لاہور (جدوجہد رپورٹ) خیبر پختونخوا کے سابقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں امن کیلئے جدوجہد کرنے والے 4 دوستوں کے قتل کے خلاف نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم)، پراگریسیو سٹوڈنٹس کلیکٹو (پی ایس سی)اور ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ (آر ایس ایف) سمیت دیگر سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں نے شدید احتجاج کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی نوجوانوں کے قتل کی شدید مذمت اور قاتلوں کی فی الفور گرفتاری کے مطالبات کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ واقعہ اتوار کی دوپہر کو اس وقت پیش آیا جب لاہور یونیورسٹی کے طالبعلم سنید احمد داوڑ، محکمہ صحت کے ملازم اسد اللہ، مقامی معلم وقار احمد داوڑ اور ریسکیو محکمہ کے ملازم عماد داوڑ ایک دوست کے ہاں کھانا کھانے کے بعد واپس جا رہے تھے۔ نامعلوم افراد کی فائرنگ کی وجہ سے یہ چاروں دوست موقع پر ہلاک ہو گئے۔
مقامی ذرائع کے مطابق یہ چاروں دوست سیاسی حوالے سے متحرک تھے اور ’یوتھ آف وزیرستان نامی‘ تنظیم کے سرگرم رکن تھے۔ تاحال کسی نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور نہ ہی پولیس نے اس حوالے سے کوئی معلومات عام کی ہے۔
’بی بی سی‘ کے مطابق شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس جہانزیب خان نے بتایا کہ ’چاروں ساتھی ایک کار میں سوار تھے کہ اچانک موٹر سائیکلوں پر سوار حملہ آور آئے اور گاڑی پر دونوں جانب سے فائرنگ کی۔حملہ آور کارروائی کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ پولیس نے حسبِ معمول علاقے کو گھیرے میں لے کر تفتیش شروع کر دی ہے اور اس واقعے کے بعد چاروں افراد کی لاشیں میر علی ہسپتال لائی گئی ہیں۔‘
شمالی وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی اور این ڈی ایم کے سربراہ محسن داوڑ نے بتایا کہ ’ملک میں جنگی کاروبار جاری ہے اور یہاں لوگ لاشیں اٹھا رہے ہیں اور حکومت جرگے کر رہی ہے۔ گمان ہے کہ یہ علاقہ شدت پسندوں کے حوالے کیا جا رہا ہے اور اس علاقے کے حوالے سے کوئی اچھا منصوبے نہیں ہیں۔ شدت پسندوں کے ساتھ خفیہ مذاکرات کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کیونکہ ان مذاکرات کے لیے پارلیمان میں کوئی بات نہیں کی گئی۔‘
ہلاک ہونے والے چاروں دوست علاقے میں امن کے قیام کیلئے متحرک اور نوجوانوں کی آواز سمجھے جاتے تھے۔ سنید احمد داوڑ این ڈی ایم کے سرگرم رکن تھے۔ ان کے حوالے سے محسن داوڑ نے بتایا کہ وہ لاہور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ایک ترقی پسند سوچ رکھنے والے نوجوان تھے۔
مقامی لوگوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اسد اللہ محکمہ صحت کے ملازم تھے اور اس سے پہلے یوتھ آف وزیرستان کے رکن تھے، وہ الخدمت فاؤنڈیشن اور اسلامی جمعیت طلبہ بنوں کے سابق ناظم بھی رہ چکے تھے۔ انہوں نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل حاصل کر رکھی تھی۔
وقار احمد داوڑ میر علی کے مقامی اسکول میں معلم تھے، جبکہ عماد داوڑ ریسکیو کے محکمہ میں کام کرتے تھے۔
سوشل میڈیا پر اس واقعے پر شدید رد عمل ظاہر ہو رہا ہے۔ قتل ہونے والے نوجوانوں کی قتل سے قبل کھانا کھاتے ہوئے بنائی گئی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ ’4 تعلیم یافتہ نوجوانوں کو قتل کیا گیا ہے اور جو اپنے علاقے پر ظلم کے خلاف بھر پور آواز اٹھانے والے تھے اور ان کے قتل سے احتجاج کرنے والی آوازوں کو خاموش نہیں کیا جا سکے گا۔‘
پراگریسیو سٹوڈنٹس کلیکٹو کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ’پی ایس سی لاہور یونیورسٹی کے طالبعلم سنید داوڑ اور ان کے تین ساتھیوں کے قتل کی شدید مذمت کرتی ہے۔ یہ پشتونوں پر حملہ اور طلبہ پر حملہ ہے۔ ریاست اور سکیورٹی فورسز اپنے شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہیں۔ ہم نے اپنے ٹیکس کے پیسوں سے دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے اربوں روپے دیئے ہیں، لیکن کئی آپریشنوں کے بعد بھی لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ وہ پیسہ کہاں گیا؟ سابق فاٹا میں دہشت گردی عروج پر کیوں ہے؟ ہمیں جواب چاہیے!‘
ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ (آر ایس ایف) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ’شمالی وزیرستان میں عماد، سنید داوڑ، وقار اور اسد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ خطے میں دن بدن حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں اور ریاست عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ آر ایس ایف طلبہ رہنماؤں کے قتل کی مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘
جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (جے کے این ایس ایف) کی جانب سے جاری بیان میں بھی شمالی وزیرستان میں قیام امن اور خوشحالی کیلئے جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کو اس بہیمانہ طریقے سے قتل کئے جانے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ریاست شہریوں اور نوجوانوں کو تحفظ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ امن کے قیام اور دہشت گردی سمیت استحصال اور مسائل کے خاتمے کیلئے آواز اٹھانے والے نوجوانوں کو سرعام قتل کیا جا رہا ہے۔ علی وزیر جیسی انقلابی آوازوں کو جیلوں میں بند رکھا گیا ہے اور دہشت گردوں کیساتھ مذاکرات کئے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ان نوجوانوں کے قتل کی ذمہ داری سکیورٹی اداروں اور ریاست پر عائد ہوتی ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہم فوری طور پر نوجوانوں کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر یہ قاتل بھی ماضی کی طرح گمنام ہی رہے تو پھر نوجوان اور طالبعلم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ یہاں قتل ہونے والی ہر ریاست کی قاتل خود ریاست ہے۔‘