لاہور (جدوجہد رپورٹ) ’موٹی‘ عرب خواتین سے متعلق ’دی اکانومسٹ‘ کے مضمون پر عرب ملکوں میں شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق میگزین نے عرب خواتین کے موٹاپے سے متعلق اپنے ایک مضمون میں عراقی اداکارہ ایناس طالب کی تصویر شائع کی۔ تصویر پر لکھی گئی سرخی ’عرب دنیا میں خواتین مردوں سے زیادہ موٹی کیوں ہیں؟‘ اداکارہ کو شدید ناگوار گزری۔
مذکورہ مضمون نے سوشل میڈیاپر شدید تنقید کو جنم دیا۔ ٹویٹر کے صارفین نے اسے بدتمیزی قرار دیا۔ مقامی حقوق کے گروپوں نے مذمت کی۔ کچھ لکھاری اس بات پر حیران تھے کہ عرب خواتین کے بارے میں دقیانوسی اور گھٹیا تصورات ظاہر کئے گئے ہیں۔
دوسری طرف 42 سالہ ایناس طالب نے میگزین کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
طالب کے کیس اور اس نتیجے میں ہونے والے ہنگامے نے عرب خطے میں باڈی شیمنگ کے مسئلہ پرروشنی ڈالی ہے، جس کی جڑیں بہت گہری ہیں، لیکن اس خطے میں شاذ و نادر ہی زیر بحث آتا ہے۔
اے پی کے مطابق دی اکانومسٹ نے تبصرہ کیلئے متعدد درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
تحقیق کے مطابق برانڈنگ، ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے مغربی خوبصورتی کے آئیڈیل کی عالمگیریت نے طویل عرصے سے غیر حقیقی جسمانی معیارات کو جنم دیا ہے، جو عرب دنیا میں خواتین کی اپنے اور دوسروں کے بارے میں توقعات کو کم کرتے ہیں۔
عرب دنیا میں فربہ خواتین کو امیر اورکچھ علاقوں میں خوبصورتی کی علامت قرار دیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اب صورتحال اور معیارات تبدیل ہو رہے ہیں۔
لبنان میں کاسمیٹک سرجری کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے، دبئی کی زید یونیورسٹی میں ایک تحقیق کے مطابق اماراتی طالبات میں سے تقریباً 75 فیصد نے اپنے جسم سے عدم اطمینان ظاہر کیا اور 25 فیصد کھانے کے مسائل ہیں۔
عراق میں خواتین کی وکالت کرنے والی تنظیموں نے اکانومسٹ کی رپورٹ کو غنڈہ گردی قرار دیتے ہوئے اس رپورٹ کی مذمت کی اور میگزین سے ایناس طالب سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔
عراقی صحافی منارالزبیدی کے مطابق ’عرب خواتین کی باڈی شیمنگ ایسی دنیا میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، جہاں زیادہ تر میڈیا آؤٹ لیٹس خواتین کو استعمال کرتے ہیں اور انہیں طنزیا فتنہ کا نشانہ بناتے ہیں۔‘
انکا کہنا تھا کہ اس سلسلہ کو روکنے کیلئے سوائے سوشل میڈیا پر مہم اور چیلنجز کے کچھ نہیں ہے۔