پاکستان

کرم میں اشیائے ضروریہ ناپید اور 4 گاؤں میں آپریشن کی تیاریاں

حارث قدیر

پارا چنار کو پشاور سے ملانے والی مرکزی شاہراہ پر ہر قسم کی آمد و رفت اتوار کے روز بھی بند رہی۔ اشیائے ضروریہ نہ ملنے کی وجہ سے ضلع کرم میں عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری جانب لائر کرم کے چار دیہاتوں میں آپریشن کی تیاریاں شروع کرنے کی اطلاعات بھی ہیں۔ فورسز نے کئی مورچوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ تاہم بنکرز مسماری کا عمل تاخیر کا شکار ہے اور اب تک دونوں فریقین کے محض8بنکرز مسمار ہو سکے ہیں۔

جمعے کے روز ڈپٹی کمشنر کرم کے دفتر سے جاری ایک مبینہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے لوئر کرم کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ آپریشن کے دوران متاثرہ آبادی کی حفاظت اور مدد کو یقینی بنانے کے لیے ضلع کرم کے عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے لیے کیمپ قائم کرنے کی تجویز ہے۔ اس نوٹیفکیشن میں چار سرکاری عمارتوں کو بھی عارضی کیمپ کے طور پر تجویز کیا گیا۔

رواں ہفتے طویل بندش کے بعد جب ٹل پارا چنار سڑک پر امدادی سامان کے قافلے روانہ کیے گئے تو ایک با ر پھر عسکریت پسندوں نے قافلے پر حملہ کر دیا تھ۔ اس حملے کے نتیجے میں 10افراد ہلاک ہوئے، جبکہ 5ڈرائیوروں کے اغواء کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔ اس سے قبل بھی رواں ماہ ایک قافلے پر حملے کے نتیجے میں 5افراد زخمی ہوئے تھے، جن میں علاقے کے ڈپٹی کمشنر بھی شامل تھے۔

صوبہ خیبرپختونخوا کا ضلع کرم کافی عرصے سے قبائلی اور فرقہ وارانہ جھڑپوں کی زد میں ہے۔ گزشتہ برس21نومبر کو مسلح افراد نے مسافروں کے ایک قافلے پر حملہ کیا گیا، جس میں 50سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ حملے کے بعد پرتشدد واقعات شروع ہوئے، جن میں 100سے زائد ہلاکتیں ہوئیں، 400سے زائد دکانیں نذر آتش کی گئیں اور بھاری مالی نقصان ہوا۔ اس حملے کے بعد پارہ چنار کو پشاور سے ملانے والی مرکزی سڑک بند کر دی گئی تھی، جس کی وجہ سے علاقے میں ادویات، خوراک اور ایندھن کی قلت پیدا ہوگئی۔

یاد رہے کہ یکم جنوری کو کوہاٹ میں لگ بھگ ایک ماہ تک جاری رہنے والے گرینڈ جرگے نے امن معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ اس معاہدے پر فریقین کی جانب سے 45، 45افراد نے دستخط کیے گئے۔ 14نکاتی معاہدے میں اسلحہ جمع کرانے، بنکرز ختم کرنے،شاہراہوں کے تحفظ، فرقہ وارانہ واقعات کے خاتمے، امن کمیٹیوں کے قیام، کالعدم تنظیموں کی حوصلہ شکنی کرنے جیسے نکات شامل تھے۔ امن معاہدے کے بعد پارا چنار سڑک پر ٹریفک بحال کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن قافلوں پر حملوں کاسلسلہ جاری ہے۔ امن معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی سست روی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ دو ہفتے کے اندر بنکرز ختم کرنے تھے، تاہم ابھی تک محض 8بنکرز ختم کیے جا سکے ہیں۔ اسی طرح مقامی قبال ہتھیار حکومت کے حوالے کرنے پر بھی تیار نظر نہیں آرہے ہیں۔ طوری قبائل کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ اگر اہل سنت کے خلاف ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تو پھر حکومت ضبط کر سکتی ہے۔ تاہم اہل تشیع مخالف جذبات میں شدت موجود ہے، ہتھیار جمع کروانے کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔

