آصف حنیف
سکاٹ رڈلے (Ridley Scott)کی ہدایتکاری میں بنی نئی فلم جو کہ موریزیو گوچی کی زندگی اور قتل پر مبنی ہے فلم کے پہلے سین میں موریزیو ایک روایتی اٹالین کیفے کے باہر بیٹھا ہے اور اپنا سگریٹ ختم کر کے سائیکل پر سوار ہوتا ہے اور جس انداز سے موریزیو ہاتھ چھوڑ کر سائیکل چلاتا ہے اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جو پچھلی دو دھائیوں میں ازدواجی زندگی اور بزنس کے اتار چڑھاؤ کے بعد اب اپنے آپکو آزاد محسوس کر رہا ہے اور خوش ہے۔
کچھ ہی لمحوں میں وہ اپنے دفتر کے باہر پہنچتا ہے اور وہاں سیڑھیوں پر ہی اس کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
میرے خیال میں پہلے ہی سین کو اس انداز میں فلما کر رڈلے سکاٹ فلم کو اسٹیبلش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ رڈلے سکاٹ جو اس سے پہلے بھی اٹلی کے رومن دور پر مشہور زمانہ فلم’گلیڈیٹر‘بنا چکے ہیں، کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں۔
کسی بھی شخص کی سوانح حیات پر فلم بنانا اس لئے بھی مشکل بات ہوتی ہے کہ زیادہ تر کہانی تو لوگوں کو پہلے سے ہی معلوم ہوتی ہے۔ سو اس کو دلچسپ بنانا ہی مہارت ہوتی ہے جو اس فلم میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
فلم میں زیادہ تر پوپ میوزک کا استعمال کیا گیا ہے کیونکہ فلم کا کافی حصّہ 80ء کی دہائی کے پس منظر میں فلمایا گیا ہے۔ ٹریلر میں بھی بلوندی کا گانا استعمال کیا گیا تھا جو ہر دل عزیز ہے اور اس دور میں آپ کو واپس لے جاتا ہے۔
کمپنی کے موجودہ ڈائریکٹر کے مطابق فلم کی پروڈکشن ٹیم کو کمپنی کے سابقہ محفوظ شدہ دستاویزات تک رسائی دی گئی تھی جس سے آرٹ ڈائریکشن کو ملبوسات اور دوسرے معاملات میں مدد ملی اور فلم میں واضح دکھائی دیتا ہے کہ پروڈکشن ڈیزائن بہت اچھا کیا گیا ہے کیونکہ فلم کی کہانی اٹلی اور امریکہ میں آگے بڑھتی ہے۔ دونوں جگہوں پر رہن سہن کا انداز مختلف دکھایا گیا ہے۔
فلم کی کہانی زیادہ تر موریزیو اور اس کی بیوی پتریسیہ کے درمیان گھومتی ہے: کس طرح وہ ایک دوسرے کے پیار میں پاگل ہوتے ہیں اور جب موریزیو کا باپ رودولفو پتریسیہ کو اپنانے سے انکار کر دیتا ہے بلکہ اس کو چھوٹی ذات کی عورت کہہ کر دھتکارتا ہے تو اٹالین کلچر میں برصغیر پاک و ہند کے کلچر کی جھلک ملتی ہے۔
باپ سے ناراض موریزیو پتریسیہ سے شادی کر لیتا ہے۔ پھر اپنے تایا کے اصرار پر (جو اپنے بیٹے کی نااہلیوں سے نالاں تھا) نیو یارک بزنس میں اس کی مدد کے لئے چلا جاتا ہے۔ اَسی کی دہائی کی شروعات میں اپنے باپ کی وفات کے بعد وہ کمپنی کا حصے دار بنتا ہے اور برانڈ کو روایتی انداز سے ہٹا کر جدید انداز سے پیش کرتا ہے اور کافی کامیاب ہوتا ہے۔ یاد رہے گوچی کا آغاز موریزیو کے دادا نے کیا تھا جو بہت لگژری سوٹ کیس بنانے والی کمپنی تھی جسے بعد میں اس کے والد اور تایا نے بین الاقوامی سطح پر فیشن برانڈ کے طور پر متعارف کروایا تھا۔
