دنیا

جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف

التمش تصدق

پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے لے کر آج تک ہونے والی بے شمار جنگوں اور خانہ جنگیوں کی بربادیوں کے مختلف سیاسی، مذہبی، ثقافتی اور قومی جواز پیش کیے جاتے ہیں، لیکن اصل مفادات،جن کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی،وہ سامراجی ممالک کے حکمران طبقے کے معاشی، سیاسی اور عسکری مفادات اور توسیع پسندانہ عزائم ہیں۔سامراجی طاقتیں اپنی عسکری اور معاشی برتری کی بنیاد پر پسماند ہ ممالک کی معیشت اور سیاست پر قابض ہیں۔یہ ممالک اپنے معاشی، سیاسی مفادات اور تذویراتی مقاصد کے لیے کسی ملک پر فوج کشی کر کے ان کو کھنڈر بنانے سے بھی نہیں گریز کرتے ہیں۔

جنگ کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں منڈیوں پر قبضہ،قدرتی وسائل کی لوٹ مار،داخلی تضادات کا خارجی اظہار وغیرہ،اوران میں سے ایک وجہ خود جنگ ہے کیونکہ سرمایہ داری میں جنگ ایک بہت بڑی منافع بخش صنعت ہے۔جس کو دیگر صنعتوں کی طرح اپنا مال بیچنے کے لیے منڈی درکار ہے۔یہی وجہ ہے اسلحہ ساز اجارہ داریاں دنیا کے مختلف ممالک میں اپنا اسلحہ بیچنے کی لیے انتشار،خانہ جنگی،جنگی جنون اور جنگی حالات پیدا کرتی ہیں۔جہاں کوئی دشمن نہ ہو مصنوعی دشمن پیدا کیے جاتے ہیں جن سے ڈرا کر پسماندہ ممالک کے محنت کشوں کی پیدا کردہ دولت اسلحہ ساز اجارہ داریاں ہتھیا لیتی ہیں۔

محنت کشوں کی انقلابی تحریکوں کو کچلنے کے لیے امریکی سامراج نے ساری دنیا میں بنیاد پرستی کی دہشت کو پروان چڑھا کر محنت کشوں کی تحریکوں اور انقلابات کو خون میں ڈبویا۔افغان ’ڈالر جہاد‘کے ذریعے ’ڈالر مجاہدین‘اور طالبان سے لے کر القاعدہ، داعش سمیت درجنوں بنیاد پرست تنظیموں کو سامراج نے اپنے مفادات کے لیے بنایا اور استعمال کیا۔ بعد میں اسی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کو جواز کے طور پر استعمال کر کے دہشتگردی کے خلاف جنگ کا نام پر مختلف ممالک پر براہ راست فوجی قبضہ کیا۔

امریکی سامراج نے افغانستان، عراق، شام اور لیبیا سمیت کہیں ممالک کو تاراج کیا، لاکھوں انسانوں کو قتل یا اپاہج کیا اور کروڑوں انسانوں کو بے گھر کیا۔لاکھوں انسانوں کو خون میں نہلانے کے بعد امریکی سامراج اپنے مالی نقصان کا واویلا کر رہا ہے لیکن جنگی صنعت سے جڑی ان اجارہ داریوں کے کھربوں ڈالر کے منافعوں کا ذکر کرنے سے گریز کیا جاتا ہے، جو انہوں نے ان جنگوں کے ذریعے کمائے ہیں۔

لینن نے کہا تھا”جنگیں ہولناک ہوتی ہیں لیکن ہولناک حدتک منافع بخش ہوتی ہیں۔“اس کی واضع مثال افغان جنگ ہے۔ کارپوریٹ میڈیا اس بات پر بہت زور دیتا ہے کہ امریکہ نے 20سال میں افغان جنگ میں 2ہزار ارب ڈالر کی رقم خرچ کی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ رقم کس پر خرچ کی گئی ہے؟۔اگر اس جنگ میں امریکہ کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے تو فائدہ کس کو ہوا ہے؟ کیا یہ رقم افغان محنت کشوں کی فلاح پر خرچ کی گئی؟

