پاکستان

سوشلسٹ نظریات کا دفاع اور موقع پرستوں کی تنقید

سبحان عبدالمالک

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بجلی کی پیداواری قیمت پر فراہمی، آٹے پر سبسڈی فراہم کر کے قیمت گلگت بلتستان کے برابر مقرر کرنے اور حکمران اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کے لیے گزشتہ 9 ماہ سے جاری تحریک مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے پانچ فروری کے بعد ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت نے 4 فروری کو رات گئے مذاکرات کرتے ہوئے عوامی مطالبات میں ردوبدل اور حکمران اشرافیہ سے سمجھوتا کیا تو 5 فروری کو محنت کش عوام نے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر آ کر نہ صرف حکمرانوں کو پیغام دیا بلکہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کو بھی ٹارگٹڈ سبسڈی نامنطور کے نعروں کے ذریعے یہ باور کروایا کہ عوامی مطالبات پر کسی قسم کا سمجھوتا قبول نہیں کیا جائے گا۔

جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت نے،جو فتح کا جشن منانے احتجاجی مظاہرے میں تشریف لائی تھی ،محنت کش عوام کی تنقید اور حقارت آمیز رویے کا سامنا کرنے کے بعد وقتی خاموشی اختیار کرلی۔ جب انقلابی قوتوں نے11 فروری کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مصالحت پسندانہ کردار کو عوام کے سامنے رکھا تو ان قوتوں پر سازش کا الزام عائد کیاگیا۔سوشل میڈیا پر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین سردار محمد صغیر خان سمیت دیگر انقلابیوں کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا۔ ان کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور سیاسی اخلاقیات سے گری ہوئی تنقید کی گئی۔ سردار محمد صغیر خان پر یہ تنقید محض اس لیے نہیں کی گئی کہ انہوں نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے موقع پرستی پر مبنی کردار اور حکمران طبقے سے مصالحت پر تنقید کی بلکہ اس تنقید کی اصل وجہ محنت کش عوام کے سامنے سوشلسٹ نظریات کا دفاع اور پرچار تھا ،جو انہوں نے مقبول بٹ کے یوم شہادت کے موقع پر کیا۔ سوشلسٹ نظریات سے نہ صرف حکمران طبقات خوفزدہ ہیں بلکہ وہ قیادت بھی خوفزدہ ہے جو احساس کمتری، خود نمائی اور موقع پرستی کا شکار ہے۔ کیوں کہ سوشلسٹ نظریات تحریکوں کو افراد کی پیروی کی بجائے نظریات سے رہنمائی کا درس دیتے ہیں۔ انقلابیوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔انقلابی نظریات کا مقابلہ حکمران طبقات نے ہمیشہ ذاتی تضحیک اور بیہودہ بہتان تراشی کے ذریعے کرنے کی کوشش کی۔

ہم تحریکوں کو واقعات کی بجائے سماج میں جاری عمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 2019 ء سے مختلف اوقات میں اس عمل کا اظہار ہوتا رہا ہے، تحریکیں ابھرتی اور پسپا ہوتی رہی ہیں ،نئی قیادت اور نئے جذبے کے ساتھ دوبارہ اپنا اظہار کرتی رہی ہیں۔ تحریکیں سماج میں موجود تضادات کا ناگزیر اظہار ہوتی ہیں ،نہ کہ کسی فرد کی خواہش یا ذاتی قابلیت کے نتیجے میں جنم لیتی ہیں۔ انقلابیوں کے فوری مفادات وہی ہوتے ہیں ،جو محنت کشوں اور سماج کی دیگر پرتوں کے ہوتے ہیں۔ سماج میں پائے جانے والے مسائل کے حل کے لیے جاری تحریکوں کی کامیابی کے لیے جدوجہد ہی انقلابیوں کا فریضہ ہوتا ہے ۔ ایسی کامیابی جو محنت کشوں کو دیگر مسائل کے خلاف اور اس سے بڑھ کر سماجی تبدیلی جیسی زیادہ بڑی لڑائی لڑنے کا اعتماد دے سکے۔ انقلابی فوری نوعیت کے مسائل کے گرد ابھرنے والی تحریکوں میں مستقبل کے سماجی تبدیلی کے عمل یعنی سوشلسٹ انقلاب کی تیاری کرتے ہیں ۔وہ انقلابی نظریات کو محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں میں زیر بحث لاتے ہیں۔ طلبہ ،مزدوروں، کسانوں، خواتین اور سماج کی دیگر پرتوں کے منظم ہونے کے عمل میں ان کی رہنمائی کرتے ہیں اور ان کے اتحاد کی کوشش کرتے ہیں۔

