راولاکوٹ (نامہ نگار) پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جاری احتجاجی تحریک کے قائدین اور حکومت کے مابین مذاکرات کامیاب ہو کر معاہدہ طے پا گیا ہے۔ حکومت کے ساتھ معاہدے کے بعد کوٹلی جیل میں پابند سلاسل نیشنل عوامی پارٹی کے صدر سردار لیاقت حیات خان اور تھانہ پولیس راولاکوٹ میں پابند سلاسل لیاقت حیات کے ساتھیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
تاہم راولاکوٹ ڈسٹرکٹ جیل میں موجود نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں کے علاوہ دیگر سیاسی رہنماؤں کی رہائی ابھی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ آل پارٹیز پیپلز رائٹس فورم کے رہنماؤں کے مطابق جیل میں موجود ساتھیوں کی رہائی تعطیلات کے باعث ممکن نہیں ہو پائی، انہیں 10 اگست کو رہا کیا جائے گا۔ شرکا دھرنا نے 10 اگست کو ڈسٹرکٹ جیل میں قید رہنماؤں کی رہائی تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
راولاکوٹ کے علاوہ دیگر اضلاع اورتحصیل صدر مقامات پر دیئے گئے احتجاجی دھرنے ختم کر دیئے گئے ہیں۔
حکومتی وزرا اور انتظامی افسران کے ساتھ آل پارٹیز پیپلز رائٹس فورم کے 25 رکنی وفد کے مذاکرات اتوار کی شام شروع ہوئے تھے، جن کے تقریباً 7 گھنٹے تک جاری رہنے کے بعد ایک تحریری معاہدہ کیا گیا۔
7 نکاتی معاہدے پر وزرا حکومت سردار میر اکبر خان اور سردار فہیم اختر ربانی کے علاوہ آل پارٹیز پیپلز رائٹس فورم کے 22 نمائندگان نے دستخط کئے ہیں۔
معاہدے کے مطابق ’مجوزہ مسودہ پندرہویں آئینی ترمیم اور مجوزہ ٹورازم پروموشن ایکٹ کو موجودہ تجاویز کے ساتھ اسمبلی فورم پر پیش نہیں کیا جائیگا۔ ججوں، سابق و موجودہ صدور، سابق و موجودہ وزرا اعظم، بیوروکریٹس کی مراعات کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دی جائیگی، جو مراعات کا از سرنو جائزہ لیکر قانون سازی کروائے گی۔‘
معاہدے کے مطابق ’بجلی کے ٹیکسوں اور فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے حوالے سے وزیر اعظم کے اعلان پر عملدرآمد کیا جائے گا، جو اندر دو ماہ مجاز اتھارٹی کو سفارشات پیش کرے گی۔ لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ عوامی مطالبے کے پیش نظر حکومت پاکستان سے لوڈ شیڈنگ فری زون قرار دلوانے کا کیس اٹھائے گی اور مطلوبہ 435 میگا واٹ بجلی کی منظوری حاصل کرے گی۔ آٹے کی سبسڈی اور ایلوکیشن کو پورا کرنے کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائیگی، جو جائزہ لے کر حکومت کو سفارشات پیش کرے گی۔‘
معاہدے میں جملہ اسیران کے حوالے سے لکھا گیا کہ ’جملہ اسیران کو غیر مشروط اور فی الفور رہا کیا جائیگا، اس دوران درج مقدمات ختم کئے جائیں گے۔ تاہم مورخہ 25 جولائی 2022ء کو کھڈ میں ہونے والے واقعے کی نسبت درج ہونے والی ایف آئی آر التوا میں رکھی جائیگی اور اس واقعے کی نسبت چھان بین کیلئے صدر بار ایسوسی ایشن راولاکوٹ سردار جاوید شریف ایڈووکیٹ، سردار واجد ایڈووکیٹ اور سردار شمشاد ایڈووکیٹ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائیگی۔ یہ کمیٹی واقعہ کی فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کر کے 15 ایام کے اندر رپورٹ پیش کرے گی۔ ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی بھی اس کمیٹی کے ممبران ہونگے۔‘
دوران حراست پولیس کے تھرڈ ڈگری ٹارچر کا نشانہ بننے والے عابد عزیز کے حوالے سے معاہدہ میں لکھا گیا کہ ’عابد عزیز کے حوالے سے طے پایا کہ معاملہ عدالت مجاز میں زیر کار اور زیر سماعت ہے، مجاز عدالت کے فیصلہ پرعملدرآمد کیا جائے گا۔
مذاکراتی معاہدے پر سوشل میڈیا پر شدید تحفظات کے اظہار کے علاوہ سیاسی کارکنان کی طرف سے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیاجا رہا ہے۔ مذاکراتی کمیٹی میں شامل ایک رکن کے مطابق مذاکراتی کمیٹی میں شامل افراد کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے 6 گھنٹے کے دوران کسی ایک پوائنٹ پر بھی اتفاق نہیں ہو پا رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مطالبات منوانے کی بجائے آخر میں عجلت میں کی گئی تحریر میں بے شمار مسائل ضرور موجود ہیں۔ تاہم اس کیفیت میں اس سے بہتر معاہدہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔
دوسری طرف احتجاج میں شامل لوگوں کا موقف ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں بشمول وزیر اعظم نے جب ٹورازم پروموشن ایکٹ اور تیرہویں ترمیم کو مشترکہ طور پر مسترد کر دیا تو پھر اس بابت معاہدہ میں مبہم تحریر لکھنا مذاکراتی ٹیم کی ناکامی ہے۔ اس کے علاوہ جب وزیر اعظم نے تمام اسیران کو غیر مشروط رہا کرنے اور مقدمات واپس لینے کا اعلان کر دیا، تو اس کے بعد ایک واقعہ کے مقدمات کو التوا میں رکھ کر انکوائری کمیٹی قائم کرنا بھی مذاکراتی ٹیم کی ناکامی ہے۔
اس کے علاوہ بجلی کے ٹیکسوں اور لوڈ شیڈنگ فری زون کے حوالے سے بھی معاہدے میں لکھے گئے موقف پر لوگوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اس بات کا اظہار سوشل میڈیا سمیت نجی محفلوں میں بھی کیا جا رہا ہے کہ عوامی طاقت اور تحریک کے سامنے ریاست گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی ہے البتہ قیادت عوامی طاقت کے پشت پر ہونے کے باوجود حکومت سے مطالبات اپنی مرضی و منشا کے مطابق منوانے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے۔