نقطہ نظر

’سنسرشپ ایک وائرس ہے جو ویکسین کی ایجا د تک زندہ رہے گا‘: شاہد ندیم

قیصر عباس

یہ ان دنوں کی بات ہے جب پی ٹی وی ڈرامے پاکستانی کلچر کا ایک اہم حصہ ہوا کرتے تھے۔ ان دنو ں کی مقبول ڈرامہ سیریز ’جنجال پورہ‘ لاہورمیں ایک محلے کی ہلکی پھلکی کہانی تھی جس کے کردار معاشرے کے اصلی کرداروں کی نمائندگی کر رہے تھے اور شایدا سی لئے ناظرین کے دلوں پر راج بھی کرتے تھے لیکن کہانی صرف مزاحیہ کرداروں کے گرد ہی نہیں، اس وقت کے سماجی مسائل کے گر دبھی گھومتی تھی۔ معاشرتی شعور اور تضادات کی جو تصویر یں اس سیریز نے تخلیق کیں وہ آج کے کمرشل ڈراموں سے کہیں مختلف اور حقیقت پسندانہ تھیں۔

اس ڈرامے کے خالق اور لکھاری شاہد ندیم تھے جنہوں نے اپنے ایک اسٹیج ڈرامے کو ٹی وی سکرین کے قالب میں ڈھالا تھا اور سیریز کے پروڈیوسر تھے طارق جمیل۔ 1973ءمیں ٹی وی پروڈیوسر کی حیثیت سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنے والے شاہد ندیم آج ایک جانے پہچانے ڈرامہ نگار اور ہدایت کار ہیں جن کی شہرت ملک سے باہر بھی پھیل چکی ہے۔

ہدایت کار ی کے علاوہ انہوں نے پی ٹی وی میں ترقی کی تمام منزلیں طے کیں اور یونین سے لے کر جنرل مینیجر، پروگرام ڈائریکٹر اور پھر ڈپٹی مینیجنگ ڈائیریکٹر تک کے تمام مراتب ان کے حصے میں آئے لیکن ان کے بقول اپنی تمام تر رنگینیوں کے باوجود ٹی وی ان کی منزل مقصود نہیں تھی جب کہ تھیٹر کی دنیا ان کے لئے زیادہ دلفریب تھی۔

پی ٹی وی سے تھیٹر تک کا یہ سفر اگرچہ ان کی محنت اور گو نا گوں صلاحیتوں کا ثبوت ہے لیکن اس کاہر موڑ صعوبتوں اور مشکلات سے خالی بھی نہیں ہے۔ جنرل ضیا کا دور آیا تو انہیں گرفتارکر کے قید کی سزا سنائی گئی اور پھر جلا وطن کیا گیا۔ پی ٹی وی سے دوبار ان کی ملازمت بھی ختم کی گئی۔

شاہد ندیم اجوکا تھیٹر کے بانیوں میں سے ہیں جس کے اسٹیج ڈراموں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ملکوں میں اسے با مقصد تھیٹر کی تحریک کا حصہ بنا دیا ہے۔ ان کے سماجی، سیاسی اور تاریخی پس منظر میں لکھے ہوئے ڈرامے تفریحی عنصر بھی لئے ہوتے ہیں جو ان کی مقبولیت کا راز ہیں۔

موسیقی، رقص اور مقامی رنگ میں ڈھلے تمثیلی شہہ پارے انسانی رشتوں، صنفی رویوں اور روزمرہ کے مسائل دیکھنے والوں کو کسی اور ہی دنیا میں پہنچا دیتے ہیں۔

ان کے ڈرامے ’دارا‘ اور ’بلہا‘ تاریخی کرداروں کے سہارے بر صغیر کی مقبول صوفی روایات کا تعارف کراتے ہیں جہاں مذہب اور ذات پات کی سرحدیں پار کر کے لوگ انسانی رشتوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ’چیرنگ کراس‘ لاہور شہرکے ایک چوراہے کی ثقافتی اور سیاسی زندگی کی کہانی ہے۔ ’سائرہ اور مائرہ‘ کی تمثیل انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔

