قیصر عباس
پاکستان کی خواتین گلوکاراؤں کو ان کے شائقین بیک وقت پسند بھی کرتے ہیں او ر نا پسند بھی۔ محبت اور نفرت کایہ عجیب و غریب رویہ جنوبی ایشیا کے مخصوص سماجی ماحول کی پیداوار ہے جہاں عزت و احترام صرف ان ہی خواتین کے حصے میں آتی ہے جو گھر کی چار دیواری میں رہتی ہیں لیکن گھر سے باہر نکل کر مقبولیت حاصل کرنے والی عورتوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔
یہ گلوکارائیں جنہیں معاشرہ بیک وقت رد بھی کرتا ہے اور قبول بھی دراصل سماج کے اس تہ خانے میں رکھی جاتی ہیں جن کی جگہ عمارت کی سب سے نچلی منز ل میں ہوتی ہے۔ یہ اشرافیہ کی تفریح کا ذریعہ تو ہیں لیکن انہیں معاشرے کے عزت دار طبقوں میں کوئی جگہ نہیں دی جاتی۔
پاکستانی نژاد امریکی دانشور فوزیہ افضل خان نے اپنی نئی کتاب Siren Song: Understanding Pakistan Through Women Singers میں صنف نازک سے تعلق رکھنے والی گلوکاراؤں کی زندگی کے حوالے سے ان کے پبلک امیج کے پوشیدہ اور شفاف گوشوں کی نشاندہی کی ہے۔ یہ تصنیف صرف ایک عمومی تجزیہ ہی نہیں ہے بلکہ سماجی رویوں کی ایک ایسی تحقیق ہے جو نظریاتی اور جدید معاشرتی رجحانات کے ذریعے ان مسائل کو زیر بحث لا رہی ہے جو پہلے کبھی سامنے نہیں آئے۔
اگرچہ ہر باب میں مختلف نظریاتی پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا ہے لیکن مجموعی طور پر کتاب کی فکری اساس دو تھیوریوں پرہے۔ تصنیف کی پہلی بنیاد ’نفسیاتی تجزیے کی صنفی تحریک‘ (Psychoanalytic Feminism) پر رکھی گئی ہے جو جنسی تفریق اور معاشرے میں طاقتور مردوں کی جانب سے صنف ِنازک کے استحصال اور اپنی طاقت کو مستحکم رکھنے کے طریقوں کا تجزیہ کرتے ہوئے صنفی تحریکوں کو نظریاتی اساس فراہم کر تی ہے۔ یہ تھیوری معاشرے میں بہتری کے طریقوں پر زور دیتی ہے اور صنفی مساوات اور اخلاقی پہلوؤں میں بدلاؤ پر غور کرتی ہے۔
کتاب کادوسرا فکری اسلوب سٹورٹ ہال (Stuart Hall)اور ان کے معاونین کی کلچرل اسٹڈیز پر مشتمل ہے جس نے مارکسزم کی قوم، نسل، صنف اور رنگ کے پس منظر میں تشریح کرتے ہوئے اسے عہدحاضر کے تقاضوں سے ہمکنار کیاہے۔
ان فکر ی اسالیب کی مدد سے مصنفہ نے خواتین گلوکاراؤں کی زندگی کو ا یسی تحقیقی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے جس کے ذریعے معلوم کیاجاسکے کہ مردوں کے بنائے ہوئے معاشروں میں مسائل کو صرف ان ہی کے محدود آئینوں سے کیوں پرکھا جاتا ہے (پہلاباب، تعارف)۔
گائیکی کے فن میں شہرت پانے والی خواتین کے معاشرتی عکس کا تجزیہ کرنے سے پہلے مصنفہ کلچر کی نوعیت سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ کلچر کو ریمنڈ ولیمز (Raymond Williams) کی تعریف کے تناظرمیں دیکھتی ہیں جس میں انسانی اکائیوں کے مشترکہ ورثے کو ایک خاص وقت اور مقا م میں روائتوں، اقدار اور زندگی کے طور طریقوں کے ذریعے سمجھا جاتا ہے۔
