دنیا

سیٹھی صاحب! باقی افغانوں کے پاس بھی وقت ہے گھڑیاں نہیں

فاروق سلہریا

معروف تجزیہ کار نجم سیٹھی پچھلے چند ہفتے سے باقی پاکستانی میڈیا ماہرین کی طرح یہ تاثر دے رہے ہیں کہ کابل پر طالبان اپنا جھنڈا لہرانے ہی والے ہیں۔

وہ گذشتہ چند ہفتوں میں بار بار ملا عمر کا یہ ’فرمان‘ اپنے کالموں اور ’نیا دور میڈیا‘ پر اپنے انٹرویوز میں دہراچکے ہیں کہ ’امریکیوں کے پاس گھڑیاں ہیں،ہمارے پاس وقت۔‘

معلوم نہیں ملا عمر نے ایسی ادبی بات کبھی کی یا نہیں بہرحال امریکیوں کے حوالے سے یہ تجزیہ درست تھا اور ہے۔ کلونیل قبضوں کا دور گزر چکا۔

پاکستانی بائیں بازو کا مسلسل یہ موقف رہا کہ افغانستان سے امریکی واپسی تک افغانستان میں امن کی راہ ہموار نہیں ہو گی۔

یہ بات طے ہے کہ امریکی جب بھی واپس جاتے، طالبان نے اسے اپنی فتح بنا کر پیش کرنا تھا۔ اس کے علاوہ امریکی واپسی سے یقینی طور پر مذہبی جنونی قوتوں کو اس طرح کا پراپیگنڈہ کرنے کا موقع ضرور ملے گا جس طرح سوویت روس کی واپسی پر فتح مندی کے نعرے لگائے گئے تھے۔

اس کا لیکن یہ مطلب نہیں کہ ادہر امریکہ رخصت ہوا، ادہر کابل پر طالبان کا قبضہ ہو جائے گا۔ یقینا خون خرابہ بڑھ جائے گا۔ ایک خانہ جنگی والی صورت حال جنم لے گی۔تشدد بڑھ جائے گا…لیکن خود کش حملے کرنا ایک بات ہے، شہروں اور پورے ملک پر قبضہ کرنا دوسری بات۔

خانہ جنگی کی شکل میں افغانستان عملاً تقسیم ہو جائے گا۔ کچھ صوبوں میں طالبان جنگی سالار بن جائیں گے۔ طالبان میں پہلے کئی دھڑے ہیں۔ مزید بنیں گے کیونکہ خانہ جنگی کے ساتھ سمگلنگ اور بھتے کا کاروبار بھی جڑا ہے۔ طالبان کی صفوں میں افغانستان کے سب سے بڑے سمگلر ہمیشہ شامل رہے ہیں۔

باقی صوبوں میں، عمومی طور پر، پرانے جنگی سالار پھر سے طاقتور ہو جائیں گے۔ نام نہاد عالمی برادری (یعنی امریکہ) کابل پر اشرف غنی کی شکل میں ایک انتظامیہ کو برقرا ر رکھنے کی کوشش کرے گا۔ ان جنگی سالاروں نے بھی گھڑیاں نہیں پہنی ہوں گی۔ افغان عوام کے پاس بھی گھڑیاں نہیں ہیں۔ انہیں وہیں رہنا ہے۔

دریں اثنا، اگر ترک فوج کو کابل میں تعینات کیا گیا تو کیا طالبان ان پر حملے کریں گے؟ اگر کئے تو انقرہ اور اسلام آباد کے تعلقات کا کیا بنے گا؟ امید ہے سیٹھی صاحب اپنے آئندہ کالم میں اس پر روشنی ڈالیں گے۔

خانہ جنگی کتنی طویل ہو گی، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، ابھی سے کچھ کہنا ممکن نہیں۔

نجم سیٹھی اور پاکستان کے دیگر دانشور حضرات کو اسلام آباد کا بیانیہ مقبول بنانے کی بجائے افغانستان میں پاکستان کی خوفناک اور خطرناک مداخلت کی مخالفت کرنی چاہئے۔ افغانستان اور پاکستان کے محنت کش عوام کا بھلا اسی میں ہے کہ طالبان، تذویراتی گہرائی اور بڑھک بازی کی بجائے عدم مداخلت کی پالیسی کا مطالبہ کیا جائے۔

اگر افغانستان میں آگ لگی رہے گی تو پاکستان مین دھواں اٹھتا رہے گا۔ چالیس سال سے جاری اس خون خرابے کی قیمت لاکھوں جانوں کی شکل میں ادا کی جا چکی ہے۔ اب حمید گل کے خوابوں کے پیچھے دوڑنے کی بجائے بہتر ہو گا کہ افغانستان کی اگر مدد نہیں کی جا سکتی تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ اگر افغانستان کو امریکہ فتح نہیں کر سکا تو اسلام آباد کے پراکسی طالبان بھی نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی انڈیا اپنے چار قونصل خانوں کی مدد سے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان پر قبضہ کر لے گا۔

تجزیہ کار بھی ہوش کے ناخن لیں اور حکمران بھی۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