پرویز امیر علی ہود بھائی
چھ ہفتوں سے پاکستان میں لوگ اس بات پر سیخ پا ہیں کہ کشمیر پر بھارتی قبضہ ہو گیا ہے مگر دنیا کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ پاکستانیوں کو اصل دھچکا تو اس بات پر لگا کہ ان کے دو قریب ترین اتحادی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، کشمیر کے مسئلے پر یا تو بھارت کے حمایتی نکلے یا خاموش رہے۔
’’پاکستان کا موقف سمجھانے کے لئے‘‘ جب وزیر اعظم عمران خان نے ان دو ممالک کے وزرائے خارجہ کو پاکستان آنے کی دعوت دی تو بہت سے لوگوں کو لگا کہ شائد ان ممالک کے موقف میں کچھ تبدیلی آئے۔ کیا ان ممالک کی سوچ میں کچھ بدلاؤ آیا؟
کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ 4 ستمبر کو اسلام آباد میں دونوں وزرائے خارجہ عمران خان اور جنرل باجوہ سے ملے۔ اس ملاقات کے بعد وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بیان دیا: ”ہمیں امید ہے یہ دونوں ممالک ہمیں مایوس نہیں کریں گے۔ دونوں ممالک کے وزرا نے ہمارا موقف سنا ہے“۔
اس سے زیادہ شائستہ اور بے ضرر بیان ممکن نہیں تھا۔ نشست و برخاست سے زیادہ توقع کسی کو بھی نہ تھی مگر ان ملاقاتوں نے تینوں ممالک کو فوٹو سیشن کا ایک اچھا موقع ضرور فراہم کیا: پاکستان اب یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ سفارتی محاذ پر اس نے ان دونوں ممالک کو اعتماد میں لیا۔ ادہر، ہندوستان کو ناراض کئے بغیر دونوں ممالک یہ ثابت کر پائے کہ وہ اس خطے میں بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
ان دوروں سے البتہ ٰپاکستانی میڈیا کی پیالی میں آیا ہوا طوفان تھمنے والا نہیں۔ یہ طوفان تب ہی دم لے گا جب میڈیا کو لگام دینے والے اسے اشارہ دیں گے۔
بھارت کی طرف ان دو عرب ممالک کے جھکاو کی آخر وجہ کیا ہے؟ ہمارے ٹی وی ٹاک شوز اور کالم نگاروں کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی سیاست میں ہر کوئی اپنا مفاد دیکھتا ہے، انسانی اقدار کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ غریب ممالک کی کسی کو پروا نہیں ہے۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہے مگر فقط جزوی طور پر۔
اگر سعودی عرب /متحدہ عرب امارات کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو پاکستان وہ قرض خوار ہے جسے گاہے بگاہے معاشی دلدل سے نکالنے کے لئے مالی مدد دینی پڑتی ہے۔ پچھلے سال پاکستان کو ان دونوں ممالک نے چھ چھ ارب ڈالر کی امداد فراہم کی۔ سعودی عرب والے پاکستانیوں کو بنگلہ دیش، فلپائن اور سری لنکا وغیرہ کی طرح’مساکین‘ (غربا) میں شمار کرتے ہیں۔ کالم نگار خالد احمد کے مطابق’رفیق‘(عزیز دوست) کی اصطلاح سعودی صرف یورپ اور امریکہ سے آئے ہوئے سفید فام لوگوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بھارت فی الحال رفیق کے درجے پر تو فائز نہیں ہے مگر سعودی عرب بھارتی منصب بارے نظر ثانی کر سکتا ہے۔
ہندوستان کی بڑھتی ہوئی معاشی اہمیت، اس کی افرادی قوت کی ہنر مندی، دہشت گردی کے خلاف اور فوجی میدان میں بڑھتے ہوئے ہند سعودی تعاون کے نتیجے میں دس سال ہوئے کہ اب سعودی عرب ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھتا۔
2016ء میں سعودی بادشاہ نے بذاتِ خود نریندر مودی کو اپنے ملک کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ، شاہ عبدالعزیز ساش، پیش کیا۔ ماضی میں یہ اعزاز شنزو ایبی، ڈیوڈ کیمرون، باراک اوبامہ، ولادیمیر پیوتن اور عبدل الفتح السیسی کو دیا جا چکا ہے۔ ابھی تک کسی پاکستانی کو اس اعزاز سے نہیں نوازا گیا۔
حال ہی میں کہ جب ہندوستان نے کشمیر کو لاک ڈاؤن کیا ہوا تھا، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بھارت میں 2021ء تک 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا۔ اس سال کے شروع میں انہوں نے پاکستان میں بھی 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سرمایہ کاری کے حجم میں یہ فرق دونوں ممالک کے معاشی فرق کو بھی واضح کرتا ہے۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 18-2017ء کے دوران پاک سعودی تجارت کا حجم 7.5 ارب ڈالر جبکہ بھارت سعودی تجارت کا حجم 27.5 ارب ڈالر تھا۔ اسی طرح، سعودی عرب سے پاکستانی تارکین ِوطن نے 2018ء میں 4.9 ارب ڈالر پاکستان بھیجے جبکہ بھارتی مزدوروں نے 12.9 ارب ڈالر بھیجے۔