یہاں فیض ا حمد فیض کی زیرِ ادارت پاکستانی ثقافت پر اس رپورٹ کا ذکر کیا گیا ہے جو انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے تحت ستر کی دہائی میں تحریر کی تھی۔ اس رپورٹ میں، برصغیر اور پاکستانی صوبوں کی ثقافت کے ساتھ مذہبی حلقوں کوبھی ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا۔ میرے خیال میں رپورٹ کو ایک سمجھوتے کے طورپر دیکھا جانا چاہئے جس سے جوابات کے بجائے نئے سوالات ابھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فیض اپنے ایک اور مضمون میں پاکستانی کلچر کی ایک حقیقت پسندانہ تعریف کرتے ہوئے اسے ”علاقائی ثقافتوں کا امتزاج“ قرار دیتے ہیں جو ثقافت کی کہیں بہتر تعریف ہے (پہلاباب، تعارف)۔
نو آبادیاتی نظام کے بعد پاکستان میں بھی برصغیر کی ثقافتی روائت کا وہ سلسلہ جاری رہا جن میں عورتوں کے سماجی مقام کوپدرسری معاشرے میں ایک کمتر درجے پر رکھا جاتا ہے۔ اس میں مغلیہ دور اور اس کے بعد کے زوال پذیرمسلم معاشرے کا وہ عکس بھی شامل ہے جہاں گلوکاری اور رقص کافن ایسے طبقوں تک محدود تھا جنہیں اخلاقی طورپر ’طوائف‘ جیسے کم تر درجے تک ہی محدود کردیا گیا۔
پاکستان کی تین مشہور گلوکاراؤں نورجہاں، ملکہ پکھراج اور روشن آرا بیگم کا تعلق ان ہی گھرانوں سے تھا جنہیں مراثی یا درباری گلوکارہ بھی کہا جاتا ہے۔ ملکہ پکھراج اور روشن آرا بیگم عمر بھر اپنے طبقاتی اور خاندانی امیج سے باہر نکلنے کی کوشش میں رہیں اور اسے چیلنج بھی کرتی رہیں۔ ان کے مقابلے میں نور جہاں گھریلو اور کمزور عورت کی بجائے ایک آزاد اور طاقتور عورت کی زندگی گزارنے کے باوجود عو ام میں بے حد مقبول بھی رہیں۔ معاشرے کے اس دوغلے پن کی کئی وجوہات تھیں۔
ان گلوکاراؤں نے اپنے اپنے انداز میں معاشرے کے مروجہ اصولوں اور روائتوں کو چیلنج کیا۔ روشن آرا بیگم نے اگرچہ اپنے شوہرکی مرضی کے مطابق محفلوں میں گانے سے گریز کیا لیکن انہوں نے نئی نسل کی کلاسیکل موسیقی کی تربیت سے صاف انکاربھی کیا۔
ملکہ پکھراج نے جو کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے دربارسے وابستہ تھیں اور جنہوں نے پاکستان آنے کے بعد شادی کرلی تھی، اپنی سوانح حیات میں انہوں نے دونو ں مردوں کے نام بڑے فخر کے ساتھ منسوب کیے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے طبقاتی ورثے کو فخریہ طورپر اپناتے ہوئے معاشرتی اقدار کو چیلنج کیا لیکن شادی کر کے اسی معاشرے میں با عزت مقام حاصل کرنے کی کوشش بھی کی۔
دوسری جانب نورجہاں نے پدرسری معاشرے میں عورت کے روائتی کردار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معاشرے کے بنائے ہوئے اصولوں کو توڑنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی۔ اس کے باوجود معاشرے نے انہیں ’ملکہ ترنم‘ کے مقام سے نیچے نہیں گرایا کیونکہ وہ ایک مقبول گلوکارہ کے علاوہ ایک فلمی اداکارہ بھی رہ چکی تھیں۔
