کو برباد کر دیا گیا۔ اس کی آمدنی میں سے اسے عہد کی جدت سے مسابقت کے لیے درکار وسائل سے محروم رکھا گیا، بلکہ اسے سرکاری حکام، زورآور محکموں، پارلیمنٹیرینز، اور اہلکاروں کی بیگار کے لیے استعمال کیا گیا۔ دنیا بھر کے منافع بخش ایئر روٹس اور سواری ہونے کے باوجود ایئر لائن کو خسارے میں دھکیلا جانا شعوری طور پر کیا گیا جرم ہے۔ مقابلے میں موجود ایئر لائنز کی نسبت متعدد روٹس پر نہ صرف کرایہ زیادہ رکھا جاتا تھا بلکہ دورانِ سفر خدمات، ماحول اور معیار میں گراوٹ پالیسی سازوں کا امتیاز رہا ہے۔ پی آئی اے کی بربادی کے تمام راستے مسلم لیگ نون کی "اوپن سکائی پالیسی” کے بعد کھلے جب پاکستان کے فضائی راستوں، ایئرپورٹس اور روٹس پر دیگر جدید نجی ائیر لائینز کو مفت رسائی دے دی گئی مگر پی آئی اے کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا گیا۔ یہاں منافع بخش ائیر لائن خسارہ کی طرف چلی گئی۔
پی آئی اے تباہ کرنے والے تمام عوامل اہم ہیں مگر تحریک انصاف کے وزیر ہوابازی سرور خان کا پائلٹس کی اسناد کے جعلی ہونے کا بیان نہ صرف مجرمانہ تھا بلکہ اس کی مکمل تباہی میں اس کا بڑا کردار ہے۔ اسی طرح پاکستان اسٹیٹ آئل کے ذریعے تیل کی بندش کا معاملہ 2015ء میں پاکستان اسٹیل ملز کی گیس روکنے کی طرح سنگین اور فیصلہ کن رہا ہے۔ جہاں ایک طرف پبلک سیکٹر کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے تباہ کیا گیا، وہیں پچھلے چونتیس سالوں میں سینکڑوں اداروں کی بلاوجہ، مشکوک، غیر منافع بخش نجکاری نے پاکستان میں بے روزگاری، اجارہ داری اور صنعتوں کی بندش کے ساتھ بدعنوانی کی نئی قسم کو فروغ دیا۔
پاکستان کا حکمران طبقہ چونکہ خود بدعنوان اور سامراجی ایجنٹ ہے، اس لیے ماضی کی تمام نجکاری کا جائزہ لینے کے لیے ورکرز کمیٹیاں قائم کی جائیں جن میں نجکاری سے متاثرہ مزدوروں اور ٹریڈ یونینز کو شامل کیا جائے۔ ان کمیٹیوں کے دائرہ کار میں ماضی کی نجکاری کے نتائج، اثرات، بے روزگاری، اجارہ داری، بے ضابطگیوں، اور نقصانات کا جائزہ لے کر ذمہ داروں سے "وصولی” اور سزاؤں کا تعین شامل ہو۔
نجکاری پالیسی عوام دشمن بھی ہے اور ملک دشمن بھی۔ اس پالیسی کا خاتمہ ضروری ہے۔ پاکستان کے محنت کشوں کا مطالبہ ہے کہ پی آئی اے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں، تعلیمی ادارے، اسپتال، زرعی ترقیاتی بینک سمیت نجکاری کی فہرست میں شامل تمام اداروں کی نجکاری سے باز رہا جائے۔ ضرورت ہے کہ فوری طور پر ماضی کی نجکاری زدہ اداروں کے چلنے یا بند ہونے اور نجکاری سے فیض یاب ہونے والے سرمایہ داروں کے ذمہ واجبات کا تعین کیا جائے۔ ان کو دیے گئے ادارے فوری طور پر ری نیشنلائز کیے جائیں اور نجکاری سے فیض یاب ہونے والوں سے ریکوری بمعہ سود کی جائے۔
پبلک سیکٹر کے وہ ادارے، جن کو شعوری کوششوں سے غیر فعال کیا گیا، ان کی کارکردگی متاثر کی گئی اور پیداواری عمل میں خلل ڈالا گیا، ان کی ذمہ داری حکومتوں اور افراد کے خلاف مقدمات قائم کرکے ریکوری کی جائے اور سزائیں دی جائیں۔ اس عمل میں ان اداروں میں موجود یونینز یا ایسوسی ایشنز کو بھی شامل کیا جائے جنہوں نے اداروں کی بربادی میں حکومتوں کا ساتھ دیا۔ پبلک سیکٹر کے اداروں کو بحال کرنے کے لیے بیوروکریسی اور انتظامیہ کی بجائے ورکرز کی بحالی کمیٹیاں بنا کر تجاویز مرتب کرائی جائیں تاکہ کسی بھی ادارے کی کارکردگی میں حائل حقیقی مسائل سامنے لائے جا سکیں۔ پبلک سیکٹر کے اداروں، کارخانوں اور خدمات کے شعبوں کو جدت دی جائے اور انہیں نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ پبلک سیکٹر کو فعال، جدید اور تیز رفتار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں مسلسل "ری انوسٹمنٹ” کے لیے پالیسی بنائی جائے اور ہر ادارے اور شعبے کے لیے ریسرچ سنٹرز قائم کیے جائیں جو دنیا بھر کے اداروں کا تقابلی جائزہ لینے اور نئے امکانات کی نشاندہی کا کام کریں۔