لاہور (جدوجہد رپورٹ) اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ 2011ء میں شروع ہونے والی شام کی لڑائی کے پہلے 10 سالوں میں 3 لاکھ سے زائد شہری مارے گئے ہیں۔ ملک میں تنازعات سے متعلق شہریوں کی ہلاکتوں کی تاریخ کا یہ سب سے زیادہ سرکاری تخمینہ ہے۔
یہ تنازعہ مارچ 2011ء میں شام کے مختلف حصوں میں شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں سے شروع ہوا، جس میں مصر، تیونس، یمن، لیبیا اور بحران میں عرب بہار کے مظاہروں کے بعد جمہوری اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا تھا، اس تحریک نے کئی دہائیوں سے اقتدار میں رہنے والے عرب رہنماؤں کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔ تاہم شام میں یہ تیزی سے مکمل طور پر پھیلی ہوئی خانہ جنگی میں بدل گیا، جس نے لاکھوں افراد کو ہلاک اور ملک کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا۔
’اے پی‘ کے مطابق منگل کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی طرف سے شائع ہونیو الی رپورٹ میں شہری ہلاکتوں کے بارے میں دستیاب اعداد و شمار کا سخت جائزہ اور شماریاتی تجزیہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق شام میں یکم مارچ 2011ء سے 31 مارچ 2021ء کے درمیان 3 لاکھ 6 ہزار 887 شہری لڑائی کی وجہ سے مارے گئے۔
اعداد و شمار میں جنگ میں ہلاک ہونے والے فوجی اور باغی شامل نہیں ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان اعداد و شمار میں وہ لوگ بھی شامل نہیں ہیں جنہیں حکام کو مطلع کئے بغیر ان کے اہل خانہ نے ہلاک اور دفن کیا تھا۔
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے کہا کہ ”یہ وہ لوگ ہیں جو براہ راست جنگی کارروائیوں کے نتیجے میں مارے گئے ہیں۔ اس میں وہ بہت سے شہری شامل نہیں ہیں جو صحت کی سہولیات کے فقدان، خوراک، صاف پانی اور دیگر ضروری انسانی حقوق تک رسائی سے محروم ہونے کی وجہ سے مر گئے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”اس رپورٹ میں تنازعات سے متعلقہ ہلاکتوں کے اعداد و شمار محض تجریدی اعداد کا مجموعہ نہیں ہیں، بلکہ انفرادی انسانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔“
رپورٹ کے مطابق 3 لاکھ 6 ہزار 887 کے تخمینہ کا مطلب ہے کہ اوسطاً ہر روز گزشتہ 10 سالوں میں 83 شہری تنازعات کی وجہ سے پرتشدد موت کا شکار ہوئے۔