ناصر اقبال
حکمران اور بالا دست طبقات کا ماضی بعید سے ہی طریقہ کار یا وطیرہ رہا ہے کہ جس معاملے کو نظر انداز یا چھپانامقصود ہوتو اسے الجھن (Confusion) میں ڈال دو۔ اتنے سوال کھڑے کر دو کہ اصل مدعا کہیں بیچ میں ہی غائب ہو جائے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے قانون میں جن طبقات کے تحفظ کے لیے سب سے زیادہ قوانین موجود ہیں ان میں سرفہرست مزدور اور کسان ہیں۔ تو کیا اس سے مراد لی جا سکتی ہے کہ مملکت خداداد ایک انسان دوست فلاحی ریاست ہے؟ جواب ہے ’بالکل نہیں‘۔
ہوتا یہ ہے کہ ایک طرف مزدور کا مقدمہ جب کبھی کسی لیبر کورٹ میں یا کسان کا کیس کسی سول عدالت میں دائرہو جائے تو سال ہا سال مدعی اور مدعا علیہ کے وکلا صرف اس بات پر دست و گریباں رہتے ہیں کہ کیس کی شنوائی کس قانون کے تحت اور فیصلہ کس قانون کے مطابق ہو گا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حتمی فیصلہ روز قیامت تک موخرہو جاتا ہے جبکہ دوسری طرف حکومتیں مہذب دنیا، اقوام ِمتحدہ اور عالمی اداروں سے اپنی مزدور کسان دوستی کی داد بٹورتی ہیں۔
ویسے معذرت کے ساتھ خواتین کے حقوق سے متعلقہ حالیہ قوانین سازی اور سرائیکی صوبہ کا معاملہ بھی اسی طرح کے سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ہم یہاں کوئی فارمولہ اخذ نہیں کر رہے کہ صرف حکمران ہی کہیں چھپ کر کوئی فکری الجھاؤ ایجاد کرتے ہیں۔ بسااوقات زمان و مکاں اور فکری ونظری تغیرات کے سبب بھی فکری الجھاؤ پیدا ہو جاتے ہیں لیکن یہ طے ہے ہر قسم کے الجھاؤ کا فائدہ حکمران طبقات کو ہی پہنچتا ہے اس لیے ترقی پسند تحریک کے بیشمار کاموں کے علاوہ یہ بھی اہم ہے کے کہ وہ ہر قسم کے الجھاؤ پر نظر رکھے اور سلجھانے کی کوشش میں رہے۔
ترقی پسند تحریک میں فکری معاملات، افہام و تفہیم اور آپسی ہم آہنگی کے لیے جوکامیاب طریقہ کار بڑے پیمانے پر اختیار کیا گیا اسے نقطہ نظریہ (Perspective) سے روایت کیا جاتا ہے۔ بائیں بازو کی تاریخ میں بیشمار نقطہ نظر ملتے ہیں جنہیں ذاتی، بحیثیت مجموعی یا تنظیمی طور پر لکھا اور پیش کیا گیا۔
پاکستان میں یہ روایت 2000ء تک مضبوط رہی اس کے بعد سے یہ ماند پڑتی نظر آتی ہے۔ 1990ء کی دہائی راقم کے سیاسی ہوش کی دہائی ہے۔ تب سے ہم نے استادِ محترم فاروق طارق اور چیئرمین شعیب بھٹی کو انتھک محنت، پڑھائی لکھائی اور کامریڈز سے بحث و مباحثہ کے بعد نہ صرف نقطہ نظر کو بناتے دیکھا بلکہ بعد میں اسکی درستگی کو جانچتے ہوئے بھی دیکھا۔ اس کام میں ڈاکٹر لال خاں بھی خاصی شہرت رکھتے تھے۔ یہ ترقی پسند تحریک کی بدقسمتی ہے کہ وہ قبل از وقت داغ مفارقت دے گئے۔ پرانے ریکارڈ میں سے کامریڈ فضل الٰہی قربان اور دادا فیروز الدین منصور کے تحریر کردہ کچھ اچھے نقطہ نظر بھی دیکھنے کو ملے۔