زمین اور پانی پر قبائلی تنازعات نے کرم میں کشیدگی کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا، تاہم فرقہ وارانہ گروہوں اور دہشت گرد تنظیموں نے ان اختلافات کا فائدہ اٹھا کر ضلع میں اپنی بنیادیں حاصل کیں۔ ریاست اس ساری صورتحال میں تشدد کو روکنے میں نہ صرف ناکام رہی،بلکہ پارہ چنار کو افغانستان میں سٹریٹیجک ڈیپتھ پر عملدرآمد کے لیے ایک گیٹ وے بنانے کی کوشش کی گئی۔

حالیہ پرتشدد واقعات میں بھی ریاست نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا اور تشدد کو بھڑکنے کا پوراموقع فراہم کیا گیا۔ اب ایک بار پھر عسکریت پسندی کے خلاف آپریشن کی تیاری ہو رہی ہے، اگر ایسا کیا جاتا ہے تو ایک بار پھر کرم میں بربادی کا بسیرا ہوگا۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوں گے، اور ماضی کے تجربات کو سامنے رکھا جائے تو بے گناہ شہریوں کا قتل عام بھی بعید از قیاس نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا میں ماضی میں کیے گئے فوجی آپریشنوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو متاثرین اور بے گھر افراد کی ایک بڑی تعداد آج بھی اپنے آبائی علاقوں میں جانے کی منتظر ہے اور کیمپوں میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہیں اور لاکھوں ہی کی تعداد میں لوگوں کے گھر اور کاروبار تباہ ہو چکے ہیں، جن کی بحالی کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے۔ ایسے میں ایک اور آپریشن خیبرپختونخوا میں امن کی بجائے مزید بربادی کا ہی موجب بنے گا۔

ریاست کی ناکامی کا عالم یہ ہے کہ گزشتہ 76سال میں اس ملک میں ایک جدید سرمایہ دارانہ معاشرے کی بنیاد رکھنا تو درکنار ہزاروں سال پہلے کے سماجی ڈھانچوں کی بنیادیں ختم کرنے میں بھی یہ ریاست ناکام رہی ہے۔ آج 21ویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی تنازعات کو قبائلی جرگوں میں حل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ 76سال میں اس ملک کے رقبے پر ریاست کی عمل داری بھی قائم نہیں ہو سکی ہے۔ زمینوں اور پانی کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے عدالتی نظام اور انتظامی ڈھانچہ بھی فعال نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں پرانے قبائلی زمینوں اور پانیوں کے تنازعات اب انتہائی پیچیدہ اور ناقابل حل صورتحال میں پہنچ چکے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ ریاست گزشتہ دو ماہ سے ایک پورے ضلعے میں امدادی سامان اور راشن پہنچانے کے قابل بھی نہیں ہے۔ چند کلومیٹر سڑک پر چلنے والی مال بردار گاڑیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں بھی ناکام ریاست فوجی آپریشن کے ذریعے امن و امان بحال کرنے کی دعویدار ہے۔ ماضی میں البتہ اس ریاست کا آپریشنوں کے ذریعے دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو ختم کرنے کا تجربہ بھی کبھی کامیاب نہیں رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک ناکامی کو چھپانے کے لیے دوسرے پہلے سے آزمودہ اور ناکام ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

ریاست نے 76سال میں ہر معاملے کا سکیورٹی یا فوجی حل نکالنے کی کوشش کی ہے، جس کے نتیجے میں محافظوں نے ہی قاتلوں کا کردار ادا کیا ہے۔ سیاسی معاملات کو فوجی طریقوں سے حل کرنے کے نتیجے میں تشدد اور دہشت گردی کو مزید تقویت ملتی ہے۔ کر م میں دہائیوں سے چلنے والے ان تنازعات کو سیاسی بنیادوں پر حل کرنے اور دہشت گردی کی سرکاری سرپرستی کا سلسلہ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس نظام کے اندر رہتے ہوئے موجودہ ریاستی ڈھانچے کے تحت کوئی بھی حل ان تنازعات کو مزید بھڑکانے کا ہی باعث بنے گا۔ کرم کے مسائل کو حل کرنے کا ذمہ کرم کے محنت کشوں اور عام عوام کو خود لینا ہوگا۔ سیاسی تحریک کی بنیاد پر دیر پا امن کی راہیں ہموار کی جا سکتی ہیں۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