اسلم ملک
ساغر صدیقی جن کا اصل نام محمد اختر تھا‘ 1928 میں انبالہ میں پیدا ہوئے۔ گھر میں انتہائی غربت تھی۔ ایسے میں تعلیم کا کیا سوال! محلے میں ایک بزرگ حبیب حسن رہتے تھے۔ انہی کے پاس جانے آنے لگے۔ جو کچھ پڑھا انہی سے۔ ایک دن انہوں نے اس ماحول سے تنگ آکر امرتسر کی راہ لی اور یہاں ہال بازار میں ایک دکان دار کے ملازم ہو گئے جو لکڑی کی کنگھیاں بنا کر فروخت کیا کرتا تھا۔ انہوں نے بھی یہ کام سیکھ لیا۔ دن بھر کنگھیاں بناتے اور رات کو اسی دکان کے کسی گوشے میں پڑے رہتے لیکن شعر وہ اس چودہ پندرہ برس کے عرصے میں ہی کہنے لگے تھے اور اپنے بے تکلف دوستوں کی محفل میں سناتے بھی تھے۔ شروع میں تخلص ناصر مجازی تھا لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ساغر صدیقی ہو گئے۔
ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں بڑے پیمانے پر ایک مشاعرہ ہوا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ ’لڑکا‘ (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں ان کا جواب نہیں تھا۔ بس پھر کیا تھا۔ اس شب ساغرنے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔
اس کے بعد امرتسر اور لاہور کے مشاعروں میں انکی مانگ بڑھ گئی۔ اب ساغر نے کنگھیاں بنانے کا کام چھوڑ دیا اور بعض سرپرست احباب کی مدد سے اپنا علم اور صلاحیت بڑھانے کی کوشش کی۔ مشاعروں میں شرکت کے باعث اتنی یافت ہو جاتی تھی کہ انہیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے مزید تگ و دو کی ضرورت نہ رہی۔ گھر والے بے شک ناراض تھے کہ لڑکا آوارہ ہو گیا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا لیکن ساغر کو ان کی کیا پروا تھی۔ انہوں نے گھر آنا جانا ہی چھوڑ دیا۔ کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔
1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہورآ گئے۔ یہاں دوستوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ فلم بنانے والوں نے ان سے گیتوں کی فرمائش کی اورسا غر کوحیرتناک کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔ اس زمانے میں ان کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساغر سے لکھوائے اور یہ بہت مقبول ہوئے۔
1947ء سے 1952ء تک ساغر کی زندگی کا زرّیں دور کہا جا سکتا ہے۔ وہ لاہور کے کئی روزانہ اور ہفتہ وار پرچوں سے منسلک ہو گئے بلکہ بعض جریدے تو ساغرکی ادارت میں شائع ہوتے رہے۔ پھر حالات نے پلٹا کھایا۔
1952ء کی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی۔ پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنی طرف سے تو اخلاص اور ہمدردی میں انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا۔ سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا۔ بدقسمتی سے ایک اور واقعے نے اس رجحان کو مزید تقویت دی۔
اس زمانے میں وہ انارکلی لاہور میں ایک دوست کے والد (جو پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے) کے مطب کی اوپر کی منزل میں رہتے تھے۔ اسی کمرے میں ان کے ساتھ ایک دوست بھی مقیم تھے۔ ان صاحب کو ہر طرح کے نشوں کی عادت تھی۔ ان کی صحبت میں ساغر بھی رفتہ رفتہ پہلے بھنگ اور شراب اور ان سے گزر کر افیون اور چرس کے عادی ہو گئے۔
