فاروق سلہریا
شہباز شریف کی موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے قرضے کی تازہ قسط پر خوشی سے بغلیں بجا رہی ہے۔ روزنامہ جدوجہد اور مارکس وادی تحریک کا پاکستان میں مسلسل یہ موقف رہا ہے کہ عالمی قرضے واپس دینے سے انکار کیا جائے۔ یہ قرضے عوام کو ادا کرنے ہوتے ہیں اور ان قرضوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ عالمی قرضوں کے نتیجے میں صرف امیر طبقہ ترقی کرتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان قرضوں نے کبھی ختم نہیں ہونا، یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ تیسری اہم بات یہ کہ ان قرضوں پر پاکستان شائد اتنا زیادہ سود ادا کر چکا ہے کہ جو شائد اصل رقم سے زیادہ بنتا ہو۔ ویسے ہر غریب ملک کی یہی کہانی ہے۔
قرضوں کی نام نہاد واپسی سے انکار کی کئی مثالیں ہیں۔ اس کی ایک شاندار انقلابی اور ابتدائی مثال انقلاب روس میں قائم ہوئی جب فروری 1918ء میں لینن کی قیادت میں قائم ہونے والی انقلابی حکومت نے عالمی قرضے واپس کرنے سے انکار کر دیا۔
دراصل 1905ء میں جب روس میں انقلاب آیا، جو پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، اسی کے دوران سوویت آف ورکرز ڈیلیگیٹس نے ایک مینی فیسٹو جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ زار شاہی عوام کی نمائندہ نہ تھی اس لئے زار شاہی نے جو بھی قرضے لئے، انہیں واپس نہیں کیا جائے گا۔
اتفاق سے 1905ء کے انقلاب کی ناکامی کے فوری بعد روس نے فرانس نے تقریبا سات لاکھ فرانک کا قرضہ لیا۔ اس موقع پر لبرل پریس نے مزدوروں کی سویت کا مذاق اڑایا جو رقرضوں کی عدم ادائیگی کی بات کر رہی تھی۔ پھر 1917ء کا انقلاب برپا ہوا۔ انقلاب کے تقریبا تین ماہ بعد ہی بیرونی قرضے واپس کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
پاکستان میں بھی جب تک کوئی عوام دوست حکومت قایم نہیں ہوتی، قرضوں کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ ان قرضوں کا عام شہریوں کے لئے مطلب ہے بجلی گیس کے بلوں کے نام پر بھتہ، بے روزگاری، عدم ترقی، تعلیمی نظام کی تباہی، غربت۔ ججوں، جرنیلوں، صنعت کاروں، تاجروں، نوکر شاہی، بدعنوان سیاستدانوں اور بڑے زمینداروں کے لئے ان قرضوں کا مطلب ہے مزید عیاشیاں۔
جب سوویت روس نے قرضوں کی واپسی سے انکار کیا تو بعض معترضین نے کیا کہ انقلاب روس کے بعد بالشویک حکومت اپنے فریضے پورے نہیں کر رہی۔
ٹراٹسکی نے کہا کہ انقلاب نے جو فریضہ اپنے سر لیا تھا وہ پورا کیا اور جہاں تک بات ہے قرضوں کی واپسی کی تو قرض دینے والوں کو 1905ء میں ہی تنبیہ کر دی گئی تھی۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