تاریخ

مسئلہ فلسطین کی ابتدا: کیا اس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟

ساجد نعیم

 ہمیں یہ حقائق تسلیم کرنے ہوں گے کہ تمام انسان برابر پیدا نہیں کیے گئے ہیں۔ سفید فام اور سیاہ فام پیدائشی طور پر مشترکہ صلاحیتوں کے حامل نہیں ہیں، بلکہ ان کی صلاحیتیں ان کے رنگ کی بنیاد پر پیدائش سے ہی مختلف ہیں جن کو تعلیم کی بنیاد پر نہ تو تو تبدیل کیا جا سکتا ہے اور نہ یہ تبدیل ہوں گی۔  (آرتھر بالفور)

مندرجہ بالا الفاظ لارڈ آرتھر بالفور نے 1906 میں برطانوی پارلیمانی بحث کے دوران کہے تھے۔ لارڈ آرتھر بالفور ہی وہ شخص تھا،جو 1917 میں  بالفور اعلامی کا معمار ٹھہرا اور یہی اعلامیہ در حقیقت فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی ریاست کی بنیاد بنا۔ نسل پرستی سے متعلقہ لارڈ آرتھر کے مندرجہ بالا الفاظ فلسطین کے حوالے سے نہیں بلکہ سیاہ فام افریقیوں کے خلاف کہے گئے تھے۔ لیکن یہ ہمیں مجموعی طور پر سامراجی ذہنیت اور نفسیات جبکہ انفرادی طور پر ایک ایسے شخص کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں،جو مشرق وسطی کے قلب میں ایک درد ناک زخم پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اکتوبر 2023 سے پوری دنیا، جدید دور کی تاریخ کے سب سے خوفناک اور وحشیانہ قتل عام کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ لہٰذا اس نفسیاتی ذہنیت کی گہرائیوں میں جھانکنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو دنیا کے نقشے پر اس جہنمی منظر کو پیدا کرنے میں لگی تھی۔

 بالفور اعلامیہ کوئی رسمی اعلامیہ نہیں تھا،جیسا کہ بالعموم کسی اعلامیے کو سمجھا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ آرتھر بالفور کی طرف سے اینگلو یہودی کمیونٹی کے ایک رہنما لارڈ روتھس چائلڈکو لکھا گیا خط تھا۔ اعلامیہ کا متن یوں ہے:

 برطانوی حکومت فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کو مثبت نظر سے دیکھتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری کوشش کرے گی۔ تاہم یہ واضح رہے کہ فلسطین کی موجودہ آبادی کے سول اور مذہبی حقوق کیخلاف کوئی اقدام نہیں ہو گا اور نہ ہی کسی اور ملک میں یہودیوں کے حقوق اور سیاسی سٹیٹس متاثر ہو گا۔ 

اگرچہ اسرائیلی ریاست تقریباً 31 سال بعد 1948 میں تشکیل پائی تھی، لیکن اس اعلامیے نے مستقبل کی ریاست کی بنیاد کے طور پر کام کیا۔ یہودیوں کی فلسطین کی طرف ہجرت، فلسطین میں ان کی زمینوں کی خریداری اور حتیٰ کہ خود صہونیت کا جنم بھی اس اعلامیہ سے پہلے کے مظاہر تھے۔ 1914 تک یہودی فلسطین میں ایک لاکھ30ہزار ایکڑ زمین خرید چکے تھے۔ بڑے پیمانے پر ہجرت 19ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے آغاز میں ہوئی۔ صیہونیت کی ابتدا ء 1881ء میں زار الیگزینڈر دوم کے قتل کے بعد روس میں اس وقت ہوئی،جب ان کے جانشین زار الیگزینڈرسوم نے ان پر اپنے والد کے قتل کا الزام عائد کرنے کے بعد یہودیوں کو بے دردی سے قتل کروانا شروع کیا۔۔ پہلی صیہونی کانگریس 1897 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں منعقد ہوئی۔ درحقیقت 1913 سے 1917 تک صیہونی راہنماؤں کی طرف سے برطانوی سامراج کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کی گئیں اور یہ اعلامیہ انہی کوششوں کا ثمر تھا۔ اعلامیہ کے الفاظ تقریباً وہی ہیں جو صہیونی راہنماؤں نے لارڈ روتھس چائلڈ کے ذریعے برطانوی جنگی کابینہ کے سامنے پیش کیے تھے۔ کیا یہ اعلان برطانیہ کی یہودیوں سے ہمدردی کا نتیجہ تھا؟ بالکل نہیں۔

