نقطہ نظر

مذہب اور سائنس

دعا زینب

پرویز ہود بھائی ایٹمی طبیعات دان ہیں اور ملکی و عالمی سطح پر ایک معروف مفکر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ گذشتہ دنوں انہوں نے بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی میں ’مذہب اور سائنس‘ کے موضوع پر ایک آن لائن لیکچر دیا۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

پرویز ہود بھائی نے اپنی گفتگو کا آغاز سائنس کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے کیا۔ پہلا حصہ چھ سو سال پرانی تہذیبوں سے ہمارے پاس آتا ہے، جو کہ قدیم سائنس کہلاتا ہے اور دوسرا حصہ جدید سائنس ہے جوکہ صرف چھ سو سال پرانا ہے۔ جدید سائنس نیوٹن، آئن سٹائن اور ان جیسے مختلف سائنسدانوں سے شروع ہوئی۔ جدید سائنس اس بات پر یقین رکھتی ہے کے مادی کائنات کے تمام مسائل کا حل تجربات اور استدلال سے نکالاجا سکتا ہے۔ لہٰذا اس پہلو کا اہم مفروضہ یہ ہے کہ انسانی دماغ اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ مادی کائنات میں موجود تمام تر وسائل اور مسائل استدلال اور منطق کے ذریعے نہ صرف سمجھ سکتا ہے بلکہ انکا بہتر حل بھی تلاش کر سکتا ہے۔ اسے سائنسی طریقہ کار کہا جاتا ہے اور یہ بہت حد تک کامیاب بھی رہا ہے، اس کے ذریعے نہ صرف ہم مادی دنیا کو بہتر سمجھ سکے ہیں بلکہ خلا میں موجود سیاروں کے بارے میں بھی جان پائے ہیں۔ سائنس کے اسی پہلو کی بدولت ہم بیماریوں کی جڑ تک پہنچ جاتے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ تمام بیماریوں کا سبب خلیاتی جراثیم ہیں، جس کی وجہ سے جب دنیا پرکرونا جیسی وبا پھیلی تو ہم اسکے وائرس کا پتہ لگا کر اسکی روک تھام کر سکے۔

پرویز ہود بھائی کے مطابق سائنس کی یہی کامیابی ہے کہ یہ ارضی ہے اور اس میں ہر وقت بہتری کی گنجائش ہوتی ہے۔ کسی بھی نئی دریافت سے پہلے اس بات کا ادراک لازمی ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ بہتر وسائل کی موجودگی میں کارآمد کام کر کے بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر نیوٹن نے اپنی کشش ثقل کا نظریہ اور تحریک کے نظریہ سے خلا میں سیاروں کی تحریک کا اندازہ لگانے کے لئے ایک نظریہ اور ریاضیاتی مساوات بھی پیش کی۔ یہ سائنس کا اہم جزو بن گیا جس کے بغیر سائنس کا تصور کرنا مشکل تھا۔ اسی کے چار سو سال بعد آئن سٹائن نے اپنا نظریہ پیش کیا جس میں یہ ثابت کیا کہ وقت عالمگیر نہیں ہے بلکہ وقت تحریک کی وجہ سے بدلتا ہے۔

بہت سے لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ آئن سٹائن نے نیوٹن کو غلط ثابت کر دیا ہے جبکہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ اس انکشاف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے پرویز ہود بھائی نے کہا کہ آئن سٹائن کا نظریہ روشنی سے بھی تیز رفتار سے چلنے والی اشیا کے بارے میں تھا جبکہ نیوٹن کا نظریہ ہلکی رفتار سے چلنے والی اشیا کے لیے ہے۔ دونوں نظریات الگ اور بجا ہیں۔ آئن سٹائن کا نظریہ نیوٹن کے نظریے پر مبنی ہے اور اس کی بہتر وضاحت کرتا ہے۔ درحقیقت سائنس کی یہی خاص بات ہے کہ اس میں مختلف نظریے قبول کرنے کی گنجائش ہے۔

سائنس کی کامیابیاں بیان کرتے ہوئے پرویز ہود بھائی نے سائنس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی انسانی زندگی کی عمر کے متعلق ذکر کیا۔ جہاں زندگی صرف پینتیس چالیسں سال تک کی ہوا کرتی تھی وہ اب ستر اسی سال تک جاتی ہے۔

