پاکستان

جھوٹ، بڑا جھوٹ اور حفیظ شیخ

سرمد خواجہ

ایک کہاوت ہے جھوٹ، بڑا جھوٹ اور ان سے آگے ہیں سرکاری اعداد و شمار۔ اگر سرکاری اعداد و شمار غلط ہاتھوں میں ہوں تو یہ کہاوت بالکل درست ہے۔ پی ٹی آئی حکومت جس طر ح سرکاری اعداد و شمار کا حوالہ دیتی ہے ان کی حقیقت پہچاننے کے لئے اس کہاوت کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہ حکومت نہ صرف اعداد و شمار کا نامناسب استعمال کرتی ہے بلکہ اس نے کفایت شعاری کے نام پر پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (ادارہ شماریات)، جو سرکاری اعداد و شمار تیار کرنے کا اہم ادارہ ہے، اس کی سالمیت کوختم کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ گڈ گورنینس کے لئے سرکاری اعداد و شمار نہایت ضروری ہیں۔ گڈ گورنینس کا مطلب ایس او پی جاری کرنانہیں، یا ٹیلیفون پرلوگوں کو میسیج کرنانہیں، یا بد عنوانی اور این آر او کا ڈھونگ رچائے رکھنا نہیں۔ اس کا مطلب ہے ملک کو درپیش مسائل حل کرنا۔

ہمارے سب سے گھمبیر مسائل ہیں: دو سال سے بڑھتی ہوئی غربت (21 کروڑ آبادی میں سے 17 کروڑ غریب ہیں اور پی ٹی آئی کے دو سال کی حکومت میں 1.8 کروڑ لوگ مزید غریب ہو گئے)، ناخواندگی (4.2 کروڑ بچے سکول نہیں جاتے)، بیروزگاری، بچوں میں غذائیت کی کمی (ہر پانچویں بچے کا قد اور ہر تیسرے بچے کا وزن اوسط سے کم ہے)، قیمتوں میں بلاتعطل اضافہ (پچھلے دو سال میں 10 فیصد سالانہ)۔

گڈ گورنینس کا مطلب ہے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرناجس سے حکومتی اخراجات میں طویل مدت کے لئے ترجیحات طے کی جا سکیں اور ان اخراجات کے سالانہ قابل اعتماد اہداف مقرر کئے جا سکیں۔ گڈ گورنینس کا مطلب ہے لوگوں کے روز مرہ کے استعمال کی چیزوں کی قیمتوں کی کڑی نگرانی کرنا تاکہ جب یہ اوپر جائیں تو فوری طور پر مناسب اقدامات لے کر انہیں کم کیا جا سکے۔ یہ سب کچھ کرنے کے لئے سرکاری اعداد و شمار کی ضرورت ہوتی ہے۔

تاہم جو حکومت باقاعدگی سے پالیسی کے حوالے سے یوٹرن لے اور اصرار کرے کہ یوٹرن گڈ گورنینس کی اہم خصوصیت ہے تو وہ طویل مدت کی منصوبہ بندی تو کر ہی نہیں سکتی۔ ملک کے گھمبیر مسائل کس طرح حل کرے گی کیونکہ دو یو ٹرن کے بعد اس کی پالیسی تو ’بیک ٹو سکوئر ون‘ یعنی آپ جہاں سے چلے تھے، وہیں پہنچ گئے۔

حکومت کے سب سے اہم مشیر حفیظ شیخ کا پہلا کام ہے لوگوں کی فلاح و بہبود میں اضافہ کرنا۔ ان کی میز پر ہفتہ وار سینسیٹیو پرائس انڈیکس کی رپورٹ موجود ہوتی ہے۔ پر موصوف کو تو علم ہی نہیں کہ لوگوں کے روزمرہ کی استعمال کی چیزوں کی قیمتیں کیا ہیں چنانچہ بوگس دعوے کرتے رہتے ہیں (مثال کے طور پر 12 نومبر 2019ء کو) یہ کہ ٹماٹر کراچی میں 17 روپے فی کلو فروخت ہوئے جبکہ اس وقت ان کی حقیقی قیمت 250 روپے سے زیادہ تھی۔

