لاہور (جدوجہد رپورٹ) افغان نیوز نیٹ ورک طلوع نیوز کی خاتون اینکر پرسن ’بہشتا ارغند‘ ملک سے فرار ہو گئی ہیں۔ بہشتا نے رواں ماہ کے وسط میں طالبان کے ایک سینئر نمائندے کا انٹرویو کیا تھا، وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے کسی طالبان نمائندے کا انٹرویو کیا، یہی وجہ تھی کہ یہ انٹرویو دنیا بھر میں شہ سرخیوں کا حصہ بنا تھا۔
بہشتا نے طالبان نمائندے کے انٹرویو کے دو دن بعد ملالہ یوسف زئی کا انٹرویو کیا جو طالبان کے قاتلانہ حملے میں بچ گئی تھیں، طلوع نیوز نے پہلی مرتبہ ملالہ کا یہ انٹرویو لیا تھا۔
بہشتا نے بھی دیگر بہت سے صحافیوں کی طرح خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
سی این این سے بات کرتے ہوئے بہشتا کا کہنا تھا کہ ”میں نے ملک چھوڑ دیا کیونکہ لاکھوں لوگوں کی طرح میں بھی طالبان سے ڈرتی ہوں۔“
طلوع نیوز کے مالک سعد محسنی نے بھی بہشتا کے معاملہ کو افغانستان کی صورتحال کی علامت قرار دیا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ”ہمارے تقریباً تمام معروف صحافی چلے گئے ہیں، ہم ان کی جگہ نئے لوگوں کے ساتھ پاگلوں کی طرح کام کر رہے ہیں۔“
بہشتا کی عمر 24سال ہے، انہوں نے کابل یونیورسٹی سے 4 سال صحافت کی تعلیم حاصل کی، کئی نیوز ایجنسیوں اور ریڈیو اسٹیشنوں میں کام کیا، رواں سال کے آغاز میں ہی انہوں نے طلوع نیوز کے ساتھ بطور اینکر پرسن وابستگی اختیار کی۔
انکا کہنا تھا کہ ”میں نے وہاں ایک مہینہ اور 20 دن کام کیا، پھر طالبان آ گئے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”طالبان رہنما کا انٹرویو مشکل تھا لیکن میں نے یہ افغان خواتین کیلئے کیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ ہم میں سے کسی ایک کو شروع کرنا چاہیے، اگر ہم اپنے گھروں میں رہیں یا اپنے دفاتر نہ جائیں تو وہ کہیں گے کہ خواتین کام نہیں کرنا چاہتیں، لیکن میں نے اپنے آپ سے کہا شروع کرتے ہیں پھر دیکھا جائیگا۔“
انکا کہنا تھا کہ ”میں نے طالبان کے رکن سے کہا کہ ہم اپنے حقوق چاہتے ہیں، ہم کام کرنا چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں معاشرے میں ہونا چاہیے، یہ ہمارا حق ہے۔“
انہوں نے کہا کہ ”ہرگزرتے دن کے ساتھ طالبان کے نئے اکاؤنٹس نیوز میڈیا کو دھمکیوں کا نشانہ بنا رہے تھے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”میں واپس آنے کی امید رکھتی ہوں، اگر طالبان وہ کریں جو انہوں نے کہا تھا، جو انہوں نے وعدہ کیا تھا اور حالات بہتر ہو گئے، مجھے یقین ہو کہ میں محفوظ ہوں اور میرے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے تو میں اپنے ملک واپس جاؤنگی، اپنے ملک اور اپنے لوگوں کیلئے کام کروں گی۔“