یہودیوں کے بارے میں بالفور کے خیالات اس سے قطعی مختلف نہیں تھے،جو وہ سیاہ فام افریقیوں کے بارے میں رکھتا تھا۔ درحقیقت وہ ایک سفید فام نسلی تفاخر پسند شخص تھا اور اسے یہودیوں سے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔1905 میں بالفور کے دور حکومت میں ہی ایلین ایکٹ پاس کیا گیا تھا۔ یہ ایکٹ اپنی نوعیت کا پہلا ایکٹ تھا،جس نے برطانیہ میں ہجرت پر پابندیاں عائد کیں تھیں۔ اس ایکٹ کا بنیادی مقصد روس میں قتل عام سے فرار ہونے والے یہودیوں کو برطانیہ ہجرت کرنے سے روکنا تھا۔ 1919 ء میں بالفور نے ایک کتاب‘‘صیہونیت کی تاریخ’’ کا تعارف لکھا، جس میں اس نے زور دے کر کہا کہ صیہونیت‘‘مغربی تہذیب کے ان قدیمی مصائب و آلام کو کم کرے گی، جو اس کے درمیان موجود ایک ایسے گروہ کی وجہ سے پیدا ہوئے، جسے مدتوں سے ناصرف اجنبی بلکہ دشمن بھی خیال کیا جاتا رہا ، اور جسے یہ تہذیب اپنے اندر سمونے میں مکمل طور پر ناکام رہی ۔’’ان الفاظ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک سفید فام بالادست تھا بلکہ وہ یہود مخالف بھی تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس یہود مخالف شخص کو پوری صہیونی تحریک میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور یہ آج بھی یہودیوں کے غیر متنازعہ ہیرو کے طور پر پہچان رکھتا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ 2017 میں تھریسامے اور نیتن یاہو نے بالفور اعلامیہ کا صد سالہ جشن مشترکہ طور پر منایا۔

یہودیوں کے لیے الگ وطن کا قیام بالفور اور برطانوی سامراج کی وہ پالیسی تھی،جس سے اس نے ایک تیر سے دو شکار کرنے تھے۔ اول تو اس پالیسی نے یہودیوں کے پیچیدہ اور نا قابل حل مسئلے کو اپنے گھر یعنی برطانیہ اور گردونواح سے کہیں دور سرزمین پر دھکیلنے کا موقع فراہم کیا۔ دوسرا، سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ برطانوی سامراج کا انتہائی اہم ایجنڈہ تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے برطانوی سامراج نے عرب قوم پرستی کو فروغ دینا شروع کیا تھا۔ عرب قوم پرستی کے ممکنہ طور پر کنٹرول سے باہر نہ ہونے کے لیے برطانوی سامراج کو مستقبل میں ایک تھانیدارکی ضرورت تھی۔ ایک انتہائی معاندانہ ماحول میں گھرے ہوئے یہودیوں کے وطن کو اپنی بقا ء کے لیے برطانوی سامراج یا اس کے بعد ابھرنے والی سامراجی قوتوں کا دست نگر ہونا ہی تھا اور ساتھ ہی ساتھ اس نے ایک واچ ڈاگ کی طرح دیرپا نگرانی کا کام بھی کرنا تھا۔

