فاروق سلہریا
مارکسزم اور مذہب پر بنیادی بحث تین حوالوں سے کی جا سکتی ہے۔ اؤل، مارکسزم نے مذہب پر کیا تھیوری دی یا یہ کہ مذہب کو کیسے تھیورائز کیا گیا۔ دوم، بطور مارکسی پارٹی مختلف خطوں اور وقتوں میں مارکسی تنظیموں کا مذہب کی جانب کیا رویہ رہا۔ اسی پہلو کا تیسراحصہ یہ ہے کہ بعض ممالک جہاں مارکس وادی کہلانے والی پارٹیاں اقتدار میں آ گئیں، وہاں ان تنظیموں نے کیا طریقہ کار اپنایا(بہ الفاظ دیگر ’حزب اختلاف‘ اور بطور حزب اقتدار مارکسی تنظیموں کا رویہ مذہب کی بابت کیسا رہا)۔
مارکسزم اور مذہب کے سیاق و سباق میں مارکسی تھیوری کے حوالے سے کوئی بھی بحث عام طور پر مارکس اور اینگلز سے شروع کی جاتی ہے۔ مذہب بارے ان کی تحریروں کو مدون کر کے شائع بھی کیا جا چکا ہے۔ دلچسپی رکھنے والے قارئین اور بائیں بازو کے کارکن ان تحاریر کو براہ راست پڑھ سکتے ہیں۔
مارکس اور مذہب
مذہب کو تھیورائز یعنی سائنسی انداز میں مذہب بارے تھیوری تشکیل دینے کا عمل انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ہوا۔ مذہب کا تقابل یا اپنے ہی مذہب بارے تحقیق کرنا تو ایک پرانا عمل تھا لیکن مذہب کی تعریف کیا ہے؟ انسانی تہذیب میں اس کا آغاز کیسے ہوا؟ مذہب ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہیں؟ مذہب معاشرے میں کیا کردار ادا کرتے (چلے آئے) ہیں؟ کتنے ہی سوال ہیں جو تھیوری کے حوالے سے سر اٹھانے لگتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہب کیا ہے؟ سکالرز سو سالہ کوشش کے باوجود کوئی متفق تعریف مقرر نہیں کر سکے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ جو سماجی مظہر (Social Phenomena) بالکل عام فہم اور روزمرہ زندگی کا حصہ ہوں، ان کی تعریف متعین کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر میڈیا اور سوشل میڈیا کا لفظ ہم لگ بھگ روز کرتے ہیں مگر میڈیا یا سوشل میڈیا کی تعریف مقرر کرنی پڑے تو بڑے بڑے میڈیا سکالر سر کھجانے لگتے ہیں۔ یہی حال مذہب کا ہے۔ ہم یہ تو با آسانی بتا سکتے ہیں کہ فلاں عیسائی یہودی ہندو مسلمان یا پارسی ہے مگر فلاں شخص یا گروہ مذہبی ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ مشکل ہو جاتا ہے۔ فرض کریں ایک شخص اپنے مذہب کے احکامات پر عمل نہیں کرتا، مگر بنیادی عقائد پر یقین رکھتا ہے۔ کیا ایسا شخص متعلقہ مذہب کا پیروکار کہلا سکتا ہے؟ یا ایک فرقہ جسے مین سٹریم مذہب اپنا حصہ نہیں مانتے (جیسا کہ پاکستان میں احمدی یا ایران میں بہائی)…کیا ایسے فرقے کو مذہب مانا جا سکتا ہے؟ عام طور پر بدھ مت کو مذہب مانا جاتا ہے لیکن اگر کسی ماورائی قوت پر یقین رکھنے کا نام مذہب ہے تو بد ھ مت کو مذہب نہیں مانا جا سکتا۔ اس بحث میں جبر بھی ایک اہم عنصر ہے۔ موت کے خوف سے بعض لوگ اپنے مذہب پر سر عام عمل نہیں کر سکتے۔ وہ سوچ اور عقیدہ کوئی اور رکھتے ہیں مگر جبر کے خوف سے، گردن بچانے کے لئے، نافذ کردہ مذہب کو اپنی شناخت بتاتے ہیں۔ تاریخ میں اس کی ایک مثال سپین میں ملتی ہے کہ وہاں سے عربوں اور یہودیوں کے اخراج کے بعد، جو مسلمان اور یہودی لوگ بچ رہے وہ خود کو عیسائی ظاہر کرتے تھے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں عصر حاضر میں بہت سے ملحد لوگ اپنی شناخت چھپاتے ہیں۔ کیا ایسے لوگوں کو مذہبی کہا جا سکتا ہے جو جبر کے زور پر مذہبی ہیں؟ بعض لوگ خود کو تشکیکی کہتے ہیں یعنی ان کو یقین نہیں ہوتا کہ وہ مذہبی ہیں یا نہیں۔ ان لوگوں کو کس خانے میں رکھا جائے؟۔ اسی طرح مذہب اور کلٹ (Cult) میں فرق موجود ہے۔ اسی کی دہائی سے مڈل کلاس لوگوں میں ’Spiritualism‘ کا بہت فیشن ہے۔ خاص کر سلیبریٹی حضرات بتاتے پھرتے ہیں کہ وہ مذہبی نہیں، سپرچوئل ہیں۔ کیا سپرچوئل ازم اور مذہب ایک ہی چیز ہیں؟ قصہ مختصر، مذہب کی تعریف مقرر کرنا آسان کام نہیں۔ بعض سکالرز نے تو یہاں تک تجویز دی ہے کہ مذہب کی تعریف مقرر کرنے سے پرہیز ہی برتا جائے تو بہتر ہے۔
بہرحال، راقم کے خیال میں، ایک جامع تعریف تو نہیں مگر ایک ورکنگ تعریف یہ ہو سکتی ہے (جو کم از کم موجودہ مضمون کے حد تک مقصد پورا کر سکتی ہے): ”مذہب سے مراد ہے کسی انسٹیٹیوشنل عقیدے میں ایمان رکھنے والی کمیونٹی۔ عقیدے کا بنیادی جزو مافوق الفطرت قوت پر یقین رکھنا جبکہ کمیونٹی کی تشکیل میں مذہبی رسومات کا بنیادی کردار ہونا“ (اگر کوئی ایک شخص کسی ایک عقیدے پر عمل پیرا ہو تو وہ مذہب نہیں ہو گا، کمیونٹی اہم جزو ہے)۔
جہاں تک مذہب کے سائنسی مطالعے کا تعلق ہے تو عام طور پر مذہب پر دو حوالے سے تھیوری تشکیل دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ مذہب کیا ہے، اس کے اندر کیاہے (اسے ’Substantive‘ اپروچ کیا جاتا ہے)۔ دوم، جسے انگریزی میں فنکشنل اپروچ کہا جاتا ہے یعنی یہ کہ مذہب کا ایک معاشرے میں (عمرانی، سیاسی، نفسیاتی، طبقاتی، معاشی) کردار کیا ہے۔ مارکس اور زیادہ تر کلاسیکل مارکسی علامہ حضرات نے مذہب کے بارے میں فنکشنل اپروچ ہی اپنائی (بر سبیل تذکرہ: ہمارے دوست، معروف صحافی شامل شمس نے جون ایلیا کے حوالے سے ایک بار یہ تربیت کی تھی کہ حضرات میں مرد و خواتین دونوں شامل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم مقدس خواتین کے نام کے ساتھ حضرت لگاتے ہیں…سو خواتین و حضرات کہنے کی ضرورت نہیں)۔
جب مارکس اور مذہب کی بات آتی ہے تو دنیا بھر میں اس کا مشہور قول ’مذہب ایک افیون ہے‘ ذہن میں آتا ہے یا دہرایا جاتا ہے۔ مارکسزم کو مذہب دشمن قرار دینے کے لئے پاکستان میں جماعت اسلامی نے اس جملے کو بالخصوص مقبول عام بنایا۔ پہلی بات تو یہ مارکس مذہب کو افیون قرار دینے والا اوریجنل شخص نہ تھا۔ کانٹ اور ہینرخ ہائن یہ اصطلاح مارکس سے کہیں پہلے استعمال کر چکے تھے۔ گویا یورپ میں یہ اصطلاح اس وقت عام استعمال کی جا رہی تھی۔ دوم، ان دنوں افیون عام استعمال کی چیز تھی (مارکس داڑھ کے درد سے بچنے کئے خود افیون استعمال کرتا تھا)۔ سوم، اور سب سے اہم بات، مارکس کا مندرجہ بالا قول سیاق و سباق سے ہٹ کر، کسی سوچ کو توڑ مروڑ کر بیان کرنے والی شدید ترین علمی بد دیانتی کی سب سے شرمناک عالمی مثال ہے۔ جماعت اسلامی اس عالمی عمل کی پاکستانی کڑی تھی۔ آئیے دیکھئے مارکس نے کیا کہا تھا (راقم کے خیال میں مارکس کی یہ تحریر ادبی لحاظ سے بھی ایک شہ پارہ ہے: مارکس ایٹ ہز لٹریری بیسٹ):