صنف نازک سے تعلق رکھنے والی گلوکاراؤں کی یہ کہانی پاپ میوزک تک پہنچتے پہنچتے کچھ اور گمبھیر ہو جاتی ہے۔ گلوکاری کا فن جو اب تک مخصوص گھرانوں تک محدود تھا اور جنہیں کمتر بھی سمجھا جاتا تھا اب تعلیم یافتہ اور درمیانے طبقوں کے نوجوانوں کے لئے شہرت اور آمدنی کے نئے دروازے کھول رہا تھا۔ اسی کی دہائی میں کالج کے نوجوان لڑکوں نے اپنے گروپ تشکیل دئے اور خوب نام کمایا۔ لیکن اب نوجوان لڑکیاں بھی اس میدان میں آنے لگی تھیں۔
یہاں کتاب کی مصنفہ نے نازیہ حسن، رونا لیلیٰ اور ناروے کی پاکستانی نژادپاپ گلوکارہ دیا کا ذکر کیاہے۔ تعلیم یافتہ اوراونچے طبقے سے تعلق رکھنے والی یہ گلوکارائیں اپنی گائیکی کے نئے انداز کے سہارے شہرت کی بلندیوں تک پہنچیں۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن اب موسیقی صرف آڈیو کیسٹ تک محدود نہیں تھی اور وڈیو اب اس فن کے اظہار کا عام ذریعہ بن چکا تھا۔ دیا اور نازیہ نے ٹی وی اور اس نئے میڈیم کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم عورت کے روائتی امیج کو ایک طرف رکھا اور جدید لباس اور رقص کے ذریعے اپنی جدید گائیکی کو فروغ دیاجو پاپ موسیقی کا تقاضا بھی تھا۔
مسلم عورت کا یہ جدید امیج معاشرے کے رجعت پسند وں اور مولویوں کے لئے کھلا چیلنج تھا جنہوں نے ا ن کے خلاف فتوؤں اور نفرتوں کا طوفان کھڑا کر دیا۔ بد قسمتی سے نازیہ کی مقبولیت کا دور پاکستان میں جنرل ضیا کی مذہبی انتہا پسندی کا بد ترین زمانہ بھی تھاجہاں گانا تو درکنار پی ٹی وی کی نیوز کاسٹرز بھی گھونگھٹ کی آڑھ میں خبریں پڑھتی تھیں۔ نتیجہ صاف ظاہر تھا۔ جنرل ضیا نے ایک ملاقات میں نازیہ اور ان کے گلوکار بھائی زوہیب کو ملک سے نکل جانے کا ’مشورہ‘ دیا۔
دوسری جانب دیا کو جو ناروے کے ایک مڈل کلاس پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، رجعت پسند تارکین وطن کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑایہاں تک کہ انہیں قتل کی دھمکیاں ملنے لگیں اور انہیں ملک چھوڑکر لندن اور پھر امریکہ منتقل ہونا پڑا۔ آخرِ کار انہوں نے گائیکی کو خیرباد کہہ کر موسیقی کی ترتیب دینا شروع کی اور آج کل وہ نوجوان لڑکیوں کے حقوق کی کارکن کے طورپر لیکچر دیتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ لوک موسیقی کی کوکھ ہی سے کلاسیکل بلکہ موسیقی کی تمام اصناف نے جنم لیا ہے جس میں علاقائی مٹی کی خوشبو اور صوفیانہ تصورات سادگی کے ساتھ اپنے اصلی رنگ میں نظر آتے ہیں۔ لوک موسیقی کو مقبول بنانے میں گلوکاراؤں کا ایک بہت بڑا حصہ ہے اور ان میں عابدہ پروین اور ریشماں اپنی سادگی اور بے ساختگی کا ایک نیا انداز رکھتی ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستانی معاشرہ ان دونوں کو ایک خاص نظر سے دیکھتا ہے۔
