عطا انصاری
بات دراصل جدید تھیٹر کے ذریعے کثیرالثقافتی معاشرے، انسانی رویوں، نفسیاتی الجھنوں اور ہجرت کے متعدد پہلوؤں پر کرنی ہے، مگر میں مرزا غالب کے ایک مصرعے سے نارویجن ڈرامہ ”سوفی صد“ پر انپے اس مضمون کاآغاز کرنا چاہتا ہوں: ”ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں توکیا ہوتا۔“
کائنات میں اپنی تلاش کاسفر نہ جانے کب سے جاری ہے۔ کبھی ہم یہ جانناچاہتے ہیں کہ انسان کیوں پیدا ہوا تو کبھی یہ پوچھتے ہیں کہ یہ دنیا کیونکر وجود میں آئی اورمقصد ِحیات کیا ہے؟ وجودیت سے جڑے سارے سوال درحقیقت اپنی پہچان کی تلاش کا سفر ہے لیکن کیااپنی تلاش کا سوال اپنے معاشرے، اپنے حالاتِ زندگی اور انسانی رویوں سے بھی جوڑا جاسکتاہے؟ شاید آپ سوچیں کہ پھر تو یہ سوال روحانیت کے زمرے سے نکل کر سماجیات اور نفسیات کے دائرے میں داخل ہو جائے گا۔
میرا اگلا سوال یہ ہو گا کہ ایک ایسا شخص جس کا تعلق سرزمین پاکستان سے نہ ہونے کے برابر ہے، جس نے وہاں کا پانی نہیں پیا اور نہ ہی وہاں کی فضاؤں میں کبھی سانس لی، وہ شخص اپنے والدین سے ملے ورثے میں اک عجب سی روحانیت کیوں محسوس کرتا ہے؟ کیا روحانیت کادائرہ فقط مذہب وعقائد تک محدود ہے یا پھر اس دائرے کو وسیع کردینے سے انسانی رویوں اورنفسیاتی الجھنوں کو سمجھتے میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے؟ نارویجن ڈرامہ ”سوفی صد“ ایک نامور وکیل اور ماہر نفسیات کے درمیان ایک مکالمے پرمبنی کھیل ہے جس میں کئی سیاسی و سماجی سوالوں کوزیربحث لایا گیا ہے مثلاً ایک کثیرالثقافتی معاشرے میں اقلیتوں پر اکثریت کا سیاسی و سماجی دباؤ کیا اثرات مرتب کرتا ہے، اقلیتوں کو دانستہ یا غیردانستہ طورپر جن توقعات کے تابع کیاجاتا ہے وہ انفرادی و اجتماعی طورپر کن رویوں کوجنم دیتی ہیں؟ہجرت کا ثمر کبھی میٹھا تو کبھی کڑوا کیوں لگتاہے؟ ایسے میں ایک سوال جو ہر وقت کھٹکتا رہتا ہے، وہ ہے اپنی شناخت اور اپنی پہچان کا سوال۔
’سو فی صد‘ کا مرکزی کردار فاروق گھمن ناروے میں طویل زندگی گزار چکا ہے، وہ شہر کا قابل ترین وکیل ہونے پر بے حد خوش ہے، اس کے والدین پاکستان سے پچاس برس قبل ہجرت کر کے ناروے آبسے تھے۔ اب وہ خود بھی صاحب اولاد ہے اور ادھیڑ عمری کے عالم میں اک عجیب سے اضطراب میں مبتلا ہے۔
فاروق ناروے کو ہی اپنا گھر مانتا ہے، شفاف جمہوریت اور مساوات کا قائل ہونے کے ساتھ جذباتی طور پر بھی نارویجن ثقافتی و سماجی حلقوں میں خوشی واطمینان محسوس کرتا ہے۔ اچانک اک روز اس کے ذہن میں نت نئے سوال جنم لینا شروع کردیتے ہیں۔