حفیظ شیخ نے جھوٹے وعدے کر کے پی ٹی سی ایل اور کے ای ایس سی کی نجکاری کی، انہیں تباہ کیا اور ملک کا کروڑوں روپے کا نقصان کیا۔ اب غلط بیانی کر کے 35 سرکاری کمپنیوں کو بیچ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری کمپنیوں کے خسارے ملکی بجٹ پر بڑا بوجھ ہیں اور سب سے زیادہ منافع دینے والی کمپنیوں کو بیچ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کو بیچا جا رہا ہے۔

2019ء میں او جی ڈی سی ایل نے 17,600 کروڑ روپے کا منافع دیا اور پی پی ایل نے 9,200 کروڑ روپے کا منافع۔ دونوں کمپنیوں نے مل کر حکومت کو 25,100 کروڑ روپے دیے جو 2016ء میں بی آئی ایس پی کے اخراجات سے دو گنا سے بھی زیادہ ہیں۔

جس حکومت کو عوام کے مسائل کا اندازہ ہے نہ منصوبہ بندی کا، ایسی حکومت کو تو سرکاری اعداد و شمار کی ضرورت ہی نہیں چنانچہ یہ حیرت کی بات نہیں کہ اس حکومت نے پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کو پیلینگ مینسٹری کے ماتحت کر کے اس کی سالمیت کو ختم کر دیا ہے۔ یہ بات غیر قانونی ہے۔

یہ اقدام سٹیٹسٹکس ایکٹ 2011ء، آرٹیکل 6، کی خلاف ورزی ہے۔ یہ ایکٹ بیوروکی سالمیت کی ضمانت ہے۔ یو این کے ’Fundamental Principles of Official Statistics‘ کے مطابق جو ملکی ادارہ سرکاری اعداد و شمار تیار کرے اس کا حکومت کے اثر و رسوخ سے آزاد رہنا نہایت ضروری ہے۔ اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی نگرانی میں سرکاری اعداد و شمار تیار ہوتے ہیں۔

اب تو جھوٹ، بڑا جھوٹ بولنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اب تو شیخ صاحب کے پاس اپنے بنائے ہوئے سرکاری اعداد و شمار ہیں۔ اب تو ملک میں خوشحالی ہی خوشحالی ہو گی اور ٹماٹر کراچی میں 17 روپے فی کلو بکتے رہیں گے۔

Sarmad Khawaja
+ posts

 سرمد خواجہ نے 17 سال آئی ایم ایف میں کام کیا۔ اس سے پہلے 4 سال ہالینڈ کے انسٹیٹیوٹ آف سوشل سٹڈیز سے وابستہ رہے۔ ناروے میں ویزیٹنگ پروفیسر تھے اور ہاورڈ یونیورسٹی میں فلبرائٹ پوسٹ ڈاکٹرل فیلو۔ 2010ء سے جنوبی پنجاب میں مقامی لوگوں کے ساتھ ملکر 7 سکول بنا ئے ہیں جہاں 2500 بچے پڑھ رہے ہیں اور ان کے ساتھ فلاح و بہبود کا کام کرتے ہیں۔ بچوں کی کتاب ’دنیا کا محیط‘ لکھی ہے اوراس پر راک آپیرا ’نواں سجھ‘ تیار کر رہے ہیں۔ اپنے والد خواجہ مسعود کے مضامین کی کتا ب ’درس ہاے زندگی‘ اور پردادا الف دین نفیس کی تین جلد وں والی کتاب ’اسلام اور رواداری‘ بھی چھاپی ہے۔ دی نیوز کے لئے مضامین لکھتے رہے ہیں اور اب جدوجہد کے لئے مستقل لکھتے ہیں۔