پاکستان

مڈل کلاس کو بے نظیر انکم سپورٹ پر اتنا غصہ کیوں آتا ہے؟

فاروق سلہریا

گذشتہ کچھ مہینوں سے فیس بک جیسے سوشل میڈیاپلیٹ فارمز پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے خلاف ایک پراپیگنڈہ جاری ہے۔ قابل افسوس یہ بات ہے کہ بعض اوقات بائیں بازو سے ہمدردی رکھنے والے لوگ بھی ایسی پوسٹوں کو شئیر کرتے ہیں جن میں یہ پیغام ہوتا ہے کہ اگر بے نظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرام چلائے جائیں گے تو غریب لوگوں کو محنت کی بجائے حرام خودی کی عادت پڑ جائے گی، ملک ترقی نہیں کرے گا،بہتر ہے یہ پیسے ملک میں صنعتی ترقی پر لگائے جائیں۔

نقطہ اعتراض کے طور پر، لا علمی اورغریب دشمنی پر مبنی ایساپراپیگنڈہ کرنے والوں سے انسان یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ صنعتی ترقی کی اتنی فکر ہے تو دفاع کا بجٹ کم کرو اور غیر ملکی قرضے ضبط کر کے صنعتی ترقی کی بنیاد رکھی جائے۔

علاوہ ازیں ناجائز دولت کے انبار لگانے والوں کی دولت قومی ملکیت میں لے کر صنعتی ترقی کی بنیاد رکھی جائے۔ اشرافیہ کو 17 ارب ڈالر کی جو سبسڈی ملتی ہے، جو حرام خوری کی اصل مثال ہے، اسے ختم کر کے صنعتی ترقی کی بنیاد رکھی جانی چاہئے۔

پاکستانی مڈل کلاس چونکہ نہ صرف جہالت پر مبنی سوچوں کا مرغوبہ ہے بلکہ غریب اور کمزور سے نفرت اس طبقے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اس لئے اسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر تو اعتراض ہے مگر فوجی بجٹ پر اعتراض نہیں۔ یہ غیر ملکی قرضوں کی ضبطی پر بغلیں جھانکنے لگتی ہے کیونکہ اس کی اپنی عیاشیاں خطرے میں پڑتی ہیں۔انہیں اشرافیہ کو ملنے والی سبسڈی پر اعتراض نہیں۔ انہیں رئیل اسٹیٹ بزنس بہت اچھا لگتا ہے کیونکہ نہ صرف یہ بحریہ اور ڈی ایچ اے جیسے علاقوں میں رہتے ہیں بلکہ سال میں دو چار پلاٹ بھی بیچ خریدلیتے ہیں۔ تب انہیں صنعتی ترقی یاد نہیں رہتی۔ رئیل اسٹیٹ اس ملک کی معیشیت پر خود کش حملہ ہے۔ موٹر وے،سی پیک اور اس قسم کے میگا پراجیکٹ ان کو بہت پسند ہیں۔ان تمام مندرجہ بالا فیکٹرز کی وجہ سے ملکی معیشیت کا کچومر نکل گیا ہے اور اس کا خمیازہ غریب شہری بھگت رہے ہیں۔

بے نظیر انکم سپورٹ پراگرام کے ذریعے ملکی معشیت کی تباہی سے غربت کا شکار لوگوں کو ہر چار ماہ کے بعد 8500 روپے ملتے ہیں۔ گویا ہر ماہ لگ بھگ تین ہزار۔ اس پروگرام سے وہ خاندان ہی مستفید ہو سکتے ہیں جن کی ماہانہ آمدن چھ ہزار سے کم ہو۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تین ہزار کی مدد سے کون سی”حرام خوری“ ممکن ہے؟

ان تین ہزار سے نہ تو بحریہ میں پلاٹ خریدا جا سکتا ہے نہ انہیں سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں رکھا جا سکتا ہے۔

2019 کے بعد سے اس پروگرام کی افادیت میں کمی آئی ہے کیونکہ کیش ٹرانسفر بہت ہی کم ہے لیکن ابتدائی دس سال یہ پروگرام غربت میں کمی لانے کا سبب بنا۔ اس پروگرام کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔

اس پراگرام پر پاکستانی محقیقین نے بھی ریسرچ کی اور غیر ملکی سکالرز نے بھی۔ عام طور پر اس پروگرام کے تحت ملنے والی رقوم دوا دارو اور خوراک حاصل کرنے کے لئے خرچ کی گئی۔ سیدھی سی بات ہے جب چار ماہ کے بعد ایک مفلس خاندان کو 8500 روپے ملیں گے تو وہ میکڈونلڈ یا پیزا ہٹ تو نہیں جائے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جو”تین ہزار ماہانہ کیش ٹرانسفر سے لوگ حرام خوری کے عادی ہو جائیں گے“ کا واویلا کرتے ہیں،وہ یورپ کے سوشل ویلفئیر نظام کی بھی مثالیں دیں گے مگر یہ بھول جائیں گے کہ یورپ،بالخصوص سکینڈے نیویا میں، ایک بہترین سوشل ویلفئیر نظام کے باوجود”حرام خوری“نہیں ہوتی۔مزید یہ کہ صنعتی ترقی بھی ہوئی ہے۔

یہ بھی کسی تحقیق میں ثابت نہیں ہوا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے خاندان مہینہ بھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور چار ماہ بعد جب 8500 ملتے ہیں تو جا کر سینٹورس مال سے شاپنگ کرنے لگتے ہیں۔

مسئلہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نہیں ہے۔ مسئلہ وہ نظریات ہیں جن میں غریب سے نفرت کرنا،غریب دشمنی پالنا آسان کام ہے۔ غریب دشمن نظریات کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنے سیاہ کرتوت چھپ جاتے ہیں۔ اپنی”ملک دشمنی“ نظر نہیں آتی۔

اس ملک میں کہ جب ڈالر کا بحران ہے،اربوں ڈالر چاکلیٹ،لگژری گاڑیوں اور ڈاگ فوڈ درآمد کرنے پر خرچ ہوتے ہیں۔ ڈاگ فوڈ اور چاکلیٹ جیسی عیاشی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام والوں کو تو نہیں چاہئے۔

پھر یہ کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت تقسیم ہونے والی رقم اسی ملک میں رہتی ہے،یہاں کی معیشیت کو سہارا دیتی ہے۔ ڈالر جب بھی اس ملک سے باہر جاتا ہے،یہ ملک کی معشیت کو کنگال کرتا ہے۔

تو حضرات کل ملا کے قصہ یہ ہے کہ پالتو کتوں کے لئے یورپ سے خوراک منگوانا،برانڈ ڈ چاکلیٹ کھانا اور لگژری گاڑی میں گھومنا صنعتی ترقی کے راستے میں رکاوٹ اور اصل حرام خوری ہے نہ کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام۔

 

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