متحدہ عرب امارات کا رویہ تو پاکستانی زخموں پر نمک چھڑکنے والا تھا۔ بھارت میں امارات کے سفیر، احمد البنا، نے تو آرٹیکل 370 کے خاتمے کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے”استحکام پیدا ہو گا اور امن قائم ہو گا“۔ بعد ازاں، 24 اگست کو متحدہ عرب امارات نے مودی کو آرڈر آف زاید سے نوازا، جو ان کا سب سے بڑا سویلین اعزاز ہے۔ اس اقدام کے جواب میں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے متحدہ عرب امارات کا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا۔
یہ دونوں ممالک کشمیر پر پاکستان کی حمایت کرنے سے صرف بھارت کی وجہ سے نہیں کترا رہے۔ وجہ کچھ اور بھی ہے۔
سعودی عرب میں آلِ سعود کی خاندانی ملوکیت قائم ہے جبکہ متحدہ عرب امارات میں قبائلی شیوخ کی مطلق العنانی ہے۔ ان ممالک میں حکمرانی شاہی خاندان میں پیدا ہونے پر ملتی ہے نہ کہ جمہوری انتخابات، قابلیت یا کسی اور وصف کی بنیاد پر۔ لوگوں کو اپنی رائے دینے کی اجازت نہیں، جمہوریت ایک جرم ہے، اس سے پہلے کہ اختلاف ِرائے سڑکوں پر احتجاج کی شکل اختیار کرے، اسے کچل دیا جاتا ہے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کشمیریوں کے حق ِرائے آزادی کی حمایت شروع کر دیں تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ اگلا سوال ہو گا: یا سلطان! آپ اپنے لوگوں کو یہ حق کب دے رہے ہیں؟ سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ سے کشمیریوں کے حق خود اختیاری کی حمایت کی اتنی ہی توقع کی جا سکتی ہے جتنی اس بات کی کہ وہ اس راز کو فاش کر دیں کہ جمال خشوجی کی لاش کے ٹکڑے کہاں چھپائے گئے تھے۔
عرب بہار نے وقتی طور پر عرب دنیا میں قائم خاندانی ملوکیت اور آمریتوں کو خوفزدہ کیا تھا مگر بہار پلک جھپکتے ہی گزر گئی۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، مصر میں عرب بہار کو کچلنے والے جنرل السیسی کو بھی مودی کی طرح شاہ عبدالعزیز ساش سے نوازا گیا تھا۔ کوئی خلیجی ملک برداشت نہیں کرتا کہ اس کی سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے ہوں۔ نمازِ عید کے بعد جب بحرین میں کشمیر کے لئے مظاہرے ہوئے تو مظاہرہ کرنے پر کئی گرفتاریاں ہوئیں۔
مندرجہ بالا بحث سے البتہ یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ سعودی عرب کو کشمیر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کشمیر میں بھی ایران اور سعودی عرب کے بیچ پراکسی جنگ چل رہی ہے۔ دونوں ممالک اپنا اپنا اسلامی برانڈ کشمیر برآمد کر رہے ہیں۔ مبلغین کے علاوہ، مساجد اور مدارس کی تعمیر کے لئے پیٹرو ڈالر ارسال کئے جا رہے ہیں۔
کشمیر کی حمایت کے مسئلے پر ہر ملک ہی اپنے مفادات کی روشنی میں موقف اپنا رہا ہے۔ ایران کے رہبر ِاعلیٰ نے اگر کشمیر پر بھارت کی مذمت کی ہے تو اس کی ایک وجہ ہے کشمیر کی شیعہ آبادی، جو کل آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔ ہو سکتا ہے ایرانی غصے کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ بھارت نے ایران کے خلاف امریکی پابندیوں پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
سچ پوچھئے تو دوسرے ممالک پر اتنی شدید جرح زیادہ مناسب نہیں کیونکہ پاکستان بھی اپنے مفادات کے لئے بنیادی اصول اکثر پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔
سی پیک کی خاطر وہیگر مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر خاموشی اختیار کر لی گئی۔ سعودی اور اماراتی ناراضی سے بچنے کے لئے یمن پر پاکستان نے چپ سادھ رکھی ہے۔ فوجی و سول امداد کے لئے کئی دہائیوں تک پاکستان امریکی مفادات کے لئے کام کرتا رہا۔
کیا زیادہ بھر پور سفارت کاری کے نتیجے میں پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ دستیاب ریکارڈ سے تو اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دیا جا سکتا۔ بھارتی افواج کے انخلاکے بعد کشمیر تشدد کی لپیٹ میں آ جائے یا جنگ کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جانے کی صورت میں یقینًا صورت حال بدل سکتی ہے۔ پھر بھی مسلم ممالک سے زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ سینٹ میں کشمیر پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سابق چئیرمین سنیٹ رضا ربانی نے کہا:”امت کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے“۔ رضا ربانی کی بات بالکل بجا ہے مگر یہ بات سمجھنے میں پاکستان کو اتنی دیر کیوں لگی؟