جہاں تک فلسطینیوں کے بارے میں بالفور کے خیالات کا تعلق ہے، بالفور نے 1919 میں کہا تھا کہ صیہونی خواہشات‘‘ان 7لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہیں جو اس سرزمین پر آباد ہیں۔’’ بالفور یہودیوں کے حق خود ارادیت کی وکالت کرتے ہوئے عام طور پر فلسطینیوں، یہاں تک کہ فلسطینی یہودیوں کے اسی حق کو پامال کر رہا تھا، اور وہ اس منافقت کو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ تسلیم کرنے کے لیے تیار تھا: ‘‘ہمارے موقف کی کمزوری یہ ہے کہ فلسطین کے معاملے میں ہم بجا طور پر اور جان بوجھ کر حق خود ارادیت کے اصول کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔’’ تو یہاں یہ ایک سامراجی نسخہ تھا کہ ایک زیادہ کم ترنسل کے لوگوں (فلسطینیوں) کو خود ارادیت کے اصول کے نام پر کم نسل کے دوسرے لوگوں (یہودیوں) کے ذریعے کنٹرول کیا جائے۔

اعلان بالفور نے پہلی عالمی جنگ کے بعد براہ راست برطانوی حکمرانی کی راہ ہموار کی۔ 11 ستمبر 1922 کو برطانیہ نے فلسطین کو ایک ‘مینڈیٹڈ ٹیرٹری’ قرار دیا اور یہ سلسلہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک جاری رہا جس نے اسرائیلی ریاست کی تخلیق کی بنیاد رکھی۔

اسرائیلی حکمرانوں کی ذہنیت پر آگے بڑھنے سے پہلے چلئے ہم دیکھتے ہیں ونسٹن چرچل(سابق برطانوی وزیراعظم) فلسطینیوں کے بارے میں کیا کہتا تھا۔ 1937 میں اس نے کہا،‘‘میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ چراگاہ میں موجود کتے کو چرا گاہ کا حتمی حق حاصل ہو جاتا ہے، اگرچہ وہ وہاں کافی دیر سے ہی کیوں نہ پڑا رہا ہو۔ میں اس حق کو تسلیم نہیں کرتا۔ میں مثال کے طور پر یہ تسلیم نہیں کرتا کہ امریکہ کے ریڈ انڈین یا آسٹریلیا کے سیاہ فاموں کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوا ہے۔ میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ ان لوگوں کے ساتھ اس حوالے سے کوئی زیادتی ہوئی ہے کہ ایک مضبوط نسل، ایک اعلیٰ درجے کی نسل، ایک زیادہ دانشمندانہ نسل نے آکر ان کی جگہ پر قبضہ کیا ہے۔’’ یہ الفاظ اس وقت کے سامراجیوں کی سراسر بے شرم نسل پرستی کی وضاحت کے لیے مزید تفصیلات کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے اور یہی غیر انسانی،انتہا پسندانہ نسل پرستی صہیونی اسرائیلی ریاست کی تاریخ کے ہر صفحے پر چھائی ہوئی ہے۔

