سوشل ڈیسک | عمران کامیانہ
گزشتہ کئی سالوں سے جیرمی کاربن اور جان میکڈونل کی قیادت میں برطانوی لیبر پارٹی کا بائیں طرف بڑھتا ہوا جھکاؤ مارکسسٹوں کے لئے یقینا ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ اس عرصے میں لاکھوں کی تعداد میں نئے لوگ، جن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، پارٹی کا حصہ بنے ہیں۔ پارٹی نے کٹوتیوں (آسٹیریٹی) کی پالیسی کو مسترد کیا ہے۔ ٹرانسپورٹ، توانائی اور مواصلات کی بڑی کمپنیوں کو دوبارہ قومی ملکیت میں لینے، انفراسٹرکچر اور سماجی بہبود پر اخراجات کرنے اور ایک ایسی معیشت قائم کرنے کا نعرہ لگایا ہے جس کے ثمرات ”چند لوگوں کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے“ دستیاب ہو سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ترقی پسند سوچ رکھنے والے ہر انسان کو ایسے ہر اقدام کی حمایت کرنی چاہئے جو محنت کش طبقے اور وسیع تر عوام کی زندگیوں میں سہولت پیدا کرے۔
لیکن یہاں ایک بات جسے ہمیشہ مد نظر رکھنا نہایت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ لیبر پارٹی کوئی انقلابی پارٹی نہیں ہے بلکہ اپنی موجودہ شکل میں بھی ایک ریڈیکل سوشل ڈیموکریٹک سیاسی رجحان ہے۔ چنانچہ یہ سوال ناگریز طور پر اپنی جگہ موجود ہے کہ عوام کی زندگیوں میں بہتری کے مذکورہ بالا پروگرام پر عمل درآمد کیونکر ممکن ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کے یہ سوال اہم ہے کہ کیا سرمایہ داری میں اصلاحات کر کے (نہ کہ اسے اکھاڑ کے) ایسی معیشت قائم کی جا سکتی ہے جو ایک اقلیتی سرمایہ دار طبقے کی بجائے سب انسانوں کے فائدے میں کام کر سکے۔ اس حوالے سے ایک طرف لیبر پارٹی میں ایک بحث موجود ہے تو دوسری طرف پارٹی قیادت خاصے تذبذب کا شکار نظر آتی ہے۔ یہی کنفیوژن پارٹی رہنماؤں کے تقاریر اور سوشل میڈیا پراپیگنڈا وغیرہ میں بھی صاف نظر آتی ہے۔
اس حوالے سے گزشتہ روز لیبر پارٹی کا ایک اشتہار سوشل میڈیا پر نظر سے گزرا جسے پاکستان میں بائیں بازو کے پیجز نے نہ صرف شیئر کیا بلکہ بہت سے انقلابی ساتھی بھی اسے دھڑا دھڑ شیئر کر رہے تھے۔ یہ اشتہار، جو اِس پوسٹ میں اوپر دیا گیا ہے، بہت دلچسپ ہے۔ اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے: آغاز میں ایک خاتون کہتی ہیں کہ آج ہم دیکھیں گے کہ معیشت (کون سی معیشت؟!) کے لئے عام لوگ بہتر ہیں یا ارب پتی لوگ۔ ایک طرف ہمارے پاس پانچ لوگ ہیں جنہوں نے آسٹیریٹی (کٹوتیوں) کی پالیسیوں کی وجہ سے اپنی آمدن کھوئی ہے۔ ہم انہیں ان کا پیسہ تنخواہوں میں اضافے، پنشن، معذوری الاؤنس، سٹوڈنٹ گرانٹ اور چھوٹے کاروباری قرضے وغیرہ کی شکل میں واپس لوٹائیں گے۔ دوسری طرف ہم ایک ارب پتی صاحب کو بیس ہزار پاؤنڈ ٹیکس چھوٹ کی شکل میں دیں گے۔ یہ دونوں طبقات اس پیسے سے کیا کریں گے؟ عام لوگ اس پیسے سے شاپنگ کریں گے، اپنی گاڑی مرمت کروائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ یہ پیسہ لوکل کمیونٹی میں گردش کرے گا جس سے معیشت نمو پائے گی۔ کاروباروں کے منافعوں میں اضافہ ہو گا جس سے وہ نئے لوگوں کو ملازمت دیں گے۔ معیشت میں بڑھوتری سے حکومت کی آمدن میں بھی اضافہ ہو گا جس سے نئے سکول، ہسپتال اور روڈ وغیرہ بنیں گے۔ حکومت بھی نئے لوگوں کو روزگار دے سکے گی۔ یوں پورا ملک خوشحال ہو گا۔ لوگ سیاحت کے لئے آئیں گے۔ باہر سے سرمایہ کاری آئے گی وغیرہ۔ دوسری طرف دکھایا جاتا ہے کہ ارب پتی سرمایہ دار کو جو 20 ہزار پونڈ دئیے گئے تھے وہ ان کے بارے میں بھول بھی چکا ہے۔ اسے جب یاد کروایا جاتا ہے کہ تمہارے پاس اضافی پیسے ہیں تم اس کا کیا کرو گے تو وہ کہتا ہے کہ اپنے باقی پیسوں کے ساتھ انہیں بھی کسی آف شور بینک کی تجوری میں رکھوا دوں گا۔ آخر میں کہا جاتا ہے کہ دیکھیں سرمایہ داروں کو ٹیکس چھوٹ دینے کی بجائے عام لوگوں پر پیسہ خرچ کرنا ”معیشت“ کے لئے اچھا ہے۔ چنانچہ آپ لیبر پارٹی کو ووٹ دیں۔ اشتہار ختم ہو جاتا ہے۔ کتنے مشکل مسائل کا کتنا آسان حل ہے!
اشتہار میں بہت سی چیزیں بالکل مجرد اور مبہم ہیں۔ پہلا سوال جو ہم نے اوپر بھی اٹھایا ہے کہ ہر معیشت کے اپنے قاعدے قوانین ہوتے ہیں‘ یہاں کس ”معیشت“ کی بات ہو رہی ہے؟ سرمایہ داری کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ ایک ارب پتی سرمایہ دار کی موجودگی فرض کی گئی ہے اور لوگوں کو چھوٹے کاروباری قرضے دینے کا ذکر بھی ہے لہٰذا یہ ایک سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت ہی ہو سکتا ہے۔
اب دوسرا اور زیادہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ عام لوگوں پر جو پیسے خرچ کیے جا رہے ہیں وہ کہاں سے آ رہے ہیں؟ اشتہار میں اس پیسے کے ماخذ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن آئیے کچھ صورتوں پر غور کرتے ہیں:
* اگرچہ اشتہار میں ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا ہے کہ یہ پیسہ سرمایہ داروں پر اضافی ٹیکس لگا کر حاصل کیا گیا ہے لیکن ہم اِس صورت کو فرض کرتے ہیں اور اس پر غور کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ سرمایہ دار کے پاس ٹیکس چوری کے کئی طریقے ہیں جو سرمایہ داری کے ارتقا کے ساتھ زیادہ جدید اور کارگر ہی ہوئے ہیں۔ اسی طرح اُس کے پاس سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی اور سرمایہ کاری روک دینے جیسے طریقے بھی ہیں جن کے ذریعے وہ معیشت کو انہدام کے دہانے تک پہنچا کے حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کر سکتا ہے۔ اور یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ اٹل حقیقت ہے۔ دنیا بھر میں سرمایہ دار بائیں بازو کی حکومتوں کا بیڑا اسی طرح غرق کرتے ہیں۔ لیکن بالفرض کوئی حکومت سرمایہ دار پہ بھاری ٹیکس لگانے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو کیا اِس صورت میں کیا اُس کی شرح منافع، جس کی گراوٹ آج سرمایہ داری کا بنیادی مسئلہ ہے، پر ضرب نہیں لگے گی؟ اور شرح منافع میں مزید گراوٹ کی وجہ سے کیا سرمایہ کاری متاثر نہیں ہو گی؟ اور سرمایہ کاری کیساتھ کیا ساری معیشت پہلے سے زیادہ گہرے بحران میں نہیں جائے گی؟ (اس موضوع پر ہم اپنے ایک سابقہ مضمون ”کیا آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی راستہ ہے؟“ میں تفصیلی بحث کی ہے)
