نقطہ نظر

ایرانی فلم ’قہرمان‘ کا ہیرو عام آدمی، ولن سوشل میڈیا

آصف حنیف

ایک ہیرو یا ولن آخر ہوتا کون ہے؟ کیا ہیرو کا تصور جو آج تک ہمیں دیا گیا ہے، ہیرو ویسا ہی ہوتا ہے یا کبھی تھا؟ یا عام انسان اسی ہیرو اور ولن کے درمیان میں لٹکا بدلتے معاشی اور سماجی حالات میں مختلف نوعیت کا رویہ اختیار کر لیتا ہے؟

ایسے ہی سوالوں میں لپٹے ہوئے کردار آسکر ایوارڈ یافتہ ایرانی ہدایتکار اصغر فرہادی کی نئی فلم ’قہرمان‘ (ہیرو) کے ہیں۔

فلم کا مرکزی کردار رحیم (عامر جدیدی) نے نبھایا ہے جو قرضہ واپس نہ کر پانے پر قید کاٹ رہا ہے اور فلم کے آغاز میں ہی دو دن کی ضمانت پر جیل سے باہر آتا ہے۔ رحیم طلاق یافتہ ہے اور ایک 12-11 سالہ بیٹے کا باپ۔ بیٹا اس کی عدم موجودگی میں اس کی بہن کے پاس رہتا ہے۔ رحیم کی ایک دوست خرشندہ (سحر گلدوست) جس کے ساتھ وہ شادی کرنا چاہتا ہے ایک بے باک عورت ہے جو اس کی مدد کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔

خرشندہ رحیم کو ایک بیگ دیتی ہے جو اسے سڑک پر ملا تھا۔ اس بیگ میں کچھ سونے کے سکّے ہیں اور وہ انکو بیچ کر رحیم کا قرضہ ادا کرنا چاہتے ہیں مگر جب ان کو قرض خواہ کے رویّہ اور سکّوں کی کم مالیت کا پتا چلتا ہے تو رحیم ایک اور چال چلتا ہے۔ وہ بیگ کی مالکن کو ڈھونڈ کر بیگ واپس کرتا ہے پھر موقعہ پرست جیل کے افسران کی مدد سے ٹی وی پر اپنے ہکلاتے ہوے بیٹے کو استعمال کر کے انٹرویو دیتا ہے اور قرض خواہ کے برے رویے کے بارے میں بتا کر ہمدردی بٹورتا ہے۔

اس کے بعد ایک چیرٹی اس کے لئے چندہ جمع کرتی ہے کچھ پیسہ اکٹھا ہونے کے باوجود اسکے کردار پر اور بیگ کی مشتبہ مالکن پر سوال اٹھتے ہیں اور وو مزید مسائل میں الجھتا جاتا ہے۔

فلم میں عام انسان کو معاشرے کے رویوں اور قدروں سے بدزن اور بیزار طور پر دکھایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کے عام زندگی پر اثرات کو نہایت شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور دکھایا گیا ہے کہ کس طرح آج کے دور میں بہت کم وقت میں کسی کو بغیر تفصیلی معلومات پر ہیرو یا ولن قرار دیدیا جاتا ہے۔

فلم تکنیکی اعتبار سے معیاری ہے اور فلم کی ایڈیٹنگ کافی شارپ ہونے کی وجہ سے فلم کی 2 گھنٹے کی لمبائی کا احساس نہیں ہوتا۔ رنگوں اور موسیقی کا استعمال بہت کم ہے مگر جب بھی کہیں ساز کو چھیڑا گیا ہے تو یہ نہایت لطیف مگر فلم میں کہانی کی شدّت کا احساس دلاتا ہے۔ اداکاری کے لحاظ سے سارے فنکاروں نے اپنے کرداروں کو خوب نبھایا ہے۔ فلم ہمیں اسی تذبذب میں الجھاے رکھتی ہے کہ آخر ہیرو کون ہے اور ولن کون؟

رحیم اپنی نرم طبیعت اور خوبصورت مسکراہٹ سے نہ صرف خرشندہ کو بلکہ ہر کسی کو اپنا گرویدہ بناے رکھتا ہے، وہ محنتی ہے اور اپنے مشکل حالات میں قرض سے نجات پانا چاہتا ہے مگر اپنے مقصد کے لئے ہر حربہ استعمال کرجاتا ہے۔

بہرام جو اس کے لئے قرض کا انتظام کرتا ہے، پھر رحیم کی اپنی بہن سے برے رویے اور طلاق پر ناراضگی کو بھول کر اس کے بیٹے کی حالت کو دیکھ کر اسکی ضمانت پر آمادہ ہوتا ہے۔ ادہر رحیم اپنے بیٹے کا فائدہ اٹھا کر اسے ایک ظالم قرض خواہ پیش کرتا ہے جو معاشرے میں رسوائی کا سبب بنتا ہے اب وہ اپنی انا کو لئے بضد ہے۔ خرشندہ، ٹیکسی ڈرائیور یا رحیم کی بہن جو اس کی حالت زار دیکھ کر بیگ کی مالکن نہ ملنے پر اس کے جھوٹے ڈرامے کا حصّہ بنتے ہیں اور ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اچھائی اور برائی، کمزوری اور مضبوطی سب انسانی فطرت اور نفسیات کا حصّہ ہیں۔

اس فلم کا موازنہ اگر’التغرل‘، ’پری زاد‘یا ’میرے پاس تم ہو‘ کے ہیرو سے کیا جائے تو نظر آئے گا کہ ان سب ڈراموں کے ہیروس معاشرے میں ایسی اقدار بناتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ لوگ انسے متاثر ہو کر ویسے ہیرو ڈھونتے ہیں، یابننے کی کوشش کرتے ہیں جو مزید ڈپریشن کا سبب بنتے ہیں۔

اصغر فرہادی اس سے پہلے اپنی فلموں ’جدائی‘ اور’فروشندہ‘سے دو مرتبہ آسکر ایوارڈ جیت چکے ہیں۔ ’جدائی‘راقم کی سب سے پسندیدہ فلم ہے۔

نوٹ: ’قہرمان‘ پر ایک ایرانی فلم میکر آزادی مسیح زادے نے الزام لگایا کہ یہ ان کی ایک دستاویزی فلم کا سرقہ ہے۔ اس الزام کی بات عدالت تک پہنچی۔ بعض لوگوں کی جانب سے اصغر فرہادی پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے آزادی مسیح زادے کو اثر و رسوخ کی مدد سے خاموش کرا دیا۔ مذکورہ دستاویزی فلم اس لنک پر دیکھی جا سکتی ہے۔

Asif Hanif
+ posts

آصف حنیف کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے مگر ایڈنبرا، سکاٹ لینڈ میں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے مانچسٹر میٹروپولیٹن یونیورسٹی سے’فلم اور براڈکاسٹ میڈیا‘ میں گریجویشن کر رکھی ہے۔ ان دنوں نجی کاروبار کرتے ہیں۔ بطور نقاد آرٹ، فلم اور ادب کے موضوعات پر لکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