سی.آر. اسلم صاحب کی بڑی دلچسپ عادت تھی کہ وہ مختلف کمیونسٹ پارٹیوں یا گروپس کے نقطہ نظر پڑھ کر حاضرین محفل کو سناتے اور بعد میں اپنا موقف بھی رکھتے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کے ذاتی نقطہ نظر بہت بہتر ثابت ہوئے۔ پروفیسر عزیز الدین احمد، امتیاز عالم صاحب اور راشد رحمان صاحب بھی اس سلسلے میں منفرد مقام رکھتے ہیں جنہوں نے دائیں بازو کے میڈیا کے سیلاب اندر ترقی پسند خیالات کا دفاع کئے رکھا۔
سیاست کے طالب علم ہونے کے ناطے ہماری بھی خواہش رہی کہ اچھے اچھے تحریری نقطہ نظرپیش کئے جائیں۔ جب بھی لکھنے کی کوشش کی تو بہت سارے سوال یا الجھنیں آڑے آجاتیں۔ مثلاً نقطہ نظر اپنی سرشت میں ہوتا کیا ہے، اچھے نقطہ نظر کی خوبیاں کیا ہونی چاہیں، سمجھ یا تاثر (Perception) کی باریکیاں، فلسفے اور نقطہ نظرکا باہمی فرق اور ربط وغیرہ۔
ان سوالوں کا پھر پیچھا کیا گیا توجواب میں خاصے دلچسپ پہلو یا حقائق سامنے آئے۔ اسی دوران ہی ہمیں اس بات کی اہمیت کا ادراک بھی ہوا کہ یہ جو اصطلاح ہے: نقطہ نظر، اگر اس کو درست انداز سے سمجھے بغیر لکھا گیا تو مواد نہ صرف اپنے آپ میں الجھ کر رہ جائے گا بلکہ مزید ذہنی و فکری الجھنیں پیدا کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ فکری الجھنوں کو درست نقطہ نظر سے ہی ٹھیک کر سکتے ہیں لہٰذا اس صورتحال میں لکھاری کی ذمہ داری دو گنا ہو جاتی ہے۔
ڈکشنری میں لفظ نقطہ نظر کھنگالنے پر پتہ چلا یہ لگ بھگ بیس مختلف مقامات پر ایک ہی معنی یا ہم معنی کے طور پر استعمال ہوتا ہے یا کیا جا سکتا ہے۔ ان میں زاویہ، پہلو، رویہ، سیاق و سباق یا پس منظر، ذہنیت، امکان، حوالہ، منظر، نظارہ، بلا امتیاز، نسبت و تناسبت، تناظر، منظرنامہ، منظر کشی، مشاہدہ، مشاہدہ کا مقام و فاصلہ، حقیقت و خیال، زمان و مکاں، فکر، موقف اور بیان وغیرہ۔
فلکیات، ریاضی، سوشل سائنس، فلسفہ، ادب اور آرٹس کے مضامین میں اس لفظ کی تشریحات ذرامختلف انداز سے کی گئی ہیں۔
جہاں تک سوال ہے نقطہ نظر اور فلسفے کے باہمی رشتے کا تو عرض ہے کہ ہم صرف د و عدد ربط ہی تلاش کر پائے ہیں۔ عمومی طور پر نقطہ نظر پہلے سے موجود کسی فلسفے یا خاص مکتبہ فکر سے متاثر ہو کر بنایا اور بیان کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم سب اکثر لکھتے یا دیکھتے ہیں کہ اس مضمون کو مارکسی فکر یا نو افلاطونی خیالات کے تحت لکھا گیا ہے۔ یہاں فلسفہ محدب عدسہ، عینک یا روشنی کا کردار ادا کرتاہے۔ دوسرا ربط ذرا پیچیدہ اور مزید بحث طلب ہے۔ یہاں ہم نے فرض کیا ہے کہ جس وقت فلسفہ لکھا گیا کیا وہ اسی وقت فلسفہ تھا اور فلسفی نے تخلیق فلسفہ کی نیت سے ہی ارادہ باندھا تھا۔ تو جواب نہیں میں ہے۔ تحریر کوجب لکھا گیا اس وقت وہ محض فلسفی کا نقطہ نظر تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلسفی کا نقطہ نظر یا اس کا کوئی حصہ اگر زمان و مکاں کی حدود پھلانگ کر جامعیت اور آفاقیت اختیار کر جائے تب کہیں تاریخ اسے فلسفے میں شمار کرتی ہے۔ اہل فلسفہ کی یہی روایت فکر کی طاقت ہے کہ اس دو نمبری کے دور میں بھی کوئی شخص اپنے فلسفی یا دانشور ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
