خبریں/تبصرے

وزیر پھر تبدیل: آخر خان صاحب کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ (حصہ اؤل)

سرمد خواجہ

دو سال میں چار بار وزیر تبدیل کرنا گڈ گورننس نہیں۔

آخرخان صاحب کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟

ان کے بنیادی مسئلے کی نشاندہی ہم شیکسپیئر (انگلستان کے ڈرامہ نگار 1564-1616ء) کے ڈرامے ’جولیس سیزر‘ کے ایک مشہور مکالمہ کی مدد سے یوں بیان کر کے کر سکتے ہیں:

مسئلہ ان کے وزیروں میں ہے نہ ہی ان کے ستاروں میں۔ مسئلہ ان کی ناکارہ، انتہائی دائیں بازوکی سیاست میں ہے جس کے معاشی پہلو کو خان صاحب چور چور اور این آر او کے شور کی آڑ میں ریاست کی پوری طاقت کے ساتھ نافذکر رہے ہیں۔

اس سیاست میں غریب لوگوں کے مسائل حل کرنا شامل نہیں ہے چنانچہ مسائل جوں جوں بڑھ رہے ہیں، توں توں خان صاحب کے شور کا والیوم بھی اونچا ہو رہا ہے۔ تاہم نہ تو اونچا شور، نہ مخالفین کو جیل میں بند کرنے اور نہ ہی ٹی وی پر ترکی کے غیر تاریخی، مبالغہ آمیز ڈرامے دکھانے سے غریب لوگوں کی تکلیف اور محرومیاں کم ہو ں گی۔

انتہائی دائیں بازو کی سیاست کے معاشی پہلو کی تین خصوصیات قابل ذکرہیں: غریب لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کم سطح کی سرمایہ کاری، عسکریت پسندی لہٰذا دفاع پر زیادہ اخراجات اور حکومتی اثاثے بیچنا خاص طور پر منافع بخش سرکاری کمپنیاں۔

انتہائی دائیں بازوکی سیاست کے معاشی پہلو کو ہر فوجی آمر نے نافذ کیا اور نتیجے میں ہر بار ملک دیوالیہ ہوا۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا چنانچہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ اس بار انتہائی دائیں بازو کی سیاست بدعنوانی کے خاتمے کا بھیس بدل کر آئی ہے۔ اسی لئے شہروں کی مڈل کلاس کے کچھ لوگ اس کی حقیقت کو ابھی تک پہچان نہیں پائے اور پی ٹی آئی کی بدستور حمایت کرتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاست کو بے نقاب کرنا ضروری ہے اور اسکی حکومت کی چھٹی بھی ضرروی ہے تاکہ ملک کو پھردیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ ابھی ملک پوری طرح دیوالیہ نہیں ہوا یعنی ابھی وہ وقت نہیں آیا جب ہم قرضے وقت پر نہ لوٹا سکیں۔ تاہم اگلے چند ماہ کے دوران حکومت نے 440 کروڑ امریکی ڈالر کے قرض واپس کرنے ہیں جس کے لئے وہ شدت سے ڈالر ڈھونڈ رہی ہے۔

اس لئے آجکل حکومت کا زور ہے کہ اوورسیز پاکستانی روشن اکاؤنٹ میں پیسے ڈالیں جس کے لئے وہ دنیا میں اونچی ترین شرح سود دے رہی ہے (ہو سکتا ہے کسی بنانا ریپبلک میں خان صاحب کی طرح کا وزیر اعظم اپنے ملک کی معاشی تباہی کر رہا ہو او ر وہاں اس سے بھی زیادہ شرح سودمل رہا ہولیکن میرے علم میں نہیں ہے)۔

تاہم اہم اعداد و شمار دیوالیہ ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ دیوالیہ ہونے والی حکومت کی علامت ہے کہ آمدنی سے بہت بڑھ کر خرچہ کرنا جو بڑھتے ہوئے بیرونی قرض میں نظر آتا ہے۔ ایک اور علامت ہے آئی ایم ایف کے پاس جانا جس کامطلب ہے کہ ملک کوعام شرائط پرکوئی بھی قرضے نہیں دے رہا نہ بینک نہ ہی بین الاقوامی ادارے اور نہ ہی اوورسیز پاکستانی بہت زیادہ رقم دے رہے ہیں چنانچہ (سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق) اس حکومت نے دو سال میں بیرونی قرض میں 1,568 کروڑ امریکی ڈالر کا اضافہ کیا ہے۔ یہ بہت بڑی رقم ہے، یعنی کل سرکاری قرض (جو 70سال میں جمع ہوا) اس کا 17 فیصد صرف دو سال میں پی ٹی آئی کی حکومت کی وجہ سے ہوا!