شاہد ایک ڈرامہ نگار کی حیثیت سے انسانیت، سماجی تبدیلی، امن اور معاشرتی ہم آہنگی کے موضوعات کو بڑی مہارت سے اپنی کہانیوں کا موضوع بناتے ہیں۔ ان کے ڈرامے پاکستان سے باہر برطانیہ، امریکہ اور انڈیا میں بھی اسٹیج کی زینت بنے ہیں اور کئی ڈرامے کتابی صورت میں بھی انگریزی اور اردو زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ شاہد ندیم نے کئی دستاویزی فلمیں بھی تخلیق کی ہیں جنہیں بین الاقوامی ایوارڈ دیے گئے ہیں۔

ان کے فن کے اعتراف میں انہیں حسن کارکردگی کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیاہے۔ انڈیا میں بھی انہیں گرشرن سنگھ ایوارڈ اور امریکہ میں 2012ءمیں اوٹورینے کوسٹلو (Otto Rene Costillow) ایوارڈ کے ذریعے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کوتسلیم کیا گیا ہے۔ روزنامہ جدو جہد کے ساتھ اس انٹرویو میں انہوں نے اپنے تخلیقی سفر کی روداد اور زندگی کے اتارچڑھاو کی تمام تفصیلات بیان کی ہیں۔

آپ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا سفر پی ٹی وی میں پروڈیوسر کی ملازمت سے شروع کیا اور آج آپ ملک کے شہرت یافتہ ڈرامہ نگار، اسٹیج ہدائت کار اور ڈاکومنٹری پروڈیوسر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان سب مراحل میں سب سے مشکل آپ کس دور کو سمجھتے ہیں اور کیوں؟

میرے خیال میں جب میں نے پی ٹی وی میں پروڈیوسر کی حیثیت سے ملازمت شروع کی تو میرا کام کافی دشوار تھا۔ ٹی وی اس وقت نیا میڈیم تھا اور تربیت کے مواقع بہت کم تھے۔ صرف تین ہفتوں کی تربیت کے بعد ہمیں کام پر لگادیا جاتا تھا اور توقع یہ تھی کہ ہم کیمرہ مین، انجینئر، ڈیزائنر، ایڈیٹر، موسیقار، سکرپٹ رائٹر اور گلوکار کی پوری ٹیم کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔

پی ٹی وی اس وقت واحد چینل تھا اور پروڈیوسر، خاص طور پر ڈرامہ پروڈیوسر کو معاشرے میں ایک سیلبرٹی سمجھا جا سکتا تھا لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے، اختیارات کے ساتھ ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ آپ کو خیال رکھنا پڑتا تھاکہ کسی کی دل آزاری نہیں ہو رہی۔ امکانات تھے کہ پروگرام نشر ہونے کے بعدشہر میں آپ لوگوں کی قہر بھری نظروں کا نشانہ بنیں، ارباب اختیار یا انتظامیہ کی جانب سے تعریفی خطوط یا سرزنش کے امکانات بھی ہو سکتے تھے۔

ٹی وی کی دنیا ایک طرف، میر ی توجہ کا مرکز ہمیشہ سے تھیٹر ہی رہا جہاں آپ خود اپنی مر ضی کے مالک ہوتے ہیں، کوئی آپ کو حکم نہیں دے سکتا اور مارچنگ کے احکامات صادر نہیں کئے جا سکتے۔

مجھے یہ گر سیکھنا پڑا کہ کس طرح اپنے پروگراموں کو با معنی اور تنقیدی بھی بنا سکوں اور اپنی ملازمت بھی بچا سکوں (اگرچہ دو مرتبہ مجھے ملازمت سے نکالا بھی گیا)۔ اس دور میں پی ٹی وی کی اجارہ داری تھی، اشتہارات کی کوئی کمی نہیں تھی اور آج کل کی طرح جدت کو مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کی تنقید کا سامنا نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تو ترقی پسند تھی لیکن ضیاالحق کے آتے ہی یہ سب کچھ بدل گیا۔

