آصف حنیف
جیو لیرمو دیل تورو (Guillermo del Toro) کی نئی فلم جو اسی مہینے عالمی سطح پر ریلیز کی گئی ہے۔ یہ فلم ولیم لیندسی گریشم کے ناول پر مبنی ہے۔ فلم کا بجٹ 60 ملین ڈالر تھا مگر نقادوں کے فلم میں ہدایتکاری اور فنکاروں کے عمدہ کام کو سراہنے کے باوجود یہ فلم باکس آفس پر کچھ خاص نہیں کر پائی اور بمشکل اپنے بجٹ کے نصف تک کا ریونیو اکٹھا کر پائی ہے۔
یہ فلم ڈارک نیو تھریلر ہے اور ہر انسان اس نوعیت کی فلمیں پسند نہیں کرتا۔ فلم میں اس دور کے ہالی ووڈ کے نامور اداکار شامل ہیں۔ فلم کی کہانی کچھ نئی نہیں ہے جو اس سے پہلے بھی کسی اور انداز اور کرداروں کے ساتھ بیان کی جا چکی ہے۔ سو تماشائیوں کی زیادہ تر دلچسپی فنکاروں کی اداکاری، مکالموں اور فلم کی عکاسی میں زیادہ ہے۔
فلم امریکن کنٹری سائیڈ کے ایک گھر سے شروع ہوتی ہے جہاں فلم کا مرکزی کردار سٹین (براڈلی کوپر) ایک لاش کو گھر کے فرش پر گھسیٹتا ہے اور پھر گھر کو آگ لگا دیتا ہے اور جس لاپرواہی سے وہ گھر کو جلتا ہوا چھوڑ کر چلتا جاتا ہے اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ وہ اپنے ماضی کو پیچھے چھوڑ کر جا رہا ہے۔
اگلے منظر میں سٹین ایک دیہی انداز کی سرکس نما میلے میں جاتا ہے جسکا تعارف اس میں وحشی کا کرتب کرتا ہے کہ یہ کس طرح کی جگہ ہے…چونکہ یہ ایک کمرشل فلم ہے تو بہت سے سوالوں کے جواب نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر وہ وہاں کیوں اور کیسے پہنچتا ہے، اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔
میلے کا مالک سٹین کی حالت بھانپ لیتا ہے اور اس کو رہائش اور کھانے پر وہاں نوکری دیدیتا ہے۔ سرکس کا ماحول بہت عمومی ہے اور ہر طرح کی شعبدہ بازی سے بھرپور شراب نشے اور جرائم پیشہ لوگوں کا گڑھ معلوم ہوتا ہے۔ یہاں اس کی ملاقات زینا (ٹونی کولیٹ) اور اس کے شوہر پیٹ (ڈیوڈ سترٹھن) سے ہوتی ہے۔ دونوں شعبدہ بازی کے ماہر ہیں جہاں زینا سٹین میں دلچسپی دکھاتی ہے وہیں پیٹ سٹین کو اپنے فن سے متاثر کرتا ہے اور وہ انکے اس فن میں دلچسپی لینا شروع کردیتا ہے۔ جب وہ پیٹ سے اس کے گر چوری کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اسے خبردار کرتا ہے جس پر سٹین اسے غلط شراب دے کر مار دیتا ہے اور اسی سرکس کی ایک اور جوان لڑکی ماولی (رونی مارا) کو اس کے ساتھ چل کر بڑے پیمانے پر فن کا مظاہرہ کرنے کی پیشکش کرتا ہے۔ ماولی پہلے ہی اس میں دلچسپی رکھتی تھی، سوسب کچھ چھوڑ کر اس کے ساتھ چل پڑتی ہے۔
اگلے سین میں دونوں سرکس کے بوسیدہ اور نچلے درجہ کی شعبدہ بازی سے نکل کر عالیشان ہوٹلوں میں امرا کے دمیان مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہے جن کو سٹین اپنے فن کے شیشے میں اتار کر رقم بٹورتا ہے اور اپنی محبوبہ کے ساتھ ٹھاٹھ باٹھ والی زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔
ایسی ہی ایک محفل میں اس کا سامنا ماہر نفسیات ڈاکٹر لالیتھ (کیٹ بلانشیٹ) سے ہوتا ہے جسے وہ متاثر کرنے میں کامیاب رہتا ہے اور وہ اسے نجی ملاقات کی دعوت دیتی ہے۔ وہ لالیتھ سے ملنے اس کے آفس جاتا ہے جہاں وہ اس کا دماغ پڑھنے کی کوشش کرتی ہے اور سٹین کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ سٹین کو یہ ایک مینٹل چلینج متاثر کرتا ہے اور وہ دونوں ایک دوسرے پر برتری لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماؤلی اس صوتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے سٹین کو ڈاکٹر لالیتھ سے دور رہنے کو کہتی ہے مگر ڈاکٹر لالیتھ سٹین کی کمزوریوں کو بھانپ کر اسے امرا کو لوٹنے کا موقعہ دیتی ہے اور ایک جال میں پھنساتی ہے۔ ماؤلی اس کو چھوڑ کر جانے لگتی ہے مگر سٹین اس کو صرف آخری بار مدد کرنے کو کہتا ہے اور پھر سب چھوڑنے کا وعدہ کرتا ہے لیکن ڈاکٹر لالیتھ کا جال اس کے زوال کا سبب بنتا ہے اور وہ سب کچھ ہار کر اسی سرکس کے میلے میں واپس جاتا ہے اور کام مانگتا ہے جہاں نیا مالک اس کی بوسیدہ حالات دیکھ کر اسے اسی وحشی کا کام دیتا ہے۔
اداکاری کے لحاظ سے سبھی نے کمال کی اداکاری کی ہے۔ کہانی کیونکہ زیادہ تر سٹین (براڈلی کوپر) کے گرد گھومتی ہے تو انکا کردار فلم میں نمایاں رہتاہے۔ بریڈلی جو آجکل ہالی ووڈ کے صف اؤل کے فنکاروں میں شمار ہوتے ہیں، نے اچھی اداکاری کی ہے۔ صرف کچھ جگہوں پر ایسا لگتا ہے کہ وہ شائد بہتر کر سکتے تھے۔ کیٹ بلانشیٹ جنہوں نے ڈاکٹر لالیتھ کا کردار کیا ہے، انہوں نے باکمال اداکاری کی ہے۔ انکے ساتھ سین میں ایک دو مرتبہ لگا ہے کہ وہ براڈلی پر حاوی ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ براڈلی جو اسی طرز کی اداکاری اس سے پہلے ’اے سٹار از بارن‘ (A Star is Born) میں کر چکے ہیں انہوں نے یہاں بھی آواز کو دبا کر ویسی ہی اداکاری کرنے کو کوشش کی ہے جو اتنی متاثرکن نہیں ہے لیکن ان کے مدمقابل کیٹ بلانشیٹ کی اداکاری نہایت قابل تعریف ہے باقی فنکاروں کے کردارچھوٹے ہیں مگر سبھی نے متاثر کن اداکاری کی ہے۔
فلم کو 1930ء کی دہائی کے پس منظر میں شوٹ کیا گیا ہے۔ فلم چونکہ ایک نیو نویر کے انداز میں شوٹ کی گئی ہے تو روشنی اور سایوں کا استعمال نہایت خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ فلم کی ایڈیٹنگ بھی اچھی ہے۔ فلم لمبی نہیں لگتی اور بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔ فلم کی اوریجنل لوکیشز بفلو سٹی اور کچھ کینیڈا میں ہیں اس کے علاوہ سارے سیٹ بہت عمدہ بنائے گئے ہیں۔ میلے کا ماحول روایتی امریکی انداز کا ہے اور 1930ء میں امرا کے گھر اور ہوٹلوں کے انداز سے دوسری عالمی جنگ اور نازی جرمن کے وقت کی عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ڈاکٹر لالیتھ کا دفترانسانی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوے ڈیزائن کیا گیا ہے جو عالیشان ہونے کے ساتھ ساتھ اعصاب پر دہشت طاری کرتا ہے۔ اس کے پوشیدہ دروازے جیسے کئی راز چھپائے ہوئے ہوں۔ دیواروں کا رنگ، الماریوں کی بناوٹ اور نقش و نگار انسانی سوچ کو قابو میں لینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کے سٹین اور ڈاکٹر لالیتھ کے سین اتنے دلچسپ ہے۔ پھر ان دونوں کے مکالمے نہایت مہارت سے لکھے گئے ہیں۔
اس نوعیت کی فلمیں ہر ایک کو پسند نہیں آتیں جو کہ ہم باکس آفس پر اس فلم کی کارکردگی سے اندازہ لگا سکتے ہیں مگر فلمی طالبعلموں کے لئے اس فلم میں اچھی اداکاری، ہدایتکاری، عکاسی اور اچھے ڈائیلاگ دیکھنے کو ملتے ہیں جیسے سٹین اور ڈاکٹر لالیتھ کے یہ مکالمے:
Stan: What happened to you?
Dr Lalith: Life, life happened to me.
ڈاکٹر لالیتھ کا یہ مکالمہ شاید ہماری آج کی سیاسی صورتحال کو واضح کرتا ہے:
Dr Lalith: If you displease the right people, the world closes to you very very fast.