1947 میں اقوام متحدہ نے، جسے لینن نے بجا طور پر‘چوروں کا باورچی خانہ’کہا تھا، فلسطین کو باضابطہ طور پر تقسیم کر دیا اور صیہونیوں کو 55 فیصد زمین الاٹ کر دی۔ ایک سال کے عرصے میں انہوں نے 76 فیصد زمین پر قبضہ کر لیا۔ مئی 1948 میں اسرائیلی ریاست کا اعلان کیا گیا اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے نئے سامراجی آقا امریکہ نے اسے تسلیم کر لیا۔ تب سے یہ سرزمین فلسطینوں کے لوگوں کے لیے انسانی مصائب کی ایک بھیانک داستان ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو فلسطینی وہ لوگ ہیں جن کے پاس کوئی زمین نہیں ہے۔ یہودی اگرچہ برطانوی نقطہ نظر سے کم نسل کے لوگ ہو سکتے ہیں،لیکن فلسطینی نقطہ نظر سے وہ بالادست(Supremacists) ہیں۔ ایک اسرائیلی وزیر اعظم نے ایک بار کہا تھا کہ ‘‘فلسطینیوں کا کوئی وجود ہی نہیں’’۔ ایک اور نے انہیں ‘‘دو ٹانگوں والے جانور’’کہا۔ وزیر اعظم یتزاک شامیر نے انہیں ‘‘ٹڈیاں’’ قرار دیا۔ اور اب ہمارے پاس ایک اسرائیلی وزیر اعظم ہے،جو اپنے تمام نسلی تفاخر پسند پیشروؤں کی ایک مجسم شکل ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ بالادست نسلی تفاخر پرستی اور پاگل پن کا مشترکہ مظہر ہے، اگرچہ اس پاگل پن کا اپنا مخصوص طریقہ واردات ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں حماس کے اچانک حیرت انگیز حملے کے بعد پورے فلسطینی علاقے نہیں بلکہ صرف غزہ مسلسل اسرائیلی بمباری اور انسانی المیے کا نشانہ بنا ہے،کیونکہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں 2007 سے حماس کا قبضہ ہے۔ غزہ، بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر ایک تنگ ساحلی پٹی ہے۔ مشرق سے شمال تک یہ اسرائیل سے گھرا ہوا ہے۔ جنوب مشرقی جانب اس کی سرحد مصر سے ملتی ہے،لیکن یہ سرحد جنگ کے آغاز سے ہی سختی سے بند ہے۔ غزہ کا کل رقبہ 365 کلومیٹر ہے،اورآبادی 20 لاکھ سے زیادہ ہے۔ آبادی کی کثافت 5500 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ یہ تصور کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ کیا ہوتا ہو گا جب اتنی گنجان آبادی والے علاقے میں Mk84 امریکی بموں سے اندھا دھند بمباری کی جاتی ہے، جو نہ صرف ایک کثیر المنزلہ عمارت کو زمین بوس کر دیتے ہیں بلکہ 10 میٹر گہرا گڑھا بھی بنا سکتے ہیں۔ 34ہزار اموات کے اعداد و شمار اگرچہ المناک اور ہولناک ہیں، لیکن یہ اعدادوشمار ناقابل بیان انسانی مصائب کی پوری کہانی بیان نہیں کرتے۔ 75ہزار کے قریب زخمیوں کو طبی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ لوگوں کو بغیر انستھیزیا(بے ہوش کرنے والی دوائی) کے آپریشن کروانے پڑتے ہیں۔ غزا کے 36 ہسپتالوں میں سے صرف 10 جزوی طور پر کام کر رہے ہیں،جبکہ باقی ہسپتال بھوت بنگلے بن چکے ہیں، جہاں صرف موت ہی رقصاں نظر آتی ہے۔ سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق زیر حراست افراد کے لیے ہتھکڑیوں کے زخموں کی وجہ سے جسم کے حصوں کا کٹنا معمول بن گیا ہے۔ معصوم عوام پر بے رحمانہ ظلم اور ہلاکتیں مسلط کرتے ہوئے انسانی ذہن کی کمزوری کے امکان کو مد نظر رکھتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور اس کے ساتھیوں نے لیونڈر نامی اے آئی(مصنوعی ذہانت) پروگرام کو اہداف کا انتخاب کرنے اور حملے کرنے کا کام سونپا ہے۔ یوں ایک بڑے پیمانے پر موت اور تباہی جاری ہے۔ نسلی تفاخر پرستوں نے ماضی میں تو پسماندہ آبادی کے ایک حصے پر ایمرجنسی اور کرفیو کا نفاذ کیا ہوگا، لیکن اب ہمارے پاس ایک نیا رجحان ہے۔ شاید انسانی تاریخ میں پہلی بار غزہ کے باشندے انسانوں کے مسلط کردہ قحط کو بھگتنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ان کے پاس کہیں جانے کی کوئی بھی جگہ نہیں ہے۔ وہ صرف سمندر میں جاسکتے ہیں اور بحیرہ روم کی مچھلیوں کی خوراک بن سکتے ہیں۔ وہ مدد کے لیے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہوں گے، لیکن آسمان سے ان کو قتل کرنے کے لیے صرف بم برستے ہیں۔