خود ان کے دوستوں میں سے بیشتر نے ان کے ساتھ ظلم کیا۔ یہ لوگ انہیں چرس کی پڑیا اور مارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے۔ اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے۔ اس کے بعد ساغر نے رسائل اور جرائد کے دفتر اور فلموں کے اسٹوڈیو آنا جانا چھوڑ دیا۔ اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ اداروں کے کرتا دھرتا ان کے کام کی اجرت کے دس روپے بھی اس وقت تک ادا نہیں کرتے تھے جب تک وہ ان کے درِ دولت کی چوکھٹ پر دس سجدے نہ کرلیتے۔ ان حالات نے ساغر کے مزاج کی تلخی اور دنیا بیزاری اور ہر وقت ’بے خود‘ رہنے کی خواہش میں اضافہ کیا اور وہ بالکل آوارہ ہو گئے۔ کبھی وہ ننگ دھڑنگ ایک ہی میلی کچیلی چادر اوڑھے اور کبھی چیتھڑوں میں ملبوس، بال بکھرائے ننگے پاؤں… منہ میں بیڑی یا سگریٹ لیے سڑکوں پر پھرتے رہتے اور رات کو نشے میں دھت مدہوش کہیں کسی سڑک کے کنارے کسی دکان کے تھڑے یا تخت کے اوپر یا نیچے پڑے رہتے۔
اب ان کی یہ عادت ہو گئی کہ کہیں کوئی اچھے وقتوں کا دوست مل جاتا تو اس سے ایک چونی طلب کرتے۔ ان کی یہ چونی مانگنے کی عادت سب کو معلوم تھی چنانچہ بارہا ایسا ہوا کہ کسی دوست نے سامنے سے آتے دیکھا اور فورا جیب سے چونّی نکال کر ہاتھ میں لے لی۔ پاس پہنچے اور علیک سلیک کے بعد مصافحہ کرتے وقت چونی ساغر کے ہاتھ میں چھوڑ دی۔ وہ باغ باغ ہو جاتے۔ یوں شام تک جو دس بیس روپے جمع ہو جاتے وہ اس دن کے چرس اور مارفیا کے کام آتے۔
جنوری 1974ء میں ان پر فالج کا حملہ ہوا ان کا علاج بھی چرس اور مارفیا سے کیا گیا۔ فالج سے تو بہت حد تک نجات مل گئی لیکن اس سے دایاں ہاتھ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا۔ پھر کچھ دن بعد منہ سے خون آنے لگا۔ اور یہ آخر تک دوسرے تیسرے جاری رہا۔ ان دنوں خوراک برائے نام تھی۔ جسم سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ اب وہ دن دور نہیں جب ساغر کسی سے چونی نہیں مانگے گا۔ 19 جولائی 1974ء صبح کے وقت ساغر کی لاش سڑک کے کنارے ملی اور دوستوں نے لے جا کر اسے میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کر دیا۔
ساغر نے غزل، نظم، قطعہ، رباعی، ہر صنف سخن میں خاصا ذخیرہ چھوڑا ہے۔ وہ خود تو اسے کیا چھپواتے، ناشروں نے اپنے نفع کی خاطر اسے چھاپ لیا اور ساغر کومعاوضے میں ایک پیسہ تک نہ دیا۔ چھ مجموعے ان کی زندگی میں لاہور سے چھپے: غم بہار، زہر آرزو (1946ء)، لوح جنوں (1971ء)، سبز گنبد اور شب آگہی (1972ء)۔
اگر کوشش کی جائے تو ایک اور مجموعے کا مواد بآسانی مہیّا ہو سکتا ہے۔
ساغرکی زندگی کے ایک واقعہ سے مشہور یونانی فلسفی دیو جانس کلبی کی روایت تازہ ہوتی ہے۔
اکتوبر 1958ء میں پاکستان میں فوجی انقلاب میں جنرل محمد ایوب خاں بر سر اقتدار آ گئے۔ اس سے پہلے عوام سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کی باہمی چپقلش اور رسہ کشی سے تنگ آ چکے تھے اور اس تبدیلی پر خوش ہوئے۔ ساغر نے اسی جذبے کا اظہار ایک نظم میں کیا۔ اس میں ایک مصرع تھا: کیا ہے صبر جو ہم نے‘ ہمیں ایوب ملا!