پی ٹی وی پروڈیوسر کے ساتھ ساتھ آپ یونین میں بھی فعال رہے پھر اس کے بعد ادارے کے اعلیٰ انتظامی عہدے سنبھالے اور ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچے۔ مزدور یونین اور انتظامیہ دونوں متضاد شعبے ہیں جو اکثر ایک دوسرے سے متصادم بھی رہتے ہیں۔ ادارے کے دو الگ شعبوں میں شمولیت کا فیصلہ کہاں تک درست تھا؟

دراصل میں نے کبھی وابستگی نہیں بدلی۔ میری پی ٹی وی یونین سے وابستگی اس کی معمول کی سرگرمیوں سے مختلف اور سیاسی تھی۔ میں اس کے ذریعے انقلاب کی راہ ہموار کرنا چاہتا تھا۔ میں اپنے ساتھیوں سے گھنٹوں سماجی تبدیلی، اتحاد اور انقلاب پر بات کرتا۔ اس زمانے میں مینجمنٹ اتنی تجربہ کار نہیں تھی اور حکومت ہماری اہمیت کی بنا پر ہمارے ساتھ تھی۔ میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ پروگراموں میں سماجی پیغام دوں یہاں تک کہ قوالیوں میں بھی میں نے ترقی پسند پہلووں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔

فوجی حکومت آنے کے بعد مجھے اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ مجھے گرفتار کر کے اسیری میں رکھا گیا اور پھر ملک بدر کر دیا گیا۔ برسوں میں ملک سے باہر رہا اور جب جنرل نے آموں کی ٹوکری کو ٹھوکر ماری تب ہی میں واپس آ سکا۔ میری انتظامی صلاحیتوں کا اندازہ اس وقت ہوا جب بے نظیر کی حکومت آئی۔ اس وقت تک ضیا نے پی ٹی وی میں بے شمار رجعت پسند ملازمین بھرتی کر لئے تھے اور حکومت کو بھروسے کے لوگوں کی تلاش تھی۔ میرے لئے یہ یونین میں بائیں بازو کی سرگرمیوں کا دوسرا موقع تھا۔

آپ اسٹریٹ تھیٹر کے علاوہ جو عام لوگوں کے لئے تھا، اسٹیج تھیٹر میں بھی فعال رہے جو زیادہ تر امرا کے لئے تھا۔ ان دونوں قسم کے شائقین کی مخصوص پسند اور ان کے معیار پر کس طرح پورے اترے؟

میرا خیال نہیں کہ ہم نے امرا کے لئے ڈرامے کئے ہوں۔ ہمارے موضوعات ہمیشہ ترقی پسند اور عام آدمی کے لئے ہوتے ہیں۔ ہم نے مزدوروں کے حقوق، صنفی مسائل، اقلیتوں کے مسائل اور مزدور بچوں کی بات کی اور کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

ہاں جب بھی ہم آرٹ کونسل کے آڈیٹوریم میں ڈرامے پیش کرتے ہیں تو امرا بھی انہیں دیکھتے ہیں لیکن یہ لوگ ترقی پسند ہوتے ہیں اور ہمارے ڈراموں میں سماجی تنقید کو پسند کرتے ہیں۔ اصولی طور پر ہم انگریزی زبان میں ڈرامے نہیں کرتے اور ڈنر تھیٹر سے گریز کرتے ہیں۔

زیادہ تر متوسط طبقے کے نوجوان ہمارے ڈراموں کا حصہ ہوتے ہیں اور ہم اپنے ڈراموں کے ٹکٹ نہیں بیچتے تا کہ معاشرے کے تمام لوگوں تک ہمارا پیغام پہنچے۔ ہمیں معلوم ہے کہ لوگ ڈرامے کے فن سے زیادہ واقف نہیں ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اگر ہم معیاری ڈرامے پیش کریں تو وہ انہیں نا پسند کریں۔ اکثر و بیشتر ہم تاریخی اور صوفیانہ ڈرامے پیش کرتے ہیں جنہیں لوگ بہت سراہتے ہیں۔ ہم چاہے گاوں میں اپنے فن کا اظہار کریں یا شہروں میں، ہمارا مقصد عام لوگوں کے مسائل کی بات کرنا اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں کے مسائل کی عکاسی کرنا ہے۔