موت اور تباہی کے رجعت پرستی کی اس دیو ہیکل لہر کو بالآخر کم ہونا ہے۔ شاید یہ اس سے زیادہ وقت لے جتنا کوئی اس بارے میں توقع کر رہا ہو۔ لیکن کوئی بھی جنگ غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رہ سکتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسانی مصائب اور خونریزی کی اس دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟ اگر ہم سرمایہ دارانہ/ سامراجی نظام کی حدود میں مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں تو جواب نفی میں ہوگا۔ سامراج زیادہ سے زیادہ جو وعدہ کر سکتا ہے، اور صرف دو ریاستی حل کا وعدہ ہوسکتاہے۔ اوسلو معاہدہ ایسی کسی بھی کوشش کی ناکامی کی تلخ یاد دہانی ہے۔ اگر یہ معاہدہ یاسر عرفات جیسے لیڈروں کی قیادت میں فلسطینیوں کی محدود سیلف گورنمنٹ کو فروغ دینے میں ناکام رہا تو ان علاقوں میں ایک قابل عمل فلسطینی ریاست کیسے پنپ سکتی ہے؟ یہ ریاست فلسطینی عوام کے مفاد میں آزادی سے کیسے کام کرے گی،جب کہ ایک طرف اس کے دو جزو غزہ کی پٹی اور مغربی کنارہ اسرائیلی ریاست کے بڑے حصے میں بٹے ہوئے ہیں اور دوسری طرف ایسی کوئی بھی ریاست، اسرائیل، مصر اور اردن کی رجعت پسند ریاستوں کی طرف سے گھیرے میں آ جائے گی۔ فلسطینیوں کو کیا حقوق ملیں گے،جب ان کی ریاست کا پانی اور بجلی پر بھی کنٹرول نہیں ہوگا؟

کیا ایران یا کوئی اور علاقائی طاقت اسرائیل کو مکمل طور پر ختم کر کے فلسطینی عوام کو بچانے کے لیے آ سکتی ہے؟ جواب ایک بار پھر مکمل نفی ہے۔ یہ کئی بار مشق شدہ اور آزمائے گئے فارمولے ہیں،جو مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہے ہیں۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حتیٰ کہ حالیہ ایرانی حملے نے صہیونی ریاست کو مزید تقویت بخشی ہے۔ اس طرح کے کسی بھی حملے کا مطلب اسرائیل کے ارد گرد سامراجی طاقتوں کی اکثریت کو اس کی حمایت کے لیے اکٹھا کرنا ہے۔ وہ تمام سامراجی،جو جنگ کے خلاف اپنے ہی ملک کی سڑکوں پر بے مثال مظاہروں کی وجہ سے دفاعی انداز میں تھے، اب ایرانی حملے کے بعد حوصلہ افزائی محسوس کر رہے ہیں۔ بائیڈن نے امریکی کانگریس پر زور دیا ہے کہ وہ 14 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ مالیت کے بل کو فوری طور پر منظور کرے اور اسرائیل کی امداد کرے۔ ایک اسرائیلی اخبار ‘ہاریٹز’کے مطابق بائیڈن نے ایرانی حملے کے بعد کسی بھی معنی خیز انداز میں جوابی کارروائی نہ کرنے کے لیے رفاح آپریشن کے لیے رضامندی دی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ایرانی حملہ انتہائی حساب سے کیا گیا تھا اور شاید بیک ڈور ڈپلومیٹک ذرائع سے منظم کیا گیا تھا تاکہ پوری طرح سے جنگ کو ہوا نہ دی جائے۔ بائیڈن ماضی میں رفاح آپریشن کی اسرائیلی پالیسی پر تنقید کرتا رہا ہے۔ اب ایرانی حملے نے اسرائیل کو مزید فلسطینیوں کو مارنے کا لائسنس جاری کر دیا ہے۔ لہٰذا حملے کا مطلب دراصل فلسطینیوں کے لیے مزید تکالیف اور تباہی ہے۔