اس کے ہر سوال کے پیچھے ایک ہی سوال چھپا ہے کہ وہ کون ہے۔ وہ اپنی کشمکش کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ اس کی اپنی بیٹی جس کا اس نے نارویجن نام ”نینا“ (Nina) رکھا تھا مگر وہ اب نوجوانی کی عمر کو پہنچ کر اپنے آپ کو نبیلہ کہلوانا پسند کرتی ہے۔ وہ اب اپنے والدین اور پچھلی پیڑھی کی طرح ناروے کی تعریفوں کے پل نہیں باندھتی اور نہ ہی ہر وقت ناروے کا شکریہ ادا کرتی رہتی ہے، بلکہ سیاہ فام لوگوں سے ہونے والی زیادتی کے خلاف جدوجہد کرنا زیادہ اہم سمجھتی ہے۔ وہ تنقید کرنے سے ذرا نہیں ڈرتی اور نہ ہی اس کی سوچ کادائرہ ناروے تک محدود ہے۔
ادھر فاروق خود بھی پاکستانی قومی ہیروز سے انسیت محسوس کرنے لگتا ہے جبکہ وہ پہلے پوری عمر نارویجن اقدار اور اسپورٹس اسٹارز کا مداح رہ چکا ہے۔ کیوں اسے اب نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام اوراسکوائش چیمپیئن جہانگیر خاں اپنے لگتے ہیں؟ کیوں اس کے کانوں میں مہدی حسن کی گائی غزل ”گلوں میں رنگ بھرے…“ ہر وقت رس گھولتی رہتی ہے؟ کیوں اسے اب نارویجن قومی شاعر کے نام کا مذاق اڑانے میں مزہ آتا ہے، جبکہ فیض احمدفیضؔ کو اپنے دل کے بے انتہا قریب محسوس کرنے لگا ہے؟ ان سب سوالوں کے تیر فاروق کے گرد کامیابی اور توقعات کے ہالے میں جب سراغ کرنے لگتے ہیں تو اسے خوشی واطمینان کا میٹھا نشہ کڑوا ہوتا محسوس ہوتا ہے اور وہ ایک بدحواسی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اپنی الجھنوں سے نجات پانے کے لیے فاروق شہر کے مہنگے ترین ماہر نفسیات سے رجوع کرتا ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک مکالمہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ مکالمہ ہی فاروق کی الجھنوں اور کشمکش کا بیان ہے اور پورا کھیل معالج اور مریض کے درمیان بار بار ہونے والی تکرار وبات چیت پر مبنی ہے معالج و مریض کے درمیان کئی سماجی اور سیاسی موضوعات اور تاریخی واقعات وشخصیات کا بھی سرسری ذکر ہوتا ہے۔ اس طرح یہ ڈرامہ حالات حاضرہ سے جڑ جاتا ہے۔
مریض بولتا ہے اور معالج سنتا رہتا ہے اور آخر میں اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ فاروق سو فی صد یعنی ایک ایسی مکمل و پائیدار خوشی حاصل کرلینا چاہتا ہے کہ جس سے ہر کمی کا احساس ختم ہوجائے۔
جب تک فاروق میں اپنی کھوج کا جذبہ نہیں پیدا ہوا تھا وہ مطمئن بھی تھا اور خوش و خرم بھی۔ اپنی شناخت کی دریافت کا سفر شاید سننے اورپڑھنے میں آسان لگے مگر اس کیفیت سے پاکستان میں ہندو، احمدی، کرسچن اور دوسری اقلیتیں بھی انفرادی اور اجتماعی طورپر گزرتی ہیں۔
میں کون ہوں؟ ہم کون ہیں؟ میری پہچان کیا ہے؟ میرا اور مجھ جیسے لوگوں کا معاشرے میں کیا مقام ہے؟ یہ سوال ہر معاشرے ہر ملک میں زیر بحث ہے مگر اکثریت عام طور سے ایک مست ہاتھی کی طرح گنے چوسنے میں مصروف نظر آتی ہے۔ اقلیتوں کے مذہب، رنگ، زبان وثقافت کو مسلسل نشانہ بنانے کا یہ رویہ اقلیتوں میں اپنے ہی معاشرے سے ہونے والی فطری محبت کو زنگ آلود کر دیتا ہے۔ اس لیے ٹونی عثمان اور کھرستیان لیکسلیت سترومسکاگ کاتحریر کردہ ڈرامہ ”سو فی صد“ ہر معاشرے کی کہانی ہے۔ پاکستان سے ملتی جلتی صورتحال انڈیا کی بھی ہے کہ جہاں ہندوؤں کے ایک گروہ میں تمام دوسرے مذاہب سے نفرت کا رجحان خطرناک حد تک زور پکڑ چکا ہے۔