اگر تو یہ پیسے سرمایہ کاری کے لئے ہوں، مثال کے طور پر سڑکیں، بجلی گھر، نہریں بنانے کے لئے ہوں یا بچوں کی تعلیم کے لئے ہوں تو بہت اچھا ہے۔ ایسی سرمایہ کاری کا منافع 15-30 فیصد ہے چنانچہ ایسا قرض آسانی سے واپس ہوتا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کی حکومت تو یہ کام نہیں کر رہی۔

وزارت خزانہ کے مرتب کردہ Pakistan Economic Survey 2019-20 کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت کے پہلے سال میں حکومت کی سرمایہ کاری میں 3.9 فیصد کمی ہوئی اور دوسرے سال میں 20 فیصدکمی ہوئی۔

یہ بنیادی وجہ ہے کہ اس سال پیدا وار میں اور دو فیصد کمی ہو گی۔ یہی وجہ ہے بیروز گاری بڑھنے کی، غربت بڑھنے کی (21 کروڑ آبادی میں سے 17 کروڑ غریب ہیں اور پی ٹی آئی کے دو سال کی حکومت میں 1.8 کروڑ لوگ مزید غریب ہو گئے)، ناخواندگی بڑھنے کی 4.2) کروڑ بچے سکول نہیں جاتے(، بچوں میں غذائیت کی کمی ہونے کی (ہر پانچویں بچے کا قد اور ہر تیسرے بچے کا وزن اوسط سے کم ہے)، قیمتوں میں بلاتعطل اضافہ ہونے کی (پچھلے دو سال میں 10 فی صد سالانہ)۔ یہ سب کچھ کسی چور کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت غریب لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے سرمایہ کاری نہیں کر رہی۔

یاد رہے 2020ء میں ہندستان میں مہنگائی کی شرح 3 فیصد رہی ہے، افغانستان میں 2.3 فیصد، سری لنکا میں 5 فیصداوربنگلہ دیش میں 5.6 فیصد۔ اگرحکوت سرمایہ کاری نہیں کر رہی تو پھر 1,568 کروڑ امریکی ڈالرگئے کہاں؟

جواب دیکھئے مضمون کے حصہ دوم میں۔

Sarmad Khawaja
+ posts

 سرمد خواجہ نے 17 سال آئی ایم ایف میں کام کیا۔ اس سے پہلے 4 سال ہالینڈ کے انسٹیٹیوٹ آف سوشل سٹڈیز سے وابستہ رہے۔ ناروے میں ویزیٹنگ پروفیسر تھے اور ہاورڈ یونیورسٹی میں فلبرائٹ پوسٹ ڈاکٹرل فیلو۔ 2010ء سے جنوبی پنجاب میں مقامی لوگوں کے ساتھ ملکر 7 سکول بنا ئے ہیں جہاں 2500 بچے پڑھ رہے ہیں اور ان کے ساتھ فلاح و بہبود کا کام کرتے ہیں۔ بچوں کی کتاب ’دنیا کا محیط‘ لکھی ہے اوراس پر راک آپیرا ’نواں سجھ‘ تیار کر رہے ہیں۔ اپنے والد خواجہ مسعود کے مضامین کی کتا ب ’درس ہاے زندگی‘ اور پردادا الف دین نفیس کی تین جلد وں والی کتاب ’اسلام اور رواداری‘ بھی چھاپی ہے۔ دی نیوز کے لئے مضامین لکھتے رہے ہیں اور اب جدوجہد کے لئے مستقل لکھتے ہیں۔