آگے بڑھنے کا واحد راستہ طبقاتی جدوجہد ہے۔ پہلے پہل تو یہ بہت دور اور آگے کا ایک یوٹوپیائی خواب لگے گا، لیکن باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ سرمایہ دارانہ رجعت پرستی کی سیاہ رات میں چمکتے دمکتے ستارے کی مانند ہے۔ اسی جنگ کے دوران اس مظہر کی شاندار مثالیں موجود ہیں۔ اگر طبقاتی جدوجہد ایک یوٹوپیا ہے، تو امریکہ میں یہودیوں کی تحریک‘‘ناٹ اِن آور نیم’’ کو کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا کے محنت کشوں کی‘سٹاپ دی بوٹ’ کی دلیرانہ تحریک کے بارے میں کیا خیال ہے؟ واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے ایک نوجوان امریکی ایئر مین ایرون بشنیل کی خودکشی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جس نے اپنے آخری الفاظ کہے: ‘فلسطین کو آزاد کرو’۔ ہم اس اسرائیلی نوجوان کے جذبے کو کیا نام دیں، جس کے یہ الفاظ الجزیرہ نے شائع کئے تھے کہ ‘‘اسرائیل میں ان دنوں خودکشی کرنے کا سب سے آسان طریقہ فلسطینی پرچم کے ساتھ باہر نکلنا ہے۔ لیکن ہم باہر آتے ہیں کیونکہ آج اس کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔’’ یہ تحریکیں اور آوازیں طبقاتی جدوجہد کا واضح مظہر ہیں۔ یہ وہ واحد نشانیاں ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانیت ابھی مری نہیں ہے۔ یہ فی الوقت بے ہنگم اور بے ربط ہو سکتی ہیں لیکن انہیں صرف اس وحشیانہ اور جابرانہ سرمایہ دارانہ عالمی نظام کو بدلنے کے لیے متبادل سیاسی اور معاشی پروگرام کے حامل انقلابی نظریات سے لیس ہونے کی ضرورت ہے۔

دنیا کے دیگر حصوں کی طرح فلسطین اور اسرائیل میں طبقاتی کشمکش کا آغاز ان لوگوں سے کرنا ہے جو نسلی تفاخر پرستی کے تمام زاویوں اور رنگوں کے عقائد کے برعکس یہ پختہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام انسان برابر پیدا ہوئے ہیں۔ وہ نہ صرف مساوی طور پر پیدا ہوئے ہیں، بلکہ انہیں نسل، رنگ یا عقیدہ سے قطع نظر زندگی گزارنے کا بالکل مساوی حق ہے۔ فلسطینیوں کو آگے بڑھنے کے لیے حماس جیسی جماعتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس طرح کی سیاہ رجعتی طاقتوں کی پیدائش، پرورش، احتیاط سے دیکھ بھال اور مالی امداد خود سامراجیوں نے سرد جنگ کے دوران بائیں بازو کی تحریکوں کے خطرے سے بچنے کے لیے کی تھی۔ پولیٹیکل اسلام 1950 کی دہائی کے دوران امریکی وزیر خارجہ جان فوسٹر ڈیلس کے دماغ کی اختراع تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ان قوتوں نے دنیا بھر میں صرف نام نہاد ‘تہذیبوں کے تصادم’کو جواز فراہم کیا ہے، جوایک سامراجی نظریہ ہے، جس نے سامراج کو پوری دنیا کی تباہی کے لیے ایک بہانہ فراہم کیا۔ یہ اپنی نوعیت کے نسلی تفاخر پرست ہیں۔ اگر ان کے مظالم اور بے حسی صہیونی معیار سے کم ہے،تو یہ صرف ان کی کم صلاحیت کی وجہ سے ہے،نہ کہ اس وجہ سے کہ ان میں ایسا کرنے کی نیت یا خواہش کا فقدان ہے۔ عام فلسطینی بھی ان کے لیے محض قربانی کا بکرا ہیں۔ ہاریٹز کے آیلیٹ شانی کے مطابق ’’میں نے سنوار(اسرائیلی حملے سے پہلے غزہ کے حکمران یحییٰ السنوار) سے پوچھاکہ ‘اگر اس جنگ میں غزہ کے 10ہزار نفوس مارے جاتے ہیں تو کیا یہ اس کی مناسب قیمت ہو گی؟’’ تو اس نے کہاکہ‘ ‘ایک لاکھ اموات بھی گھاٹے کا سودا نہیں۔‘‘

مزید سب سے زیادہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ فلسطین کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے،جیسا کہ اسے عام طور پر بنا کر پیش کیاجاتا ہے۔ موجودہ قتل عام کا واحد ممکنہ موازنہ 1970 کے ‘بلیک ستمبر’میں فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام ہے۔ اس قتل عام کو ان کے ہم مذہب اردن کے شاہ حسین نے انجام دیا تھا۔ اس آپریشن کی سربراہی کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ محمد ضیاء الحق تھا، جو اس وقت ایک بریگیڈیئر تھا اور بعد میں پاکستان کی مسلح افواج کا سربراہ اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر رہا۔ کتنے فلسطینی مارے گئے، یہ یقینی طور پر معلوم نہیں ہے۔ اعداد و شمار دو ہزار سے25ہزار کے درمیان ہیں۔ آپریشن کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع نے طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ ‘‘اردن کے شاہ حسین نے 11 دنوں میں اس سے زیادہ فلسطینیوں کو مارا ہے،جتنا کہ اسرائیل 20 سالوں میں مار سکا ہے۔  آخری تجزیہ میں فلسطین کا سوال طبقاتی سوال ہے۔ یہ مظلوم بمقابلہ ظالم کا سوال ہے۔ یہ اسلام بمقابلہ یہودیت کا سوال نہیں ہے۔

اسرائیلی محنت کش طبقہ اتنا ہی مظلوم ہے جتنا کسی دوسرے ملک میں ہے۔ عام طور پر غربت 14 فیصد بتائی جاتی ہے،جو ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ ان آرتھوڈاکس یہودیوں میں یہ شرح 39 فیصد ہے۔ کرپشن عروج پر ہے۔ ہر قسم کے اختلاف کو بے دردی سے کچل دیا جاتا ہے۔ بے یقینی اور موت کا خوف ہر عام اسرائیلی کو اپنا شکار بنا رہا ہے۔ حماس کے حالیہ حملے کے بعد آئرن ڈوم(اسرائیل کا دفاعی نظام) کا افسانہ بکھر گیا ہے۔ موجودہ جنگ عام اسرائیلیوں کے مصائب میں مزید اضافہ کرے گی۔یہ وہی ہیں جنہوں نے اس جنگ کی قیمت برداشت کرنی ہے۔

دو ریاستی حل ایک افسانہ ہے۔ یا تو فلسطینیوں اور یہودیوں کو باہمی بقائے باہمی کے نئے عمرانی معاہدے کی بنیاد پر ایک متحدہ فلسطین میں اکٹھے رہنا پڑے گا یا پھر موجودہ اور آنے والی نسلیں قتل و غارت، موت، تباہی اور بربادی کے اسی انجام سے دوچار رہیں گی،جس کا شکار وہ پچھلے 76 سالوں سے ہیں۔ فلسطینیوں کے نقطہ نظر سے صرف اسرائیلی محنت کش طبقہ اور عام عوام ہی ان پر ہونے والے دہائیوں پرانے مصائب کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ صرف سوشلسٹ تبدیلی ہی اس شورش زدہ ملک میں امن کی ضمانت دے سکتی ہے۔ جب تک سرمایہ داری قائم رہے گی،تب تک اس کی ہولناکیاں جاری رہیں گی،کیونکہ عظیم انقلابی لینن کے الفاظ میں، سرمایہ داری ایک ‘‘وحشت ہے جس کا کوئی انت نہیں۔ 

Roznama Jeddojehad
+ posts