خبریں/تبصرے

بی بی سی کی 100 با اثر خواتین: ماہرہ خان اور نسرین ستودہ کا مقابلہ کیسے ممکن ہے؟

فاروق سلہریا

گذشتہ ہفتے بی بی سی نے دنیا کی 100 با اثر اور متاثر کن (انسپائرنگ) خواتین کی فہرست جاری کی۔ اس فہرست میں پاکستان سے دو خواتین کو شامل کیا گیا: اداکارہ ماہرہ خان اور ثانیہ نشتر۔

ایران سے اس فہرست میں انسانی حقوق کی معروف کارکن اور وکیل نسرین ستودہ شامل کی گئی ہیں۔ نسرین ستودہ کو امسال متبادل نوبل انعام بھی دیا گیا۔ وہ اِس وقت جیل میں ہیں۔ انہیں 38 سال قید اور سو سے زائد کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی۔ ماضی میں بھی وہ کئی بار جیل کاٹ چکی ہیں۔ چندماہ قبل انہوں نے سیاسی قیدیوں کے حقوق کے لئے جیل میں بھوک ہڑتال بھی کی۔ نسرین ستودہ کا شمار ان بہادر ایرانی خواتین میں ہوتا ہے جن سے ایران پر مسلط ملا شاہی گھبراتی ہے۔ اسی لئے انہیں بی بی سی نے اس فہرست میں شامل کیا ہے۔

ماہرہ خان کو اس فہرست میں اس لئے شامل کیا گیا ہے کہ وہ رنگ گورا کرنے والے کریم کے خلاف مہم چلا رہی ہیں!

یہ مہم اہم سہی مگر نسرین ستودہ کی جدوجہد اور ماہرہ خان کی ’کمپئین‘ ایک ہی پلڑے میں؟

جس ملک میں لوگ لاپتہ ہو رہے ہوں، جمہوریت جی ایچ کیو کی دہلیز پر سر نگوں پڑی ہو، خادم رضوی کے معتقدین گردنیں تن سے جدا کرنے کی قوالیاں کر رہے ہوں…اس ملک میں رنگ گورا کرنے والی کریم کے خلاف مہم چلانا یقینا بہت رسکی (Risky) کام ہے لیکن بی بی سی نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ اس رسکی کمپئین کی وجہ سے ماہرہ خان کو کوئی مالی نقصان ہوا ہو، کوئی جان سے مار دینے کی دھمکی ملی ہو، کسی دن لاپتہ کی گئی ہوں…اور کچھ نہیں تو ان کی کمپئین کے نتیجے میں رنگ گورا کرنے والی کریموں کا دھندہ چوپٹ ہوا ہو؟ ایسی کوئی معلومات بی بی سی نے ہمیں فراہم نہیں کی۔ نہ ہی ایسی کوئی معلومات ہمارے ناقص علم میں ہے۔

اس کے باوجود نسرین ستودہ کی جدوجہد اور ماہرہ خان کی ’کمپئین‘ ایک ہی پلڑے میں؟

اسی طرح فن لینڈ کی وزیر اعظم ثنا مارین اور افغان طالبہ سومیا فاروقی بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ یقینا ثنا مارین کی یہ کمپئین بہت اہم ہے کہ آٹھ گھنٹے کی بجائے اوقات کار چھ گھنٹے ہونے چاہئیں۔ یہ بھی قابل ستائش اور منفرد بات ہے کہ ان کی مخلوط حکومت میں شامل تما م سیاسی جماعتوں کی سربراہ خواتین ہیں لیکن سکینڈے نیویا ایسے لبرل اور فلاحی معاشرے میں کام کرنے والی ثنا مارین اور افغانستان میں سائنسی ایجادات کرنے والی سومیا کا مقابلہ کیسے ممکن ہے؟

ایسی تمام فہرستیں بوگس ہی نہیں قابل نفرت بھی ہیں۔ صرف اس لئے نہیں کہ یہ غیر جمہوری انداز میں اوپر سے مسلط کی جاتی ہیں بلکہ اس لئے بھی کہ یہ سرمایہ دارانہ فلسفے کو آگے بڑھاتی ہیں۔

ایسی فہرستیں مقابلے اور میرٹ (معیار) کے فلسفے کو آگے بڑھاتی ہیں۔ یہ انفرادیت کو فروغ دیتی ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اگر کسی شخص میں قابلیت ہو تو وہ سومیا کی طرح ہرات میں رہ کر بھی کچھ کر سکتا ہے۔ اس لئے سامراج اور علاقائی قوتوں نے افغانستان کو گذشتہ چالیس سال میں حشر کیا ہے، اس پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ سیاق و سباق کی بات نہیں کی جاتی۔ یہ سب سرمایہ دارانہ فلسفے کے اظہار ہیں۔

نسرین ستودہ با ثر بھی ہیں اور انسپائرنگ بھی۔ انہیں بی بی سی ایسے کسی سامراجی ادارے سے کسی توثیق کی کوئی ضرورت نہیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