پاکستان میں تقریباً سب ہی آمروں اور سول حکومتوں نے پی ٹی وی کو غیر جانبدار اور آزاد ادارہ بنانے کے دعوے کئے لیکن برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے اس پر اپنی گرفت مزید مضبوط کر دی۔ آپ کے خیال میں پی ٹی وی کس طرح ملک میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکتا ہے؟

پی ٹی وی کبھی اپنے مقاصد اور پالیسیوں کے لحاظ سے آزاد ادارہ نہیں رہ سکتا۔ یہ حکومت کے تحت وزارت اطلاعات، فنانس ڈویژن اور حکومت کے نامزد بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ذریعے کام کرتا ہے۔ آمرانہ دور میں یہ کنٹرول اور بھی سخت ہو جاتا ہے لیکن اس دوران نیوز اور کرنٹ آفیرز کے شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

اس کے باوجود تفریحی شعبے میں بہت گنجائش ہوتی ہے۔ ایک ایسا قومی ادارہ ہونے کی حیثیت سے جسے ٹیکنالوجی کے ذریعے ملک کے دور دراز علاقوں تک رسائی حاصل ہے، ایک عشقیہ کہانی بھی پر اثر ہو سکتی ہے۔ پی ٹی وی کو آج بھی ایک بااثر ادارہ بنایا جا سکتا ہے کیوں کہ نجی چینلوں کی طرح اسے ر یٹنگ اور سپانسروں کا مرہون منت نہیں ہونا پڑتا۔ اس کے تفریحی پروگرام کی پہنچ نہ صرف ملک کے دیہی بلکہ شہری علاقوں تک ہے۔

غیر منقسم انڈیا میں اسٹریٹ تھیٹر کی پرانی روایات تھیں جو اب بھی جاری ہیں۔ کیا پاکستان میں بھی ایسی روایات تھیں جن کے ذریعے سماجی مسائل کو اجاگر کیا گیا؟

پاکستان میں سیاسی سٹریٹ تھیٹر کی روایات اتنی مضبوط نہیں رہیں لیکن لوک اور عوامی تھیٹر کی روایت بہت مقبول رہی ہے۔ تہواروں اور میلوں میں پیش کیے جانے والے ڈرامے سماجی مسائل کی بات کرتے رہے ہیں۔ آج کے جدید دور میں کچھ بائیں بازو کے تھیٹر گروپس بھی سامنے آئے ہیں جو کچھ حد تک پرُ اثر بھی ہیں۔

کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی اور سٹریٹ تھیٹر نے جنرل ضیا کے بد ترین آمرانہ دور میں فروغ حاصل کیا۔ اجوکا تھیٹر کا قیام 1984ءمیں عمل میں آیا اور اسی دوران لاہور اور کراچی میں بھی کچھ تھیٹر گروپس بنے لیکن انڈیا کی طرح یہ صرف سٹریٹ تھیٹر نہیں تھے بلکہ ایک متوازی تھیٹر تھے جو شہروں اور دیہی علاقوں میں بیک وقت سرگرم تھے۔

ہم اپنے ڈرامے اسٹیج پر پیش کرتے ہیں لیکن اگر اجازت نہ ملے تو گاوں اور کمیونٹیوں میں بھی کام کرتے ہیں۔ ہم سٹریٹ تھیٹر کی طرح کاسٹیوم، سیٹ اور سٹیج کے دوسرے لوازمات پر دھیان نہیں دیتے بلکہ فن کاروں کی ادائیگی، تاثرات اور ان کی حرکات و سکنات پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اسے غریبوں کا تھیٹر بھی کہا جاتاہے، صرف لوازمات کے اعتبارسے لیکن موضوعات اور فن کے اعتبار سے یہ تھیٹر بہت امیر ہے۔

برصغیر اور پاکستان میں میڈیا پر پابندیاں اور سنسرشپ اب زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔ کیا یہ پابندیاں تھیٹر کی دنیا تک بھی پہنچ گئی ہیں؟

