حارث قدیر
فارق طارق کہتے ہیں کہ ’ریور راوی پراجیکٹ‘ لاکھوں انسانوں کی زندگیاں چھیننے کا حکومتی منصوبہ ہے، عوامی مزاحمت ہی راہ جات ہے، فاروق طارق بائیں بازو کی تحریک کا ایک متحرک اور پاکستان اور دنیا بھر میں ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ آپ ’کسان رابطہ کمیٹی پاکستان‘ کے جنرل سیکرٹری ہیں، فاروق طارق کا اپنا آبائی گاؤں بھی ’ریور راوی پراجیکٹ‘ کی زد میں آ رہا ہے۔ گزشتہ روز ’جدوجہد‘ نے ریور راوی پراجیکٹ سے متعلق فاروق طارق سے ایک خصوصی انٹرویو کیاجو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
راوی ریور منصوبہ ہے کیا اور اسکے نقصانات کیا ہونگے؟
فاروق طارق: پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے قریب دریائے راوی کے دونوں اطراف 1 لاکھ 2 ہزار ایکڑ اراضی پر حکومت ایک جدید شہر بنانے کی تیاری کر رہی ہے۔ ابھی تک جو معلومات سامنے آئی ہیں انکے مطابق 23 دیہاتوں کی زمین لینے کیلئے ’حصول اراضی ایکٹ‘ کے تحت کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ اس منصوبہ پر حکومتی اعلان کے مطابق 2 ہزار 500 ارب روپے کی سرمایہ کاری حکومت کرے گی، جبکہ پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے تحت ملکی اور عالمی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ منصوبے کی تمام تر کارروائی کی معلومات کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت قیمتی زمینیں اونے پونے داموں ہتھیا کر ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ داروں کو نوازنا چاہتی ہے۔ یہ نیا شہر تو نہیں بسا سکیں گے لیکن لاکھوں انسانوں سے انکی زندگیاں چھین لیں گے۔ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہو گا، لوگ سڑکوں پر آجائیں گے۔ کچی آبادیوں میں اضافہ ہو گا۔ لینڈ مافیا اور قبضہ مافیا کو لوٹ مار اور کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے ایک راستہ مہیا ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ اس کا بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ بڑے پیمانے پر زرعی اراضی کا خاتمہ ہو گا، خوراک کی قلت پیدا ہو گی، لاہور کو فراہم ہونے والی سبزیاں، فروٹ اور تازہ پھول مہنگے ہو جائیں گے۔ سب سے بڑھ کئی کلومیٹر پر پھیلے دریا کے دونوں اطراف دیہاتوں میں بسنے والے لاکھوں انسان سڑک پر آجائیں گے۔
متاثرین پر قابضین کا الزام ہے، اس الزام میں کس حد تک صداقت ہے اور کس طرح کی تعمیرات موجود ہیں؟
فاروق طارق: دریائے راوی میں پانی موجود ہی نہیں ہے، سندھ طاس معاہدے کے تحت اس دریا کا پانی بھارت کے حصے میں آیا تھا، یہی وجہ ہے کہ 1987ء کے بعد یہاں کوئی سیلاب نہیں آیا۔ یہ جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ کسی سرکاری اراضی یا دریا کی اراضی پر کوئی قبضہ کیا گیا ہے۔ تمام متاثرہ دیہاتوں میں لوگوں کی پشتینی اراضی ہے، لوگوں کے پاس رجسٹریاں موجود ہیں۔ ان علاقوں میں چھوٹی فیکٹریاں اور کارخانے موجود ہیں، لاہور سے ہیڈ بلوکی تک کا یہ علاقہ دریا کے دونوں اطراف سے ایکوائر کیا جا رہا ہے۔ مکانات اور فیکٹریوں پر نشانات لگا دیئے گئے ہیں۔ اکثریتی لوگ زراعت کے ساتھ منسلک ہیں، بڑی تعداد لاہور میں دیہاڑی داری کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبہ کے خلاف احتجاجی تحریک بھی منظم ہو رہی ہے، اس تحریک کو تقسیم کرنے کیلئے معلومات کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ فیکٹری مالکان اور دیہاتیوں کو کہاگیا ہے کہ ان کی تعمیرات نہیں گرائی جائینگی، لیکن ساتھ ہی مکانات اور تعمیرات پر نشانات لگانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تحریک کے رہنما مصطفی رشید سے ہماری ملاقات ہوئی ہے، انہوں نے بتایا ہے کہ لوگ عدالتوں کا رخ بھی کر رہے ہیں اور احتجاج کی تیاری بھی ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دھوکہ دہی سے کام لیا جا رہا ہے۔
آپ کے خیال میں تحریک انصاف کی حکومت اتنا بڑا منصوبہ تعمیر کرنے میں کامیاب ہو جائیگی؟
فاروق طارق: تحریک انصاف کی حکومت کا یہ اب تک کا سب سے بڑا اعلان کردہ منصوبہ ہے۔ میرے خیال میں یہ صرف بڑھک بازی کے ذریعے زمینیں ہتھیانے کا منصوبہ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت لاہور میں ایک انڈر پاس تو بنا نہیں سکتی یہ نیا شہر کیا بنائے گی۔ اڑھائی سال انہوں نے چور چور کر کے گزار دیئے، اب انہوں نے سوچا کہ کوئی اعلان کر لیتے ہیں، اس لئے یہ روزانہ منصوبوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ لاہور کیلئے یہ پانچ ہزار ارب روپے کے منصوبوں کا اعلان کر چکے ہیں۔ حقیقت میں انہوں نے اڑھائی سالوں میں پورے لاہور میں صرف ایک انڈر پاس تعمیر کیا ہے، اس انڈر پاس کی تعمیر کے دوران بھی انہوں نے کئی افسران کے تبادلے کئے اور بے شمار مسائل کا سامنا رہا۔ جو منصوبہ یہ بتا رہے ہیں وہ 1 لاکھ 2 ہزار کلومیٹر کے رقبہ پر تعمیر ہونا ہے۔ پورے لاہور کا رقبہ 1 لاکھ 20 ہزار کلومیٹر ہے۔ یہ لاہور جتنا نیا شہر بسانے کی بات کرتے ہیں جن سے ایک انڈر پاس نہیں تعمیر ہو سکتا۔ یہ صرف زمین ہتھیا کر لوگوں کو بے گھرکرینگے اورسرمایہ داروں کو کالا دھن سفید کرنے اور تعمیرات کیلئے انتہائی مہنگی زمین انتہائی سستے داموں حاصل کر کے دیں گے۔ پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ اصل میں سرمایہ داروں کی لوٹ مار کا ہی ایک طریقہ کار ہے۔
اتنی بڑی اراضی کے حصول کیلئے کتنا معاوضہ دیا جا رہا ہے اور لوگوں کے اہم مطالبات کیا ہیں؟
فاروق طارق: ابھی تک جو بات سامنے آئی ہے، حکومت نے لوگوں کو 2 لاکھ روپے فی ایکڑ معاوضہ ادا کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ ابھی معاوضے بڑھانے یا منصوبہ ختم کئے جانے جیسے مطالبات پر بحث جاری ہے۔ یہ علاقہ لاہور کے ساتھ ہے، لاہورمیں اس وقت 15 سے 20 لاکھ روپے فی مرلہ اراضی کے نرخ پہنچ چکے ہیں، اس علاقے میں بھی 4 سے 6 لاکھ روپے فی مرلہ تک اراضی کی قیمتیں موجود ہیں لیکن حکومت فی ایکڑ 2 لاکھ روپے دینے کا اعلان کر رہی ہے جو دوسرے لفظوں میں دیہاتیوں کی اراضی پر ایک نو آبادیاتی قانون کا سہارا لیکر آبائی زمینوں اور مکانات سے بے دخل کرنے کے مترادف ہے۔ ہم نے ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے کہا ہے کہ معاوضہ اگر زیادہ بھی مل جائے تب بھی اس سے انہیں نئی جگہ پر زمینیں اور مکانات نہیں مل سکیں گے، نہ ہی اس کے متبادل اراضی ملے گی، اس لئے اس منصوبے کے خاتمے کی جدوجہد ہی واحد راستہ ہے۔ ابھی تمام دیہاتوں کے لوگوں کے درمیان اس معاملے پر اتفاق نہیں ہوا۔ ہم نے پر امن سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنانے کا مشورہ دیا ہے۔ کچھ لوگ عدالت بھی گئے ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے این او سی تک حکم امتناعی جاری کیا ہے لیکن معاوضے وصول کرکے بہتر زندگی کی امید لگانا اور عدالتوں کے ذریعے انصاف حاصل کرنے کی امیدیں لگانا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بھی اسی طرح کے منصوبے کا اعلان کیا تھا، کیا یہ اسی کا تسلسل ہے؟
فاروق طارق: شہباز شریف نے ایک چھوٹے منصوبے کی تعمیر کیلئے اعلان کیا تھا، اس پر عمل نہیں ہو سکا لیکن وہ ’راوی ریور پارک‘کا منصوبہ تھا۔ یہ الگ منصوبہ ہے اور یہ بہت بڑا منصوبہ ہے، یہ پورے لاہور جتنا نیا شہر بسانے کا منصوبہ ہے۔
آپ نے کہا کہ لوگ عدالتوں میں گئے ہیں، عدالت سے کس نوعیت کی مدد مل سکتی ہے؟
فاروق طارق: ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے ہی بتایا ہے کہ بہت سے لوگ عدالت گئے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے وقتی حکم امتناعی بھی جاری کیا ہے۔ ہم متاثرین کو قانونی مدد بھی فراہم کرینگے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ عدالتوں کے ذریعے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ عدالتوں کا کام حکم امتناعی جاری کرنا، چند سال لوگوں کو عدالتوں کے چکر لگوانے کے بعد پھر منصوبے کی اجازت دینا ہی ہو گا۔ اورنج لائن پراجیکٹ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ لوگوں کے گھر گرانے ہوں، تجاوزات کے خلاف آپریشن ہو تو اس میں عدالتیں فوری آگے ہو جاتی ہیں، عام لوگوں کی جمع پونجی بچانے، مکانات کو بچانے کیلئے عدالتیں کوئی سہارا نہیں دیتیں۔ یہ آخری تجزیے میں حکمران طبقات کاہی ادارہ ہے اور حکمران طبقات کے حق میں ہی کام کرے گا۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے کے نقصانات سے لوگوں کو بچانے کیلئے عدالت کوئی راستہ نہیں ہے۔ عوامی مزاحمت ہی واحد راستہ ہے۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کس نوعیت کا احتجاج ممکن ہے، لوگ مزاحمت کیلئے تیار ہیں؟
فاروق طارق: ریور راوی پراجیکٹ کی ایکشن کمیٹی قائم کی جا چکی ہے۔ تمام دیہاتوں کے لوگوں کو منظم کیا جا رہا ہے۔ خواتین احتجاج کو منظم کرنے میں سب سے ہر اول کردار ادا کر رہی ہیں۔ لاہور میں ہم نے بھی ایک اجلاس منعقد کیا ہے، جس میں تمام کسان تحریکوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ میرے خیال میں لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، شدید غم و غصہ موجود ہے، اس منصوبے کو لیکر لوگ شدید صدمے کا شکار ہیں۔ لوگ جدوجہد کریں گے، جدوجہد کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔ نوجوان احتجاج کو منظم کرنے کیلئے بہت جاندار کردار ادا کر رہے ہیں۔ ابھی ’سی پیک‘ کی طرح اس منصوبے کو خفیہ رکھا جا رہا ہے، لیکن جب سے مکانات پر نشانات لگائے گئے ہیں لوگ خوفزدہ ہو گئے ہیں۔ نوجوان مزاحمتی گیت تیار کر رہے ہیں۔ بھارتی پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کی طرز پر مزاحمت پروان چڑھ رہی ہے۔ یہ پنجاب کی سب سے بڑی تحریک ہو گی۔ یہ لوگ جہاں زرخیز زمینوں کے ساتھ منسلک دیہاتی ہیں وہاں لاہور کے انتہائی قریب ہونے اور شہر میں دیہاڑی داری کرنے کی وجہ سے ان کا براہ راس تعلق شہر سے بھی ہے۔ اس لئے ان کو اس طرح سے ورغلا کر چپ نہیں کروایا جا سکے گا۔ اب کی بار لاہور اور پنجاب پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔ یہ تحریک اس حکومت کے خاتمے کا موجب بھی بن سکتی ہے۔