مذہب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مذہب کو چار پہلوؤں میں تقسیم کیا۔ پہلا ہے مابعد الطبیعاتی جس میں خدا کا ذکر ہوتا ہے اور کس مذہب میں کتنے خدا ہونگے اس کا تعین کیا جاتا ہے۔ البتہ اسلام اور یہودیت میں ایک ہی خدا ہے لیکن عیسائیت میں مثلث کا نظریہ ہے جبکہ ہندو مت میں کئی خدا ہیں۔ اس کے علاوہ مابعد الطبیعاتی پہلو یہ بھی ہے کہ مختلف خداوند کی طاقت کا بھی علم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یونانی افسانے میں زؤس کے پاس سب سے زیادہ طاقت ہے اور باقی سب ذیلی خدا ہیں جن کی آپس میں تکرار چلتی رہتی ہے۔ البتہ سائنس کا اس پہلو سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مابعد الطبیعات کے متعلق سائنس خاموش ہے، یہ نہ ہی اسکو تسلیم کرتی ہے نہ رد۔ سائنس کا کام صرف مادی دنیا تک ہے۔ اس کی توثیق کرنا سائنس کی ذمہ داری نہیں۔

مذہب کا دوسرا پہلو ہے انسان کی اخلاقی پرورش کرنا۔ ہر مذہب میں زندگی بسر کرنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں، مثال کے طور پر مذہب اپنے ماننے والوں کو بتاتا ہے کہ کیا چیز کھانی ہے اور کیا نہیں، کون سا لباس بہتر ہے وغیرہ وغیرہ۔

مذہب کا تیسرا پہلو جذبات اور احساسات اجاگر کرنے کا ہے جس کے ذریعے مذہب انسان سے گہرا تعلق پیدا کرتا ہے۔ یہ سائنس کے آدمیوں کو بھی لبھا تا ہے، جس طرح ڈاکٹر عبدالسلام ماہرطبیعات، بادشاہی مسجد کے میناروں سے متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنی یونیف کا نظریہ پیش کیا۔ مذہب کا اس انکشاف میں کتنا لینا دینا ہے قابل بحث ہے کیوں کہ انکے ساتھ اس نظریہ پر پہنچنے والے سٹیون وینبرگ اور عبدالسلام کے ساتھ نوبل انعام حاصل کرنے والے سائنس دان ملحد ہیں۔

مذہب کا چوتھا پہلو مادی کائنات کے بارے میں بات کرتا ہے، جہاں پر سائنس اور مذہب کے درمیان مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سائنس اور مذہب کے اس تنازعے کی وضاحت کرتے ہوئے پرویز ہود بھائی نے مزید بتایا کہ تمام ادیان مادی کائنات کے معاملات میں یا تو خاموش رہے ہیں یا پھر جو کہا ہے وہ غیر سائنسی تھا۔ اس بیان کی وضاحت کے لیے انھوں نے مثال پیش کی کہ تمام مذاہب یہ سمجھتے تھے کہ دنیا خلا کا مرکز ہے اور تمام سیارے بشمول سورج زمین کے گرد گھومتے ہیں۔ اس بات کے انکارکی وجہ سے ہی گیلیلیو کو عمر قید کی سزا سنائی گئی اور تقریباً چار سو سال بعد پوپ کو اس عمل پرمعافی بھی مانگنی پڑی۔ اس کے علاوہ بھی مذہب مادی کائنات کے متعلق غلط دعوے کرتا رہا ہے۔ شہاب ثاقب کو وہ پتھر کہا جاتا رہا جو خدا آسمان سے شیطان کی طرف مارتا ہے۔ سائنس ان تمام قیاس آرائیوں پر یقین نہیں رکھتی اور انکو رد کرتی ہے۔ سائنس ارتقا پر یقین رکھتی ہے جو کہ حیاتیات کی بنیاد ہے۔

گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے پرویز ہود بھائی نے بتایا کہ مختلف مذاہب سائنس کے کارناموں پر حاکمیت جمانے کی کوشش کرتے ہیں، کہ فلاں دریافت یا ایجاد کا ذکر پہلے ہی انکی مقدس کتاب میں تھا جو کہ بالکل غلط ہے۔ سائنس کو یونان، چین، بھارت اور عرب دنیا نے ترقی دی۔ وہاں سے مغرب تک پہنچی لہٰذا کسی مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی مذہب کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔

گفتگو کے اختتامی کلمات میں پرویز ہود بھائی نے اس بات کو ایک دفعہ پھر دہرایا کہ سائنس مادی کائنات سے تعلق رکھتی ہے اور یہاں پر سب کچھ طبیعات کے قوانین کے تحت وجود میں آیا ہے جبکہ مادی کائنات میں کچھ بھی ناقابل وضاحت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: انسان کے پاس اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ دنیا کو سمجھ سکے۔

Dua-E-Zainab
+ posts

دعاء زینب بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی میں لبرل آرٹس کی سند حاصل کر رہی ہیں۔ وہ’مہود‘ اور’دی رپپو‘
(The Rapport) میں سب ایڈیٹرکے فرائض بھی سرانجام دیتی ہیں۔