یہ نظم جنرل ایوب کی نظر سے گزری یا گزاری گئی۔ اس کے بعد جب وہ لاہور آئے تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس شاعر سے ملنا چاہتا ہوں جس نے یہ نظم لکھی تھی۔ اب کیا تھا‘ ساغر کی تلاش ہونے لگی۔ لیکن صبح سے شام تک کی پوری کوشش کے باوجود وہ ہاتھ نہ لگے۔ ان کا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں۔ جہاں سے وہ انہیں پکڑ لاتے۔ پوچھ گچھ کرتے کرتے سر شام پولیس نے انہیں پان والے کی دکان کے سامنے کھڑے دیکھ لیا۔ وہ پان والے سے کہہ رہے تھے کہ پان میں قوام ذرا زیادہ ڈالنا۔ پولیس افسر کی باچھیں کھل گئیں کہ شکر ہے ظلّ سبحانی کے حکم کی تعمیل ممکن ہوئی۔ انہوں نے قریب جا کر ساغر سے کہا کہ آپ کو حضور صدر مملکت نے یاد فرمایا ہے۔
ساغر نے کہا:’بابا ہم فقیروں کا صدر سے کیا کام‘
افسر نے اصرار کیا۔ ساغر نے انکار کی رٹ نہ چھوڑی۔ افسر بے چارہ پریشان۔ کرے تو کیا کیونکہ وہ ساغر کو گرفتار کرکے تو لے نہیں جا سکتا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اور اسے کوئی ایسی ہدایت بھی نہیں ملی تھی۔ جرنیل صاحب تو محض ان سے ملنے کے خواہش مند تھے اور ادھر یہ ’پگلا شاعر‘یہ عزت افزائی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اب افسر نے جو مسلسل خوشامد سے کام لیا تو ساغر نے زچ ہو کر اس سے کہا:’ارے صاحب، مجھے گورنر ہاؤس میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ مجھے کیا دیں گے۔ دو سو چار سو؟ فقیروں کی قیمت اس سے زیادہ ہے۔‘ جب وہ اس پر بھی نہ ٹلا تو ساغر نے گلوری گلے میں دبائی اور زمین پر پڑی سگرٹ کی خالی ڈبیا اٹھا کر اسے کھولا۔ جس سے اس کا اندر کا حصہ نمایاں ہو گیا۔ اتنے میں یہ تماشا دیکھنے کو ارد گرد خاصی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ ساغر نے کسی سے قلم مانگا اور اس کاغذ کے ٹکڑے پر یہ شعر لکھا:
ہم سمجھتے ہیں ذوق سلطانی
یہ کھلونوں سے بہل جاتا ہے
یا یہ شعر تھا:
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی
(ساغر صدیقی بقلم خود)
اور وہ پولیس افسر کی طرف بڑھا کر کہا:’یہ صدر صاحب کو دے دینا، وہ سمجھ جائیں گے۔‘ اور اپنی راہ لی۔
ساغر صدیقی کے منتخب اشعار
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
اے عکسِ زلفِ یار ہمیں تو پناہ دے
گھبرا کے آ گئے ہیں بڑی روشنی سے ہم
اس رونق ِ بہار کی محفل میں بیٹھ کر
کھاتے رہے فریب بڑی سادگی سے ہم
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کچھ بھول ہوئی ہے
دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں
کچھ لوگ بھروسہ کرتے ہیں تسبیح کے چلتے دانوں پر
بے چین یہاں یزداں کا جنوں انسان یہاں بھی اندھے ہیں
میں تلخیِ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر بقدرِ ظرف لْٹاتا ہْوں نقدِ ہوش
ساقی سے میں اْدھار کا قائل نہیں ہوں دوست
ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں
راہزن آدمی راہنما آدمی
با رہا بن چکا ہے خدا آدمی
یہ حیات کی کہانی ہے فنا کا ایک ساغر
تو لبوں سے مسکرا کر اسی جام کو لگا لے
چراغِ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ! بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ! بڑا اندھیرا ہے
مجھے تمہاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ! بڑا اندھیرا ہے
جسے زبانِ خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