* حکومت کے لئے پیسے کے حصول کی ایک اور صورت قرضے بھی ہیں۔ یعنی ریاست بینکوں سے قرض لے کر لوگوں پر خرچ کرے۔ لوگ بھی خوش اور سرمایہ دار بھی خوش! لیکن یہ کام تو سرمایہ دارانہ ریاستیں 1980ء کی دہائی سے کرتی آ رہی ہیں۔ کئی دہائیوں تک یہ پاپولسٹ پالیسیوں کو سرمایہ داری کی حدود میں نافذ کرنے کا کارگر نسخہ رہا ہے۔ نتیجتاً بالخصوص 2008ء کے بحران کے بعد سے آج دنیا بھر میں ریاستوں کے قرضے کیا آسمان سے باتیں نہیں کر رہے ہیں؟ برطانیہ کا ریاستی قرضہ جی ڈی پی کے 85 فیصد تک پہنچا ہوا ہے۔ یورپ کے کئی دوسرے ممالک میں یہ قرضے جی ڈی پی کے 100 فیصد (یونان کے معاملے میں تقریباً 200 فیصد!) سے بھی اوپر پہنچے ہوئے ہیں۔ یوں سرمایہ داری کو قرضوں کے بلبوتے پہ چلانے کی بھی حدود و قیود ہیں۔ آج اس طریقے کی ناکامی کا ہی ناگزیر نتیجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں حکومتیں (بائیں بازو کی حکومتوں سمیت) کٹوتیوں کی وہی پالیسیاں نافذ کر رہی ہیں جنہیں مذکورہ اشتہار میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
* حکومتوں کے لئے پیسے کے حصول کی ایک صورت نوٹ چھاپنا بھی ہے۔ اس حوالے سے نہ صرف برطانیہ میں لیبر پارٹی کی قیادت بلکہ امریکہ میں برنی سینڈرز اور الیگزینڈریا کورٹز جیسے ’ڈیموکریٹک سوشلسٹ‘ بھی بہت خوش فہمیوں کا شکار ہیں۔ ان خواتین و حضرات کا خیال ہے کہ حکومتیں لامتناہی طور پہ نوٹ چھاپ کے عوام پہ خرچ کرنے کے لئے آمدن حاصل کر سکتی ہیں۔ اس پالیسی کو جیرمی کارکن نے ”عوامی مقداری آسانی“ (People’s Quantitative Easing) کا نام دیا ہے۔ یہ انتہائی بچگانہ سوچ اور بڑا نظریاتی مغالطہ ہے۔ نوٹ چھاپنے کی حدود ہوتی ہیں۔ وہ بھی بالخصوص ایسی صورت میں جب معیشت کے کلیدی شعبے نجی ملکیت میں ہوں۔ بصورتِ دیگر افراطِ زر اور مہنگائی قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اگر نوٹ چھاپ کے سب کو خوش رکھنا اتنا ہی آسان ہوتا تو سرمایہ دار خود یہ کام کر رہے ہوتے۔
یہاں ایک اور وضاحت بھی ضروری ہے۔ اشتہار میں اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا ہے کہ سرمایہ دار خود کو ملنے والے ٹیکس چھوٹ کے پیسے کو استعمال میں کیوں نہیں لاتا ہے۔ وہ ان پیسوں کو انویسٹ کر کے یقینا زیادہ پیسے کما سکتا تھا۔ یہی تو سرمایہ داری کی قوت محرکہ ہے! لیکن اُس نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اور دنیا بھر میں آج سرمایہ دار بے پناہ مالی مراعات کے باوجود پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے ہیں۔ اس گتھی کی کنجی پھر ”شرح منافع“ ہے جس کا تفصیلی جائزہ مارکس نے سرمایہ کی آخری جلد میں لیا تھا۔ سرمایہ داری میں لمبے عرصوں میں شرح منافع بڑھتی نہیں کم ہوتی ہے۔ اسی مظہر کو مارکس نے ”شرح منافع میں کمی کے رجحان کا قانون“ کہا تھا۔ سرمایہ دار اس وقت تک پیداواری شعبہ جات میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا جب تک اسے مطلوبہ شرح منافع حاصل نہیں ہو گی۔ اور سرمایہ داری کی شرح منافع ہی آج گراوٹ کا شکار ہے۔ اسی لئے سرمایہ کاری سکڑاؤ کا شکار ہے جس کی وجہ سے کھپت بھی کم ہے اور معیشت میں زائد پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک گھن چکر ہے۔ ریاست کتنی بھی ٹیکس چھوٹ دیتی رہے یا نوٹ چھاپ کے معیشت میں پھینکتی رہے‘ جب تک سرمایہ دار کو مطلوبہ شرح منافع نہیں ملے گی وہ مالیاتی شعبے میں جوا اور سٹہ تو کھیلے گا‘ پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔
شرح منافع میں گراوٹ ہی اس گتھی کو بھی سلجھاتی ہے کہ 1980ء سے دہائی سے پہلے کی ”اچھی سرمایہ داری“ کی طرف واپسی کیونکر ممکن نہیں ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کا سرمایہ دارانہ ’بوم‘، جو تقریباً تین دہائیاں جاری رہا اور جس کی یاد میں آج تک بہت سے لوگ سرمایہ داری سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں، بلند شرح منافع پر قائم تھا۔ آج وہ شرح منافع موجود نہیں ہے۔ لہٰذا اچھی سرمایہ داری کی طرف واپسی بھی ممکن نہیں ہے۔
بات کو سمیٹیں تو لیبر پارٹی کے مذکورہ اشتہار میں سرمایہ دارانہ معیشت کے بحران کا جو حل پیش کیا گیا ہے وہ ’کینیشینزم‘ پر مبنی ہے جو سرمایہ داری کا متبادل نہیں بلکہ اسے چلانے کے متروک طریقوں میں سے ایک ہے۔ آج سرمایہ داری جس بحران کا شکار ہے اس کے پیش نظر میں اس نظام کے اندر رہتے ہوئے آسٹیریٹی کوئی سیاسی آپشن نہیں ہے جسے اپنایا یا ٹھکرایا جا سکتا ہے (جیسا کہ جیرمی کاربن کا خیال ہے)۔ سرمایہ داری کو اپناتے ہوئے اس کو چلانے کے تقاضوں کو ٹھکرایا نہیں جا سکتا۔ اِس بحران زدہ نظام کی باگ ڈور جو بھی سنبھالے گا اُسے عوام دشمن پالیسیاں اپنانی پڑیں گی۔ کیونکہ نظام کا اپنا کردار تاریخی طور پہ رجعتی اور عوام دشمن ہو چکا ہے۔ لہٰذا مارکسسٹوں کے لئے عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے والی ہر اصلاح کی حمایت اور دفاع کے باوجود بحیثیت مجموعی اصلاح پسندی کے خلاف نظریاتی اور سیاسی لڑائی لڑنا لازمی ہے۔ ہم عوام کی فلاح و بہبود پر پیسہ خرچ کرنے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں لیکن ساتھ میں یہ بھی واضح کرتے ہیں اس نظام کے اندر دورس اور دیرپا انداز میں ایسی عوام دوست پالیسیاں نہیں اپنائی جا سکتیں۔
آپ بھی سماجی مسائل کو اجاگر کرنے والی ویڈیوز ہمیں ارسال کر کے سوشل ڈیسک کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اپنی ویڈیوز ہمیں یہاں ارسال کریں۔