میرے خیال میں سنسرشپ ایک وائرس ہے اور کرونا وائرس کی طرح یہ اپنا اثر جاری رکھے گا جب تک اس کی ویکسین ایجاد نہ ہو جائے۔ آمرانہ دور میں یہ ایک جابرانہ نظام کی صورت اختیار کر لیتی ہے لیکن جمہوری عہد میں یہ بالواسطہ رہتی ہے۔ کچھ عرصے سے غیر سرکاری عناصر بھی سنسرشپ کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں جن میں اخلاقی اقدار کے دعوے دار، دائیں بازو کی اشرافیہ، مذہبی بنیاد پرست اور شدت پسندگروہ شامل ہیں۔

ان تمام عناصر کا نشانہ آج کل میڈیا ہے لیکن یہ رفتہ رفتہ تفریحی اداروں اور سوشل میڈیا کی جانب بھی متوجہ ہو رہے ہیں۔ تھیٹر پر ان کاکنٹرول آرٹ کو نسلوں اور ہال کے مالکوں پر دباو کے ذریعے ہوتا ہے۔ دائیں بازو کے گروہ اور ایجنسیاں بھی اس میں خاصے متحرک ہیں۔ اس کے علاوہ ثقافتی اداروں کی سرکاری فنڈنگ بھی سنسرشپ کا ایک خاص حربہ ہے۔

الیکٹرانک میڈیا کے لئے حکومت اور میڈیا کے مالکان بھی سنسر شپ کے محرک ہو سکتے ہیں لیکن اجوکا تھیٹر اور وسرے گروپس بھی کبڈی کے کھلاڑیوں کی طرح سنسرشپ سے صاف بچ نکلنے کا گر جانتے ہیں اور کسی کے ہاتھ نہیں آتے۔

پنجاب میں بھانڈ کی روائت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مزاحیہ تھیٹر نے جنم لیا جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر ختم بھی ہو گیا۔ اس کی مقبولیت کا دارومدار لغو اور نچلے درجے کا مزاح تھا۔ بعض نجی ٹی وی بھی اس روائت کو اپنے مزاحیہ پروگراموں میں استعمال کر رہے ہیں لیکن خاصے بھونڈے انداز میں۔ آپ کے خیال میں اس اہم صنف کو اعلیٰ تخلیقی معیار اور علاقائی تشخص کے ساتھ کس طرح زندہ رکھا جا سکتا ہے؟

بھانڈ ہماری لوک تہذیب کی ایک اہم اور قابل قدر روائت ہے جس سے پنجاب کے سماجی شعو ر اور حسِ مزاح کا اظہار ہوتا ہے۔ اس روائت سے کئی مزاحیہ ڈراموں اور پروگراموں نے جنم لیا ہے۔ یہ دیکھ کر دکھ ہوتاہے کہ یہ روائت معاشرے میں بڑھتے ہوئی عدم برداشت اور تعصبات کے نتیجے میں دم توڑ رہی ہے۔ دوسری طرف میڈیا کے ذریعے اس روائت کے استحصال کی کوششیں بھی قابل تعریف نہیں ہیں۔

ضرورت ہے کہ ہم اس آرٹ کو تحقیقی بنیادوں پرسمجھنے کی کوشش کریں اور ماہرین کے تعاون سے اسے محفوظ کرنے کے اقدامات اٹھائیں۔ میں نے اس روایت کے ذریعے اپنے ڈراموں میں سماجی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جسے پسند بھی کیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جگت اور بھانڈ وں کے ذریعے جدید اور بامقصد تھیٹر کو فروغ دیا جا سکتاہے۔

اجوکا تھیٹر کا قیام پاکستان میں منصفانہ نظام، جمہوریت اور سیکولر روایات کے استحکام کے لئے ہوا تھا۔ اس کے روحِ رواں کی حیثیت سے آپ یہ مقاصد حاصل کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں؟

اجوکا تھیٹر کی بنیاد اس پرآشوب دور میں پڑی جب فو جی آمر ضیاالحق کا جور و ستم عروج پر تھا اور سیاسی اظہار رائے کے تما م ذرائع زیر عتاب تھے۔ بھٹو کا قتل ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں تازہ تھا اور مساوات پر مبنی معاشرے کا قیام ان کے دلوں سے ابھی معدوم نہیں ہوا تھا۔