اس برانڈ کو 70ء کی دہائی میں کافی مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ لوگ انکے پرانے ڈیزائنوں سے اکتا چکے تھے مگر موریزیو اس کو بدلنے میں کامیاب رہتا ہے۔ جیسے جیسے کاروبار بڑھتا ہے ویسے ویسے لالچ اور سازشوں کا آغاز ہوتا ہے جو اس خاندان کے زوال کا سبب بنتی ہیں۔ یاد رہے 1995ء میں موریزیو کے قتل کے بعد اس فیملی کا کوئی بھی شخص اس برانڈ کا حصہ دار نہیں رہا۔ سب انویسٹرز کا ہی ہو کر رہ گیا۔
فلم کے مرکزی کردار’موریزیو گوچی‘آدم ڈرائیورنے اور’پتریسیہ رجیانی‘ لیڈی گاگا نے نبھایا ہے۔ آدم ڈرائیور نے اس کردارکو بہت اچھی طرح سمجھا اور نبھایا ہے۔ ان کا میک اپ بھی اس انداز میں کیا گیا ہے کہ وو چہرے سے اٹالین لگتے ہیں۔ لہجہ میں بھی وہ اٹالین انداز لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انکا کام کافی متاثرکن ہے۔
لیڈی گاگا نے بھی اپنے کردارکو ٹھیک ٹھاک نبھایا ہے لیکن شاید کوئی زیادہ منجھی ہوئی ایکٹریس اس رول میں زیادہ جان ڈال سکتی تھی۔ کچھ ذرائع کے مطابق یہ فلم کافی تاخیر کا شکار رہی اور اس میں کافی تبدیلیاں بھی آئیں۔ ایک وقت میں یہ رول پنی لوپ کروس کرنے والی تھیں جو ایک منجھی ہوئی اداکارہ ہیں اور اسپانوی ہونے کی وجہ سے انکا لہجہ اٹالین جیسا ہی ہے جیسا کہ پینا کے رول میں سلمہ ہائک کو دیکھا جا سکتا ہے ان کا رول چھوٹا تھا مگر ان کی اداکاری اچھی ہے۔ اس کے علاوہ جیریمی آئرن نے موریزیو کے باپ رودولفو کا رول کیا ہے اور بہت اچھا کام کیا ہے۔ الپاچینو نے الدوکا رول کیا ہے اور کچھ نیا نہیں کیا ہے جیسا وہ پہلے کرتے ہیں ویسے ہی لگے ہیں۔ جیراڈ لیٹو نے پاؤلو کے کردار میں بہت مایوس کن اداکاری کی ہے۔ میک اپ اور مصنوعی اطالوی لہجے کی آڑ میں شاید سوچا کہ داکاری کی ضرورت نہیں رہی جیسے کہ بالی ووڈ میں رواج ہے۔
موریزیو کوجب قتل کیا گیا تھا اس وقت انٹرنیٹ اتنا عام نہیں تھا جتنا کہ آجکل۔ یہ کہانی پاکستانی میڈیا میں زیادہ نظر نہیں آئی تھی۔
نوے کی دہائی کے نصف تک چھوٹے شہروں میں زیادہ لوگوں کو برانڈز کا اتنا پتا بھی نہیں ہوتا تھا۔ اسی کی دہائی میں ضیا آمریت میں امریکہ کلچر ایکسچینج میں جو ٹی وی سیریز ملے انسے چند برانڈز نے ہمارے ہاں شہرت پائی تھی۔
1992ء میں جب منموہن سنگھ جی نے انڈیا کو عالمی منڈی کے لئے کھولا تو دنیا بھر سے برانڈز انڈیا آئے اور پھر بالی وڈ میں رچ بس گئے۔ آج کے دور میں ہماری نوجوان نسل میں تو کوئی ہی ہو گا جسے گوچی کا نہ پتا ہو۔ فلم کا نام ہی انکو متاثر کرے گا اور میرے خیال میں یہ ایک قابل دید فلم ہے۔ اسطرح کی کوئی بھی فلم مکمل حقیقت پر مبنی تو نہیں ہوتی مگر ہم حقیقت کا اندازہ ضررور لگا سکتے ہیں۔