مصنفہ نے عابدہ پروین کی مقبولیت میں ان کے صوفیانہ طرز زندگی اور ا چھوتے انداز کی گائیکی کا ذکر توکیا ہے مگر مجموعی طور پر ان کے فن اور صوفیانہ کلام کا تجزیہ کرنے کی بجائے ان کے لباس اور مردانہ طرز گائیکی پرزیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔ یہ تو صحیح ہے کہ عابدہ کا یہ انداز ادائیگی کی روائتوں کے خلاف بغاوت ہے مگر انہوں نے سندھی لوک موسیقی اور صوفیانہ کلام کے امتزاج سے جس خوبصورت گائیکی کو فروغ دیا اس کا تجزیہ بھی کیا جاسکتا تھا۔
عابدہ کی طرح ریشماں بھی لوک موسیقی میں ایک سادہ اور اوریجنل انداز لئے ہوئے تھیں۔ لوک موسیقی کو اکثر غزل اور فلمی موسیقی سے قریب لانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن زبان کی وہ سادگی جو لوک موسیقی کی خاصیت ہے یہاں آ کر دم توڑ جاتی ہے۔ ٹی وی کے ایک انٹر ویو کے حوالے سے ریشماں نے اسی پہلو کو اپنی سادہ بیانی سے مزید واضح کرنے کی کوشش کی جس کا حوالہ کتاب میں موجود ہے۔
ریشماں کی سحر انگیز آواز، علاقائی زبان کی بے ساختگی اور اونچی اٹھان کو پی ٹی وی کے علاوہ بالی وڈ میں بھی استعمال کیا گیا بلکہ ان کی دھنوں کی نقالی میں لتا جیسی فن کارہ نے فلمی نغمے بھی گائے ہیں۔
کتاب کے آخری باب میں بھی لوک فن کاروں کے اسی استحصال کا ذکر ’کوک اسٹودیو‘ کے ایک پروگرام کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ یہاں مشہور لوک سنگر عارف لوہار کو پاپ سنگر میشا شفیع کے گانے میں شریک کیا گیا جن کا تعلق تعلیم یافتہ درمیانے طبقے سے ہے۔ مصنفہ کے خیال میں اس طرح انہیں لوک موسیقی کے ذریعے مقبول بنانے کی کوشش کی گئی۔ اگر یہ صحیح ہے تو فنون لطیفہ میں طبقاتی تقسیم اورا س کی طاقت کے اظہار کی اس سے بہتر مثال مشکل ہی سے ملے گی۔ لوک موسیقی کی مقبولیت کو کبھی ٹی وی اور کبھی فلموں میں مالی فوائد کے لئے استعمال کرنا سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے جہاں فن اور فن کار کی اہمیت مارکیٹ ویلیو سے تعین کی جاتی ہے اس کے فنی معیار سے نہیں۔
کتاب کے آخری حصے میں جو متن سے الگ ہے، پانچ گلوکاراؤں کے انٹرویو شامل کئے گئے ہیں جن میں ٹینا ثانی، طاہرہ سید، ثریا ملتانیکر، حدیقہ کیانی اور عالیہ شامل ہیں۔ اگرچہ ان کا ذکر متن میں بھی موجود ہے لیکن میرے خیال میں ان معیاری انٹر ویوزکے ذریعے گلوکاراؤں کی زندگی اور فن کو الگ ابواب کی صورت میں کتاب کا حصہ بنا کران کی افادیت میں اضافہ کیا جا سکتا تھا۔
مجموعی طور پر فوزیہ افضل خان نے پاکستانی معا شرے میں گلوکاراؤں کی زندگی کے حوالے سے ان کے فن کارانہ امیج کا تجزیہ تحقیق کے نئے زاویوں سے کیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے متضاد سماجی رویوں کو طبقات، صنفی تعصبات، سماجی وقار، فن اور جدیدیت کے حوالوں سے سمجھنے کوشش کی ہے۔ انہوں نے بڑی مہارت سے ہما ری متضاد دنیاؤں میں سیکولرزم اور رجعت پسندی، صنف نازک اور پدرسری نظام، خاندانی وقار اور انفرادی آزادی اور طبقاتی بالادستی اور مساوات کے رویوں کو آشکار کیاہے جو اس سے پہلے کبھی منظرِ عام پر نہیں آئے تھے۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