اس دور کے بعد بھی تھیٹر کی مشکلات کچھ کم نہ ہوئیں۔ آمروں کی حکومتیں بے اختیار سیاستدانوں میں تبدیل ہوتی رہیں پھر کئی اور آمروں کے دور آئے اور آج کی جمہورت مکمل طور پر ان دیکھے ہاتھوں میں کٹھ پتلی سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔ اسی دوران شدت پسندی کے خوف ناک عفریت نے لوگوں کی نیندیں اڑا دیں۔ لیڈروں کی سیاسی شعبدہ بازی خاندانی تجارت میں تبدیل ہوئی لیکن استحصال زدہ لوگوں کے مسائل حل کرنا ان کے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھا۔ اجوکا اس وقت سے اپنے مقاصد کے حصول میں مصروف ہے۔

جہاں تک تھیٹر کے اثرات کا تعلق ہے یہ فن معاشرے میں اس وقت تک فعال کردار ادا نہیں کر سکتا جب تک وہ کسی سیاسی تحریک کا حصہ نہ بنے۔ اس لحاظ سے اس کا اثر اتنا گہرا نہیں ہے لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو محازوں پر ہم خاصے کامیاب رہے ہیں: ملک اور خطے میں قیام امن اور عورتوں پر تشدد۔ اس کے علاوہ ’دارالشکوہ‘، ’بھگت سنگھ‘ اور ’منٹو‘ جیسے ڈرامے ان تاریخی حقائق کو درست کرنے میں مددگار رہے ہیں جنہیں آج ہر طرح سے مسخ کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ 36 برسوں کے دوران ہم نے یہ ثابت بھی کیا کہ ایک ایسے فعال تھیٹر کا قیام ممکن ہے جو مقبول ہونے کاعلاوہ تفریحی، سیاسی طور پر بے باک اور سماجی طور پر بامعنی بھی ہو۔ ہمیں اندازہ ہے کہ آنے والے دن مشکل ہو سکتے ہیں لیکن ہمیں اپنا کام جاری رکھنا ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ جاری رہے گا۔

کرونا وائرس نے پرفارمنگ آرٹ سمیت زندگی کے بیشتر شعبوں کو بری طرح متاثر کیاہے۔ مستقبل قریب میں آپ کن تخلیقی پراجیکٹ یا ڈراموں کو منظرعام پر لا رہے ہیں؟

بد قسمتی سے کرونا وائرس ایک ایسے وقت پر آیا جب ہم کئی ڈراموں پر کام کر رہے تھے۔ ’سائرہ اور مائرہ ‘کی کامیابی کے بعد ہم اس کو مختلف شہروں میں پیش کرنے کی تیاریا ں کر رہے تھے۔ سویڈن کے ایک تھیٹر کے تعاون سے ہم ملالہ کی زندگی پر ایک ڈرامے پر کام کر رہے تھے اور تھیٹرکے فنون پر ہمارے تربیتی پروگرام خاصے مقبول ہو رہے تھے۔ ان سب کو روکنا پڑا۔

یہ چیلنج ہمارے لئے نئے نہیں تھے۔ ابتدائی صدمے سے سنبھلنے کے بعد ہم نے اپنے تربیتی پروگرام کو آن لائن کیا۔ کچھ ہی مہینوں میں ہم نے ایک آن لائن تھیٹر فیسٹول ’کرونا لاگ ‘ (Coronalogue) کا اہتمام کیا۔ اس وقت سے ہم آن لائن ڈرامے پڑھنے اور پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں ہم نے سٹیج ڈانس اور اداکاری کی کلاسیں پھر سے شروع کی ہیں جن میں کرونا کی احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے ان ڈراموں میں ابھی حاضرین کی موجودگی ممکن نہیں ہے۔

ان کے علاوہ ہم کچھ نئے منصوبوں پر بھی کام کر رہے ہیں جن میں راجہ پورس اور لارنس آف عریبیہ پر ڈرامے بھی شامل ہیں۔ مختصر فلموں کی سیریز پر بھی کام ہو رہا ہے اور ہم نے اپنا ایک یو ٹیوب چینل بھی شروع کیا ہے۔ اس طرح جہاں تک ممکن ہو ہم کوشش کرتے ہیں کہ مصروف اور موثر رہیں۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