فاروق سلہریا
(۱) تین چار دن پہلے جس طرح کے سوشل میڈیا ٹرینڈ بنے، اس پر میڈیا میں سینہ کوبی کی جا رہی ہے۔ اچھی بات ہے۔ مین سٹریم میڈیا کو بہت پہلے شور مچانا چاہئے تھا لیکن ماضی میں چونکہ ہمیشہ اپوزیشن کی خواتین، بلاگرز، سیاسی کارکن اور صحافی خواتین نشانے پر ہوتی تھیں اس لئے یہ ٹرینڈ کسی کو نظر نہیں آئے۔ اس بار جوابی کاروائی کی گئی اس لئے اچانک تجارتی میڈیا کو اخلاقیات یاد آ گئیں۔ یہ منافقت کے سوا کچھ نہیں۔
(۲) انصاف کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مکافات عمل کوئی چیز نہیں ہوتی۔ مکافات عمل کسی چیز کے ازالے یا نظام میں بہتری کا باعث نہیں بنتے۔ یہ اخلاقی بھاشن ہوتا ہے جس سے غریبوں کا دل بہلایا جاتا ہے۔ اس لئے ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ نواز شریف کی قیادت میں آئی جے آئی نے جو گندی زبان بے نظیر بھٹوکے خلاف استعمال کی، اس سے کہیں زیادہ غلیظ زبان اب مریم نواز شریف کے خلاف استعمال کی جا رہی ہے اس لئے یہ مکافات عمل ہے۔ اس سارے قضئے سے یہی ’اخلاقی سبق‘ ملتا ہے کہ جب سیاسی بیانئے کو غلاظت کا ڈھیر بنایا جائے گا تو بدبو کا سفر کوئی سی دیوار چین نہیں روک سکتی۔
(۳) فاطمہ جناح سے لے کر مریم نواز تک، فلتھ جنریشن وارفیئر کا پہلا نشانہ خواتین بنتی ہیں۔ بات صرف نشانہ بننے والی پبلک فگر خواتین تک محدود نہیں رہتی۔ پیغام تمام خواتین تک جاتا ہے۔ خواتین، بالخصوص نوجوان خواتین، یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ اگر مریم نواز شریف جیسی طاقتور خاتون کے ساتھ ورچوئل ورلڈ میں یہ سلوک ہو سکتا ہے یا معروف صحافی خواتین کو بے جھجک گالی بکی جا سکتی ہے (حتیٰ کہ ریپ کی دھمکی دی جا سکتی ہے) تو اُ ن کا کیا بنے گا؟ گھر کے مرد علیحدہ سے ان کی پولیسنگ شروع کر دیتے ہیں۔ یوں ایک غیر ریاستی سنسر شپ لگ جاتا ہے۔ ایک ایسا ملک اور معاشرہ جہاں پہلے ہی بولنے اور سوچنے کی آزادی محدود ہے وہاں عورتوں کے بارے میں غلیظ میڈیا ٹرینڈز مزید گھٹن ہی پیدا کر سکتے ہیں۔
(۴) یہ ٹرینڈز اور غلیظ بیانیہ حکمران طبقے نے رواج دیا ہے۔ یہ رجحان ایک اور ثبوت ہے کہ اس ملک کا حکمران طبقہ ثقافتی لحاظ سے کس قدر منافق اور گلا سڑا ہے۔ ایک طرف ملک کا وزیر اعظم مغرب کو فحاشی کے طعنے دے رہا ہے۔ دوسری طرف اسی وزیر اعظم کی تیار کردہ کھیپ نے سیاسی لغت اور گالم گلوچ کا فرق ختم کر دیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سول سوسائٹی (اس سے مراد این جی اوز نہیں) ایک پہل کرے۔ تحقیقات کی جائیں کہ اس طرح کے ٹرینڈ کہاں سے شروع کئے گئے۔ یہ پتہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ ریاست جب کسی بلاگر یا سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو پکڑنا چاہتی ہے، فوراً پکڑ لیتی ہے۔ اب تو کہا جا رہا ہے کہ واٹس ایپ کی نگرانی کے لئے بھی سوفٹ وئیر خرید ا جا رہا ہے۔
ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے اگر آن لائن چوکیداری کے لئے خرچ کئے جا رہے ہیں تو اس کا مقصد حزب اختلاف اور سول سوسائٹی کو نشانہ بنانا نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا مقصد اس فلتھ جنریشن وارفیئر کا خاتمہ ہونا چاہئے جس کی تجسیم قوم یوتھ کی شکل میں سوشل میڈیا پر مسلط کر دی گئی ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