وہ گزر گیا ہے ساغر کوئی قافلہ چمن سے
کہیں آگ جل رہی ہے کہیں آگ بجھ گئی ہے
ٍ وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی
اک ترے وصل کی گھڑی ہو گی
اے عدم کے مسافرو ہشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہو گی
موت کہتے ہیں جس کو اے ساغر
زندگی کی کوئی کڑی ہو گی
وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو
ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو
یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا
مرا شعور مزاج عوام بدلے گا
بزم ساغر ہے گوش بر آواز
کچھ تو فرماؤ! وقت نازک ہے
کوئی نالہ یہاں رسا نہ ہوا
اشک بھی حرفِ مدعا نہ ہوا
آپ رسمِ جفا کے قائل ہیں
میں اسیرِ غمِ وفا نہ ہوا
ڈوبنے کا خیال تھا ساغر
ہائے ساحل پہ ناخدا نہ ہوا
حوروں کی طلب اور مئے و ساغر سے ہے نفرت
زاہد! ترے عرفاں سے کچھہ بھول ہوئی ہے
فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا
ہماری بادہ کشی کہہ رہی ہے سب اچھا
تڑپ تڑپ کے شبِ ہجر کاٹنے والو
نئی سحر کی گھڑی کہہ رہی ہے سب اچھا
اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا
تو کہاں تھا بہار سے پہلے
آج پھر بْجھ گئے جَل جَل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دَم توڑ دیا
ہائے آدابِ محبّت کے تقاضے ساغر
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا
پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دیے
پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دیے
یہ کیا قیامت ہے باغبانو کہ جن کی خاطر بہار آئی
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمہاری آنکھوں میں خار بن کر
چاند کا سایہ چھت سے اترا
ہمسائے نے کھڑکی کھولی
جسم کا زنداں روزن روزن
جب بھی چاہا سوئی چبھو لی
چشم ساقی کی عنایات پہ پابندی ہے
ان دنوں وقت پہ، حالات پہ پابندی ہے
ہر تمنا ہے کوئی ڈوبتا لمحہ جیسے
ساز مغموم ہیں نغمات پہ پابندی ہے
سمجھی ہے جسے سایہ امید عقل خام
ساغر کا ہے خیال بڑی تیز دھوپ ہے
اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے
دْنیا کی کی حقیقت کیا کہئے کْچھہ یاد رہی کْچھ بھول گئے
بھْولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
منزل نہیں ہوں، خضر نہیں، راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے
اس اندھیروں کے عہد میں ساغر
کیا کرے گا کوئی اْجالوں کو
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں
کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں
حشر میں کون گواہی میری دے گا ساغر
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں
یقیناً حشر کی تقریب کے لمحات آ پہنچے
قدم ساغر قریب کوئے جاناں لڑکھڑاتے ہیں
نالہ حدودِ کوئے رسا سے گزر گیا
اب دَردِ دل علاج و دوا سے سے گزر گیا
مرے عزیزو، مرے رفیقو، کوئی نئی داستان چھیڑو
غم ِ زمانہ کی بات چھوڑو، یہ غم تو اب سازگار سا ہے
کبھی تو آؤ، کبھی تو بیٹھو، کبھی تو دیکھو، کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے
یہ اور بات کہ منزل پہ ہم پہنچ نہ سکے
مگر یہ کم ہے کہ راہوں کو چھان بیٹھے ہیں
نور و ظلمت کا احتساب نہ کر
وقت کا کارو بار سانجھا ہے
اس طلسمات کے جہاں میں حضور
کوئی کیدو ہے کوئی رانجھا ہے
وہاں اب تک سنا ہے سونے والے چونک اٹھتے ہیں
صدا دیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزر آئے