”مذہبی دکھ (تکلیف) درحقیقت بیک وقت حقیقی دکھوں کا ایک اظہار ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان حقیقی تکالیف کے خلاف ایک احتجاج ہوتا ہے۔ مذہب محکوم کی آہ،رحم سے عاری دنیا میں اسی طرح ایک نجات کی شکل ہوتا ہے جسے بے روح حالات کی روح قرار دیا جا سکتا ہے۔ مذہب لوگوں کی افیون ہے۔ مذہب کے ذریعے حاصل ہونے والی خوشی کو اس طرح لیا جائے کہ یہ حقیقی خوشی کا تقاضا ہے۔ یہ مطالبہ کہ موجودہ حالات میں توہم (Illusion) کو ترک کر دیا جائے در حقیقت اس بات کا مطالبہ ہے کہ ایسے حالات ہی بدل دئیے جائیں جن میں زندہ رہنے کے لئے توہمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ گویا مذہب پر تنقید درحقیقت آنسووں کی اُس وادی پر تنقید ہے جس کا ھالہ مذہب ہے“۔
(راقم کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ مندرجہ بالا ترجمہ بہت اچھا نہیں۔ مستقبل میں امید ہے اسے کوئی ساتھی زیادہ بہتر بنا دے گا)۔
مارکس نے مذہب کی کوئی باقاعدہ تھیوری پیش نہیں کی۔ مذہب بارے مارکس کی نصف درجن کے قرین تحریریں ہیں جومارکس نے عہد جوانی میں لکھیں (1844-49ء)۔ گو بعد ازاں، وہ مذہبی تلمیحات کو اپنے تجزئے اور تحریروں میں استعمال کرتا رہا۔ مثال کے طور پر ایک جگہ اس نے قدر زائد اور مذہب کا موازیہ بیگانگی کے حوالے سے کیا ہے۔ بیگانگی سے مراد ہے کوئی ایسی چیز جسے انسان نے خود بنایا ہے مگر پھر اس کے خوف میں مبتلا ہو جائے اور (یا) اُس کی پوجا کرنے لگے۔ مارکس کا کہنا تھا کہ کوئی شخص جس قدر دعائیں مانگتا ہے اسی قدر اس کی بیگانگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح مزدور جس قدر قدر زائد پیدا کرتا ہے، اسی قدر سرمایہ داری کی طاقت بڑھتی جاتی ہے (اور مزدور کو لگنے لگتا ہے کہ سرمائے کو شکست نہیں دی جا سکتی اور نظام سرمایہ ہی درست ہے)۔
مارکس نے اس بات پر زیادہ سر نہیں کھپایا کہ مذہب ابتدائی دور میں کیسے شروع ہوا۔ مذہب کی تھیوری کو سب سے پہلے ایڈورڈ۔ بی۔ ٹائلر نے پیش کیا۔ معلوم نہیں مارکس نے اسے پڑھا یا نہیں مگر اینگلز نے ضرور پڑھا تھا۔ بعد ازاں، درخائم سے لے کر فرائڈ تک، بہت سے اہم نظریہ دانوں نے اس سوال پر بحث کی کہ مذہب کی ابتدا کیسے ہوئی۔ مارکس نے بھی، مختصراً، اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی جو ہر گز قائل کر دینے والا نہیں ہے (یہ بحث با آسانی گوگل کی جا سکتی ہے)۔ اپنے عہد جوانی میں ایک بار اس نے جب مذہب کے فنکشنل کردار پر اپنی سوچ تشکیل دے لی تو پھر ’Substantive‘ بحث میں نہیں الجھا۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ مارکس نے عہد جوانی میں دئیے گئے اپنے نقطہ نظر کو بعد میں ریوائز (Revise) کیا ہے۔