سمجھ، تاثر (Perception) کا معاملہ نقطہ نظر پیش کرنے والے کی سمجھ سے زیادہ مخاطب کے تاثر سے زیادہ جڑا ہوا ہے۔ بقول شاعر’ہم خدا لکھتے رہے، وہ جدا پڑھتے رہے‘والا حساب نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کہیں ایسا ہو جائے توپھر قصور لکھنے والے کا ہی ہو گا۔
اوپری سطور میں ہم نے ہم معنی الفاظ جو کہ مختلف معنی و مفہوم رکھتے ہیں، فلسفے اور تاثر کا جائزہ لیا ہے۔ بادی النظر میں یہ مختلف نظر آنے والے مضامین اصل میں ایک اچھے نقطہ نظر کے اجزائے ترکیبی یا مختلف پہلو ہی ہیں لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ ہم نے یہ کوئی فارمولہ دریافت کرلیا ہے۔ اگر اس سے کم میں کام ہو سکتا ہو تو کرنے میں کوئی حرج نہیں البتہ یہ ذہن میں رہے کہ فلسفہ اگر کسی بھی وجہ سے اپنی افادیت کھو دے تو وہ نقطہ نظر کے زمرے میں آجائے گا اور اگر نقطہ نظر پٹ جائے تو وہ محض پراپیگنڈے کی ٹوکری کا حصہ کہلائے گا اور پراپیگنڈے میں اگر تھوڑی سی بھی طاقت ہوتی تو ہٹلر جنگ عظیم جیت جاتا، سوویت روس کبھی نہ ٹوٹتا اور محمد نواز شریف آج بھی ملک کے ہر دل عزیز وزیراعظم ہوتے۔
بہرحال نقطہ نظر کو بنانا اور پیش کرنا باریک اور پیچیدہ عمل ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں اسے لکھنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جب تحریک بنیادی یا زمینی حقائق کو بھی بالکل الٹ انداز سے دیکھ رہی ہو۔ مثال کے طور پرآدھے کامریڈوں کا خیال ہے کہ ملک میں جاگیرداری کا خاتمہ ہو چکا ہے جب کہ باقی اس سے برعکس سوچتے ہیں۔ ہمارے خیال میں زمینی حقائق کا درست ادراک نقطہ نظر کا سب سے سادہ لیکن بنیادی حصہ ہوتا ہے اور اسی پہ ہی اتفاق رائے نہیں ہو پاتا۔ زاویہ نگاہ، طریقہ کار، ارتقا و انقلاب وغیرہ تو دور کی باتیں ہیں۔ ہمارا گمان ہے کہ جس وقت بھی تحریک کم از کم بنیادی ملکی و زمینی حقائق پر ہی متفق ہو گئی ملک میں سیاسی تبدیلی کا آغاز ہو جائے گا۔
پس نوشت: ہم اپنے کالموں میں اکثر”ترقی پسند تحریک“ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ جس طرح لفظ نقطہ نظر اپنی سرشت میں تھوڑا پیچیدہ ہے اسی طرح ترقی پسند تحریک کے متعلق بھی خاصے سوال، شبہات اور کنفیوژن موجود ہے۔ سیاسی محاذ جس میں بائیں بازو کی تمام پارٹیاں اور گروپس، سماجی محاذ جس میں سول سوسائٹی اور غیر سرکاری تنظیمیں، معاشی محاذ میں ٹریڈ یونین اور غیر منظم مزدوروں کی تحریکوں کے علاوہ انسانی حقوق کی تحریکیں شامل ہیں ان تمام کو ایک ساتھ ملانے سے ترقی پسند تحریک بنتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں یا شاید دنیا بھر میں ترقی پسند تحریک منظم شکل میں موجود نہیں لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ موجود تو ہے۔ کمی صرف غیرمتنازعہ یا بلاامتیاز نقطہ نظر، تھوڑی سی وسیع القلبی، صبر اور برداشت کی ہے۔