اس تحریک کی کامیابی کیلئے متاثرین کو کیا کرنا ہو گا؟
فاروق طارق: تحریک کی کامیابی پر امن عوامی مزاحمت پر ہی منحصر ہے، اس تحریک کو شہروں، کسانوں، ٹریڈ یونینوں تک پھیلانے کی ضرورت ہوگی، دیگر صوبوں اور حتی کہ عالمی سطح سے اس تحریک کو حمایت حاصل کرنا ہو گا۔ پر امن عوامی جدوجہد کو منظم کرتے ہوئے اگر اسے پھیلایا گیا تو پھر یہ تحریک صرف اس منصوبے کو ختم کروانے تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ اس سے بہت آگے تک بھی جا سکتی ہے۔
یہ منصوبہ بے ہنگم پھیلے شہروں کا مسئلہ حل کرنے کا پائلٹ پراجیکٹ قرار دیا جا رہا ہے، آپ کے خیال میں متبادل کیا ہے؟
فاروق طارق: ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت ’گرین انقلاب‘ اور اس طرح کے دیگر دعوے کرنے کے علاوہ سمارٹ سٹی بنانے کے بھی محض دعوے ہی کر رہی ہے، نہ ہی اس نظام میں اس طرح کے بڑے منصوبے بنانے کی اہلیت موجود ہے، نہ ہی یہ ریاست اور حکومت ایسی اہلیت و صلاحیت رکھتی ہے۔ اس منصوبے سے ماحولیاتی آلودگی مزید بڑھے گی، زرعی اراضی کو ختم کیا جائے گا، خوراک کی قلت پیدا کی جائے گی۔ پرائیویٹ سیکٹر پہلے ہی ناکام ہو چکا ہے اور لوگوں کو معیار سہولتیں نہیں دے سکتا۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو رہائش فراہم کرے، جدید طرز پر فلیٹس تعمیر کئے جائیں اور بے ہنگم پن کو منصوبہ بندی سے منظم کیا جائے۔ صنعتی انقلابات کے دوران یورپ کے شہروں کی منصوبہ بندی سے تعمیر کی گئی تھی۔ یہاں ایسا نہیں ہو سکا، منصوبہ بندی کے فقدان اور پرائیویٹ سیکٹر کے پاس تکنیکی صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے یہ بربادی ہوئی ہے۔ نئے منصوبے بھی اسی طرح پر شرو ع ہو رہے ہیں جس سے یہ بربادی کم نہیں ہو گی۔ پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے ذریعے سے زرعی اراضی کو برباد کیا گیا ہے اور لوگوں کو بے گھر کیا گیا ہے۔ موجودہ وقت میں شہروں کے مسائل سمیت تعلیم، صحت اور روزگار جیسے مسائل کے حل کا واحد راستہ تمام تر پیداواری ذرائع کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے محنت کشوں کی جمہوری شراکت داری کے ذریعے سے منصوبہ بندی کرنا ہی ہے۔ بھٹو دور میں جو نیشنلائزیشن ہوئی تھی میں اس کی بات نہیں کر رہا، وہ تو سرمایہ دارانہ بنیادوں پر تھی، ذرائع پیداوار کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے چلانا اور منصوبہ بندی کے ذریعے سے نہ صرف نئے شہروں کو بسانا، تعلیم، علاج، روزگار اور مفت رہائش جیسی سہولیات اس خطے کے محنت کشوں کو فراہم کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ رہائش، ماحولیاتی آلودگی، پینے کے صاف پانی سمیت کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