ناروے میں قطعاً پاکستان یا انڈیا جیسے حالات نہیں مگر یہاں بھی ایک کشمکش تو ہر صورت موجود ہے۔ ”سو فی صد“ میں فا رو ق کی ذہنی کشمکش کو اجاگر کرنے کے لیے موسیقی اور رقص کا باخوبی استعمال کیا گیا ہے۔ مکالمے کے دوران گاہے بگاہے ایک رقاص نمودار ہوتاہے۔ اس کا رقص، روایتی رقص سے ہٹ کر ہے۔
ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب یہ رقص ِبسمل کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کبھی تڑپنے کی کیفیت، کبھی گٹھن کا احساس تو کبھی ڈوبنے اور فنا ہو جانے کا خوف، ان سب کیفیتوں کو انڈیا اور ناروے سے تعلیم یافتہ سدھیش ادھانا نے ایسے اجاگر کیا کہ رقص ڈرامہ کا ایک اہم جزو بن گیاہے۔ ایک موقع پر سدھیش ادھانا زمین پر رینگتے ہوئے نمودار ہوتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ فاروق کی بے چینی وبے بسی کی تصویر کشی ہے یا پھر ایک مرتبہ وہ ایسے اندھیرا چیرتے ہوئے آتے ہیں کہ جیسے کوئی انسان تو ہے مگر اس کا سر نہیں۔
اس ڈرامے کی تیاری نہایت کم وقت میں کی گئی مگر پروڈکشن کا معیار انتہائی اعلیٰ اور جھول سے پاک تھا۔ اداکاری کے حوالے سے معالج کا رول کرنے والے نارویجن ادار کا ر کھنیوت ستین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا تب منوایا جب وہ اچانک اپنی پریشانیوں کا قصہ چھیڑ دیتے ہیں۔ یک دم معالج اور مریض کے کردار بدل جاتے ہیں اور تب معلوم ہوتا ہے کہ ماہر نفسیات خود بھی شدید الجھن وکوفت کاشکار ہے۔ شاید یہی بات فاروق کی آنکھیں کھول دیتی ہے کہ دنیا میں کوئی بھی سو فی صد خوش یا کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ساتھ ہی فاروق پر ایک راز یہ بھی عیاں ہوتاہے اسے ہر حال میں اپنے آپ کو تسلیم کرنا چاہیے۔
فاروق کا کردار بھارتی نژاد نارویجن اداکار منیش شرما نے یوں ادا کیا کہ کہیں فاروق کی دیوانگی، کہیں وکیل کا تیز طرار مزاج تو کہیں ایک پریشان شخص کے عجیب و غریب سوال، سب ہی فاروق کے مختلف رنگ نظر آئے اور کردار کی بھرپور عکاسی ہو سکی۔
ٹونی عثمان نے ہدایت کاری اور تھیٹر پر اپنی گرفت کاایک بار پھرمظاہرہ کر کے ثابت کیا کہ تھیٹر اپنے زمانے کے حالات کوجس قدر باریکی اورنزدیک سے دیکھ سکتا وہ صلاحیت کسی اور مادھیم میں نہیں۔
ہر معاشرے میں نہ جانے کتنے ہی فاروق اپنی تلاش میں اک اضطراب میں مبتلا ہوں گے کہ شاید ان ہی کے لیے شاعر نے کہا تھا:
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے