فاروق سلہریا
اکیس جولائی کو امریکہ میں عمران خان نے ہزاروں تارکین وطن سے خطاب کیا۔ سرکاری پراپیگنڈہ کرنے والے اسے ایک تاریخی واقعہ قرار دے رہے ہیں۔ مخالفین تارکین وطن کی منافقت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ میمز بنائی جا رہی ہیں۔ پوچھا جا رہا ہے کہ وہ جھیل والاڈاکٹر جلسے میں آیا تھا یا نہیں۔ ایک فیس بُک دوست نے لکھا: ”اکثر یوتھیوں کے مطابق واشنگٹن ڈی سی کا جلسہ اتنا بڑا تھا کہ اب اگر ٹرمپ نے خان جی سے سیاسی اتحاد نہ کیا تو الیکشن ہار جائے گا۔“ ایک اور دوست نے لکھا: دل دل پاکستان گانے والوں کو معلوم ہے کہ یہ دلدل پاکستان ہے ورنہ وہ امریکا میں نہ رہ رہے ہوتے۔
(اس مضمون میں تارکین وطن سے مراد مغربی ممالک میں مقیم پاکستانی ہیں۔ خلیجی ممالک یا دیگر ممالک میں محنت کرنے والے اور زبردست استحصال کا شکار تارکین وطن نہیں جو عموماً غیر انسانی حالات میں کام کر رہے ہیں)
اکیس جولائی کا اجتماع بلاشبہ منافقت کا شاہکار تھا۔سچ تو یہ ہے کہ مغربی ممالک میں مقیم پاکستانی تارکین ِوطن کی اکثریت مڈل کلاس سے وابستہ منافقت کی بہترین تصویر پیش کرتی ہے۔ خود لبرل جمہوریت میں دستیاب جمہوری اور شخصی آزادیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں مگر پاکستان میں انہیں مذہبی نظام چاہئے۔ امریکی ٹرمپ ان کو اچھا نہیں لگتا مگر پاکستانی ٹرمپ کے جلسے میں بیس ہزار لوگ جمع ہو جائیں گے۔ خود مہاجر ہیں مگر افغان مہاجروں کو ”حرام خور“ قرار دیں گے۔ حجاب پہننا اور داڑھی رکھنا اپنا بنیادی جمہوری حق قرار دیں گے مگر ایران اور سعودی عرب میں ریاست کے تھونپے گئے برقعوں کا مذہبی ثقافت کے نام پر دفاع کریں گے۔ حلال فوڈ کے علاوہ کچھ نہیں کھائیں گے مگر حرام کی کمائی کا کوئی موقع شاید ہی ہاتھ سے جانے دیں۔ کشمیر میں بھارتی مظالم اور فلسطین میں اسرائیلی جبر پر ان کا دل بہت کڑھتا ہے مگر کشمیر اور فلسطین کے لئے کام کرنے والے گروہوں کو ایک ڈالر چندہ نہیں دیں گے۔ مسلم دنیا پر’کفار‘ کے حملوں سے بہت رنجیدہ ہوں گے لیکن عراق اور افغانستان پر مظاہروں میں کبھی نظر نہیں آئیں گے۔ یمن پر سعودی حملے انہیں کبھی نظر نہیں آئیں گے۔ محکوم قومیتوں کے حقوق مانگنے والے تو چونکہ”ایجنٹ“ہیں لہٰذا ان کی ہمدردی کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ انہیں گرجا گھروں اور اما م بارگاہوں میں دہشت گردی کا شکار بننے والے معصوم لوگ بھی دکھائی نہیں دیتے۔
انہیں پاکستان کے ”امیج“ کی پاکستانی حکمرانوں سے بھی زیادہ فکر کھائے جا رہی ہوتی ہے۔ پاکستان میں حکمران طبقے کی زیادتیوں پر اگر ترقی پسند تارکینِ وطن، جو ہر جگہ ایک اقلیت میں ہیں، کبھی کوئی مظاہرہ منظم کریں تو یہ ایسے مظاہروں کا بائیکاٹ کریں گے۔ ان کے خیال سے اس طرح کے مظاہروں سے پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے۔ اتفاق سے سیاسی پناہ لیتے وقت ان کو خیال نہیں آتا کہ سیاسی پناہ انہیں ملی ہی اس وجہ سے تھی کہ پاکستان کا امیج اچھا نہیں ہے اور اس امیج کو بگاڑنے میں ان کے اپنے سیاسی پناہ کے کیس نے بھی کردار ادا کیا ہے۔
انہیں یہ دوغلا پن بھی نظر نہیں آتا کہ مغرب میں تمہاری موجود گی ہی پاکستان کے اچھے امیج کی نفی ہے۔
یہ مدرسوں اور پیروں کی درگاہوں کے لئے تو ہر سال اربوں نہیں تو کروڑوں روپے پاکستان بھیج دیتے ہیں مگر کسی ترقی پسند کاز کو ایک روپیہ نہیں دیں گے۔ ایسا کیوں ہے؟
مندرجہ بالا آخری نکتہ تارکین ِوطن کے دوغلے پن کی ایک اہم وضاحت فراہم کر تا ہے۔ مغرب میں رہنے والے ان افراد کی اکثریت رجعتی سوچ رکھتی ہے۔ اچھے معاشی حالات کی تلاش میں یہ مغربی ممالک میں تو آ گئے اور یہاں دستیاب شخصی و جمہوری آزادیاں اور نسبتاً معاشی خوشحالی تو انہیں بہت اچھی لگتی ہیں مگر اکثریت نے ایسے طریقوں اور ذریعوں سے ان ممالک میں پیر جمائے تھے کہ ان کا عقیدہ ان کو اجازت نہیں دیتا تھا۔ گویا ایک احساس گناہ (Guilt Feeling) کا شکار رہتے ہیں۔ مسجد اور مدرسے کو چندہ دینے سے یا درگاہ پر چڑھاوا چڑھانے سے وہ اپنے گناہ دھو رہے ہوتے ہیں (یہ وہی مظہر ہے جو ہمیں پاکستانی تاجروں میں بھی نظر آئے گا۔ ٹیکس نہیں دیں گے مگر حج دس دس دفعہ کر کے آئیں گے)۔ چنانچہ کسی ترقی پسند سیاسی یا سماجی کاز کو چندہ دینے سے تارکین وطن ہوں یا پاکستانی تاجر، اپنے گناہ نہیں دھو سکتے۔
عمران خان تو مولوی نہیں، پھر اسکے جلسے میں بیس ہزار کیوں؟ عمران خان”مولوی“ نہیں اسی لئے تارکینِ وطن میں بہت مقبول ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ عمران خان کلین شیو میں بھی ملائیت کے سارے تقاضے پورے کرتا ہے۔ وہ جس مڈل کلاس دوغلے پن، منافقت اور موقع پرستی کا نمونہ ہے اس کی تفصیلات میں اب جانے کی ضرورت نہیں کہ وہ سب پر واضح ہیں۔ اس کا جلسہ سننے کے لئے جو ہزاروں پاکستانی امریکی آئے تھے ان سب کے اندر بھی ایک عمران خان موجود ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیجئے عمران خان اُن ہزاروں پاکستانی امریکیوں کی تجسیم ہے جو اس کے جلسے میں آئے۔ دونوں کو ایک دوسرے میں اپنا عکس دکھائی دیتا ہے۔
عمران خان کی تارکین وطن میں مقبولیت یا کسی بھی سیاسی مظہر کو محض نفسیاتی بنیادوں سے نہیں سمجھا جا سکتا۔
تارکین وطن میں عمران خان کی مقبولیت کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ ایک اہم وجہ یہ ہے کہ مذہبی سوچ کے گرد پاکستانی اور مسلم تارکین وطن کو اکٹھا کرنے کے لئے ایک بہت بڑا انفرا سٹرکچر موجود ہے۔ اس انفراسٹرکچر کی بنیاد مسجد ہے۔ یہ مسجد سعودی عرب یا اس کے خلیجی کزن چلاتے ہیں۔ سامراجی ممالک کی حکومتوں کی بھی یہی کوشش تھی کہ مسلمان دنیا سے آنے والے تارکینِ وطن ٹریڈ یونین یا بائیں بازو کی تحریک میں جانے کی بجائے عبادت گاہ تک محدود رہیں (اس بات پر باقاعدہ تحقیق موجود ہے)۔ ایک وقت میں لندن اور پیرس میں ایسی مسجدوں کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ یہاں سے سامراجی حکومتوں کو افغانستان اور بوسنیا میں جہاد کے لئے مجاہدین مل جاتے تھے۔ سامراجی حکومتوں کی مرضی اور ملی بھگت سے چلنے والے مذہبی نیٹ ورک وہ مادی بنیادیں فراہم کرتے ہیں جن کی مدد سے مسلمان تارکین ِوطن کے اندر بنیاد پرست مذہبی رجحانات گہری جڑیں پکڑتے ہیں۔ اسی طرح مذہبی جماعتیں چاہے وہ طاہر القادری اور مولانا مودودی کی پارٹی ہو یا مصر کی اخوان المسلمین، ان کے دفاتر اور نیٹ ورک مغربی ممالک میں موجود ہیں۔ یہ جماعتیں بھی تارکین وطن کو بنیاد پرست سوچ میں مبتلا رکھتی ہیں۔ پاکستان یا تارک وطن پاکستانیوں کے کیس میں عبادت گاہوں اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ ریاست کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ ہر ملک میں پاکستانی سفارت خانہ مذہب اور دو قومی نظرئیے کے نام پر تارکینِ وطن کو منظم کرنے پر بے شمارتوانائی خرچ کرتا ہے۔
ایک اور اہم وجہ ہے شناخت کا بحران اور اس بنیاد پر ہونے والی سیاست۔ اَسی کی دہائی میں جب بائیں بازو کی سیاست زوال کا شکار ہونے لگی تو شناخت کی سیاست نے جنم لینا شروع کیا۔دوسری طرف سفید فام نسل پرست زورپکڑنے لگے۔ جب بایاں بازو مظبوط تھا تو تو نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کا پلیٹ فارم ٹریڈ یونین اور بائیں بازو کی پارٹیاں تھیں۔ اس کی بنیاد طبقہ تھا۔ اَسی کی دہائی کے اواخر میں اس کا پلیٹ فارم عبادت گاہ اور مذہبی شناخت بنتی چلی گئی۔
مسلمان دنیا کے اپنے سیاسی حالات بھی ایک وجہ ہیں۔ عمومی طور پر تارکینِ وطن (Diaspora) اپنے ملک میں پائے جانے والے رجحانات کا عکس ہوتے ہیں۔ صرف پاکستانی تارکین ِوطن میں عمران خان مقبول نہیں۔ ہندوستانی ڈائسپورا کو بھی نریندرا مودی بہت اچھا لگتا ہے۔ اَسی کی دہائی میں بہت سے یورپی ممالک میں تارکین ِوطن کی نمائندگی اکثر اوقات جمہوریت پسند اور بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے لو گ کرتے تھے۔ برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ، بیلجیئم، سویڈن اور ناروے جیسے ممالک سے ترقی پسند رسالے باقاعدگی سے شائع ہوتے جو بعض اوقات پاکستان اسمگل کیے جاتے کہ یہاں آمریت کی وجہ سے حق بات لکھنا ممکن نہ ہوتا تھا۔
تارکینِ وطن کی ان ترقی پسند روایات کا کچھ اثر آج بھی موجود ہے۔سینکڑوں کی تعدا د میں ایسے تارکینِ وطن بھی موجود ہیں جو پاکستان میں ترقی پسند تحریک کی مدد کرنے کے علاوہ اپنے میزبان ملک میں ترقی پسند تحریک سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان تارکین ِوطن کی جدوجہد مشکل بھی ہے مگر ان کے پاس مواقع بھی ہیں۔ پاکستان میں ترقی پسند تحریک کو پچھلی تین دہائیوں میں کئی شکستیں بھی ہوئیں مگر بائیں بازو کا ایک احیا بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ عمران خان جس تیزی سے پاکستان میں غیر مقبول ہو رہا ہے اس کا اثر تارکین وطن کی سوچ پر بھی ہو گا۔ تضادات کا پھٹنا اور منافقت کا آشکار ہونا ایک منطقی اصول ہے۔ امید ہے ترقی پسند تارکین وطن اور پاکستان کا بایاں بازو مل کر اس سیاسی صورتحال کو کسی حد تک ضرور بدلیں گے جس کا مظاہرہ اکیس جولائی کو ہم نے امریکہ میں دیکھا۔
(واضح رہے کہ راقم سرحدوں کے حوالے سے ایک مارکسی نقطہ نظر رکھتا ہے جس سے مراد ہے سرحدوں سے ماورا دنیا۔ انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جہاں بھی رہنا چاہے‘ رہے۔جدید سرحدیں سرمایہ دارانہ نظام کی ایک انسان دشمن تخلیق ہیں)
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