مارکس کی مذہب بارے تحریریں تین حیثیتوں میں لکھی گئیں۔ اؤل، روشن فکری کی تحریک کے نتیجے میں لگ بھگ ہر اہم فلسفی مذہب کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ درحقیقت روشن فکری کی تحریک نے مذہب کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے مابین ایک زبردست بحث کو جنم دے دیا تھا۔ مارکس بھی اس کا حصہ بنا۔ دوم، کارل مارکس ہیگل (جسے مارکس ایک مولوی سمجھتا تھا، لینن بھی ہیگل کے مذہبی پن سے چڑتا تھا) کے ساتھ بحث میں الجھا تھا۔ گو وہ ہیگل کے جدلیاتی طریقہ کار سے متاثر تھا لیکن وہ ہیگل کے طریقہ کار کو ٹرانسفارم کر کے مارکسی طریقہ کار کی تشکیل دینے میں مصروف تھا۔ تیسرا محنت کش طبقے کے معلم کے طور پر وہ مذہب بارے، تنظیمی نقطہ نگاہ سے مارکسی نقطہ نظر اور طریقہ کارتشکیل دینے میں مصروف تھا۔
پہلی دو حیثیتوں میں مارکس نے مذہب کے کردارکو دانشوارانہ انداز میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ دانش وارانہ اور مارکس وادی فلسفی طریوہ کار کے مطابق مارکس نے مذہب کو بالائی ڈھانچے کا حصہ (سوپر سٹرکچر) قرار دیا۔ مارکس کا کہنا ہے ”مذہب کے خلاف جدوجہد…ان دنیاوی حالات کے خلاف جدوجہد ہے جن کا روحانی اظہار مذہب ہے“۔ گویا ”آسمانوں پر تنقید در اصل زمینی حالات پر تنقید بن جاتی ہے، مذہب پر تنقید قانون پر تنقید بن جاتی ہے اور تھیالوجی پر تنقید سیاست پر تنقید بن جاتی ہے“۔
یاد رہے مارکس کے کچھ ہم عصر انقلابی مذہب پر پابندی لگانے کے حق میں تھے۔ مارکس اس کے شدید خلاف تھا (گو خود وہ ایک ملحد تھا)۔ مندرجہ بالا بیانات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مارکس مذہب کے کردار کو سمجھتا ہے: یہ آنسوؤں کی وادی پر قائم ایک روحانی ھالہ ہے مگر وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ یہ بے روح سماج کی روح ہے…یعنی مذہب سماج میں ایک نفسیاتی و سماجی اور طبقاتی کردار ادا کرتا ہے…ایک خیالی خوشی یا ریلیف فراہم کرتا ہے جو در اصل حقیقی خوشی کے انسانی اظہار کی غمازی ہے (مارکس پر یہ تہمت لگائی جا سکتی ہے اور لگائی جاتی ہے کہ مارکس مذہب کے سیاسی کردار، جسے بنیاد پرستی کہا جاتا ہے، بارے لا علم تھا۔ ایسا تھا یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے)۔
اس دانشوارانہ انڈر سٹینڈنگ کے بعد، تیسری حیثیت میں مارکس نے مذہب کی جانب مارکسی تنظیموں کے سیاسی طریقہ کار کی وضاحت کی۔ اس سلسلے میں جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے گوتھا پروگرام پر اس کی تنقید انتہائی اہم ہے۔ عہد حاضر میں ڈاکنز جیسے لبرل ملحد حضرات جب مذہب پر حملے کرتے ہیں اور سیکولرزم کی بات کرتے ہیں تو ان کا جواب دینے کے لئے مارکس کی گوتھا پروگرام پر تنقید اہم ہے۔ مارکس لبرل طرز کے سیکولرزم کا حامی نہیں (گوتھا پروگرام لبرل طرز کے سیکولرزم کی بات کرتا ہے)۔ مارکس ان دنیاوی حالات کو بدل دینا چاہتا ہے جس میں انسان کو مذہب کی بطور ایک توہم ضرورت رہتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، اندریں حالات وہ مذہب پر پابندی کے بھی خلاف ہے۔
یہ تھا وہ نظریاتی مارکسی فریم ورک جس نے مارکس کے بعد آنے والے اہم ترین مارکسی اساتذہ کے تنظیمی و نظریاتی طریقہ کار کا تعین کیا۔ ان میں لینن اہم ترین تھا۔ بعد ازاں، سٹالنزم اور ماؤ ازم نے اس طریقہ کار کا مذاق بنا کر رکھ دیا جس پر اگلی ایک قسط میں مختصر ذکر ہو گا۔
(جاری ہے)
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