یہ وہ سوالات ہیں جن سے انتہائی مکاری سے نظریں چرائی جاتی ہیں۔افغان محنت کشوں کی زندگیاں آج بھی پہلے سے زیادہ مشکل ہیں،ان کی بربادیوں اور ذلتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔اس سامراجی جنگ میں سب سے زیادہ کسی کا نقصان اگرہوا ہے تووہ عام افغان شہری ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں ہلاک، اپاہج اور بے گھر ہوئے ہیں۔انفراسٹرکچر آج بھی خستہ حالی کا شکار ہے، طالبان پہلے سے مضبوط ہو کر پھر سے قتدار پر قابض ہو چکے ہیں۔افغان جنگ بھی افغانستان کے محنت کشوں کیلئے ہی ہولناک ثابت ہوئی ہے،جس نے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو برباد کر دیا۔ امریکی عوام کے ٹیکس کے پیسے کو پانی کی طرح بہایا گیا۔اس جنگ میں امریکی اور اس کے اتحادی ملکوں کی کمپنیوں نے اربوں ڈالر کمائے ہیں اور اس بہتی گنگا میں افغانستان اور پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ وہ اس میں نہائے ہیں۔یہ جنگ ان کے لیے زبردست منافع بخش ثابت ہوئی ہے۔

کاسٹ آف وار کے مطابق سنہ 2001ء سے2021 ء کے درمیان امریکہ نے جتنے ڈالر خرچ کیے، اس میں سے نصف رقم کی ادائیگی افغانستان میں امریکی محکمہ دفاع کے مختلف آپریشنز کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کی گئی۔ان میں سے بہت بڑا حصہ ان نجی کمپنیوں کی خدمات کے لیے حاصل کیا گیا جنہوں نے امریکی آپریشنوں کو سہارا دیا۔افغانستان میں سہولیات کی فراہمی کے لیے امریکہ اور دیگر ممالک کی 100 سے زیادہ کمپنیوں کو پینٹا گون کی طرف سے ٹھیکے دئیے گئے۔ ان میں سے کچھ کمپنیوں نے ان ٹھیکوں سے اربوں ڈالر کمائے۔2008ء کے مالی بحران کے بعد تشکیل دی گئی امریکی ویب سائٹ یو ایس سپنڈنگ ڈاٹ کام،جو امریکی حکومت کے اخراجات سے متعلق معلومات دیتی ہے،کہ مطابق 3 امریکی کمپنیوں کو سب سے بڑے ٹھیکے دیے گئے، ان میں ڈینکارپ، فلور اور کے بی آر تھیں۔ڈینکارپ کو 14.4 بلین ڈالر کے ٹھیکے دئیے گئے۔پیلٹر کے مطابق مجموعی طور پر فلور کارپوریشن کو افغانستان میں 13.5بلین ڈالر کے ٹھیکے دئیے گئے۔ بی آر کو پینٹا گون کی طرف سے قریب 6.3 بلین ڈالر مالیت کے ٹھیکے ملے۔چوتھی کمپنی جسے سب سے زیادہ ٹھیکے ملے وہ ریتھیون تھی جسے 2.5بلین ڈالر کے ٹھیکے ملے۔2020 ء میں اس کمپنی کو افغان ایئر فورس کی تربیت کے لیے 145 ملین ڈالر کا ٹھیکہ دیا گیا۔پانچویں سب سے زیادہ پیسے کمانے والی انٹیلیجنس کی کمپنی ایگس ایل ایل سی تھی اسے 1.2 بلین ڈالر کے ٹھیکے ملے تھے۔ کاسٹ آف وار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان کمپنیوں کو 2.1 ٹریلین ڈالر کے ٹھیکے ملے۔افغان جنگ کے دوران بیس سال میں ہونے والی قیمتی معدنیات کی لوٹ مار اور منشیات کی سمگلنگ سے ہونے والا منافع اس کے علاوہ ہے۔

حکمران طبقے نے ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے لڑی جانے والی جنگ کو قوم اور ملک کے تمام افراد کے مفادات کی جنگ قرار دیا۔ماضی میں ہونے والی جن جنگوں کو مذہبی اور نسلی رنگ دیا جاتا ہے اور انکو ان مذاہب اور اقوم کے تمام افراد کے مفاد کی جنگ کہا جاتا ہے، ان کے پیچھے بھی ان مذاہب اور اقوام کے حکمران طبقے کے طبقاتی مفادات کارفرما تھے اور آج بھی جو جنگیں ہوتی ہیں ان میں بھی غالب مفاد حکمران طبقے کا معاشی مفاد ہی ہے۔