لینن نے کہا تھاکہ ‘‘احتجاجی مظاہرے اور تحریکیں محنت کشوں کی درس گاہیں ہوتی ہیں۔محنت کش نہ صرف اپنی کامیابیوں سے سیکھتے ہیں بلکہ ناکامیابیوں، پسپائیوں اور شکستوں سے مستقبل کی لڑائی کے حوالے سے بے شما ر اسباق حاصل کرتے ہیں۔’’
انقلابی نہ تحریکوں کے اسیر ہو کر ان کی پیروی کرتے ہیں نہ ہی فرقہ پرست ہو کر ان سے کٹ جاتے ہیں۔ وہ تحریکوں میں جنم لینے والی پاپولر قیادت کی مقبولیت سے متاثر ہو کر یا ان کی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر تحریک کے مستقبل کے حوالے سے محنت کشوں کے اجتماعی مفادات کے خلاف فیصلوں پر خاموشی نہیں اختیار کر سکتے ،نہ ہی اس قیادت کے کردار کو رد کرتے ہیں ۔جہاں تک وہ مظلوم عوام کی نجات کی لڑائی لڑتی ہے اور تحریک کی ترقی کے لیے کام کرتی ہے ،بھرپور پشت پناہی کرتے ہیں ۔جہاں مفادات کا ٹکراؤ دیکھیں گے تنقید بھی برملا کریں گے۔

عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ افراد تحریکوں اور انقلابات کو جنم دیتے ہیں جبکہ حقیقت میں تحریکیں افراد کو سامنے لاتی ہیں ،جو محنت کشوں کی مجموعی امنگوں اور جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ حادثاتی طور پر ابھرنے والے افراد جو بظاہر تحریکوں کی قیادت کر رہے ہوتے ہیں ،حقیقت میں تحریک ان کی قیادت کر رہی ہوتی ہے۔تحریک اس عمل کا افراد سے مطالبہ کرتی ہے جو اس کے اجتماعی مفاد میں ہے۔ اس کی مثال بھی عوامی حقوق تحریک ہے ،جب قیادت حکومت سے معاہدہ کر کے آئی تو عوام نے اس معاہدے کو رد کیا۔ قیادت نے عوامی دباؤ اورانقلابی قوتوں کی تنقید کے نتیجے میں اپنے ہی دستخط سے کیے ہوئے معاہدہ سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم نے کبھی ایسا کوئی مطالبہ ہی نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف قیادت کا کردار اور نظریات بھی تحریک پر اثر انداز ہوتے ہیں اور تحریک کو آگے بڑھانے یا پسپا کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ کوئی بھی فرد اس وقت تک تحریک کی قیادت کر سکتا ہے، جب تک وہ تحریک کے تقاضے پورے کرتا ہے ۔ اس سب کا انحصار اس فرد کی نظریاتی وسعت اور بلند حوصلہ پر ہوتا ہے۔کسی بھی قسم کے تعصب، فروعی مفاد، تنگ نظری، پسماندگی، خودنمائی، موقع پرستی اور بزدلی جیسے مسائل کا شکار انسانوں کو تحریکیں اجتماعی مفاد کے لیے شہرت اور طاقت کی بلندیوں سے واپس وہیں پھینک دیتی ہیں جہاں سے ان کو اٹھایا ہوتا ہے۔

جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت آج وہ اقدامات کرنے پر مجبور ہے جو انقلابیوں نے شروع میں تجویز کیے تھے۔ علاقائی سطح پر عوامی کمیٹیوں کی تشکیل ،جس پر انقلابی قوتیں تحریک کے آغاز سے زور دے رہی تھی ۔ اس وقت عوامی کمیٹیوں کے قیام کا عمل خود رو طریقے سے شروع ہو چکا تھا ،جس میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔ آج 9 ماہ بعد اسی عمل کے آغاز کا اعلامیہ مجبوری میں جاری کیا گیا ہے، جو خوش آئند بات ہے۔ موقع پرستی کے ذریعے ہو سکتا ہے کوئی فرد وقتی فائدہ اٹھا لے اور سچائی سے منہ پھیر لے لیکن حقیقت اپنا وجود خود منوا لیتی ہے۔


اس حوالے سے لیون ٹراٹسکی نے لکھا ہے کہ ‘‘دھمکیاں اور تشدد ہمارا راستہ نہیں روک سکتے ،ہماری ہڈیوں پر ہی سہی، مگر سچ فتح یاب ہو گا۔ میرے دوستو! خوشی کا بلند ترین معیار موقع پرستی کے ذریعے حال کا فائدہ اٹھانے میں نہیں بلکہ مستقبل کی تیاری میں پوشیدہ ہے۔’’

Subhan Abdul Malik
+ posts

سبحان عبدالمالک طالبعلم رہنما ہیں اور جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق ضلعی چیئرمین رہ چکے ہیں۔