حقیقی انسانی جنگ تمام انسانوں نے مل کر لاکھوں سال تک لڑی وہ زندہ رہنے کی جنگ تھی جو انسانی بقاء کی جنگ ہے۔یہ جنگ فطرت کی سختیوں سے مقابلہ کرنے اور دیگر جانوروں سے تحفظ اور خوراک کے حصول کی جنگ تھی۔یہ جنگ تمام جاندار لڑتے ہیں جو فطری جنگ ہے۔انسان نے لاکھوں سالوں سے جاری اس جنگ میں فطرت کی بے لگام قوتوں کو قابو کیا، ان کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا اور دیگر جانوروں پر برتری حاصل کی۔

نجی ملکیت کے آغاز اور طبقاتی سماج کے قیام کے بعد جنگ کی نوعیت بدل گئی۔اب انسان کی فطرت کی سختیوں اور دیگر جانوروں سے لڑائی انسان اور انسان کے درمیان طبقاتی جنگ میں بدل گئی، جو غلام دارانہ عہد میں آقا اور غلام، جاگیرداری میں جاگیردار اور زرعی غلام اور آج سرمایہ داری میں سرمایہ دار اور اجرتی مزدور کی صورت میں موجود ہے۔ طبقاتی معاشرے میں ہونے والی تمام جنگوں کا مقصد مشترکہ مفاد نہیں بلکہ حاکم طبقے کا طبقاتی مفاد رہا ہے۔ غلام داری میں جنگ کا مقصد غلاموں کا حصول اور پیدوار کی لوٹ مار تھا، جاگیر داری میں زراعی زمینوں پر قبضہ مقصود تھا۔

آج سرمایہ داری میں جنگوں کا مقصد منڈیوں پر قبضہ اور قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ ہے،جسے سامراجی طاقتیں کبھی پسماندہ ممالک کے عوام کو مہذب بنانے کے نام پر، کبھی جمہورت کے نام پر، کبھی انسانی حقوق کی بحالی کے نام پر تو کبھی دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر مختلف ممالک کے محنت کشوں اور محکوموں کو تاراج کرتی ہیں۔کروڑوں انسانوں کی تباہی اور بربادی کا ذمہ دار انہی لوگوں کو ہی قرار دیا جاتا ہے جو ان جنگوں میں برباد ہوتے ہیں۔جن کو بے گھر کر کے ہجرت پر مجبور کیا جاتا ہے، جن کے بچوں کو معذور کیا جاتا ہے یا جنہیں جنگ کی آگ میں جلا کر مار دیا جاتا ہے۔اس سب کے پیچھے حکمران طبقے کی منافعوں کی ہوس ہے۔سرمایہ داری میں جنگیں ناگزیر ہیں کیوں جنگیں خود اس نظام کے ناقابل حل داخلی تضادات کا اظہار ہیں۔یہ تضاد جدید ذرائع پیدوار کا نجی ملکیت اور قومی ریاست کے ساتھ تضاد ہے۔

جب تک نجی ملکیت ہے انسان کی انسان سے جنگ ختم نہیں ہو سکتی اور جب تک نجی ملکیت کا دفاع کرنے والی قومی ریاست کا خاتمہ نہیں ہوتا،مختلف ریاستوں کے حکمران طبقات کے درمیان تضادات بھی ناگزیر طور پر جنم لیں گے جو کبھی بھی جنگ کی صورت میں اپنا اظہار کر سکتے ہیں۔ آج کی جدید ٹیکنالوجی کے عہد میں ہونے والی کوئی بھی بڑی جنگ انسانی تہذیب کو نیست و نابود کر سکتی ہے۔عالمی طبقاتی جنگ میں محنت کشوں کی فتح کے ذریعے نجی ملکیت اور قومی ریاست کاخاتمہ ہی انسانیت کو جنگوں اور خانہ جنگیوں کی بربادی اور خونریزی سے بچا سکتا ہے، انسان کو اس کی حقیقی لڑائی کی طرف لوٹایا سکتا ہے،جو فطرت کی بحالی کی لڑائی ہے،جس فطرت کو سرمایہ داری برباد کر رہی ہے۔

Altamash Tasadduq
+ posts

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