حارث قدیر
جنوبی وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی علی وزیر سے پیر کے روز پارلیمنٹ لاجز میں مختصر ملاقات ایک طویل تگ و دو کے بعد ممکن ہو پائی۔ ایک گھنٹے تک علی وزیر سے قومی اسمبلی کے اندر اور باہر جاری سیاسی گہما گہمی، نئی اتحادی حکومت کو درپیش مسائل، علی وزیر کی اپنی جدوجہد اور سابق فاٹا کے اضلاع میں لوگوں کے مسائل کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔
علی وزیر کے ساتھ ملاقات کیلئے ہم نے راولاکوٹ سے سفر شروع کیا تو اندازہ تھا کہ ساڑھے 7 بجے تک پارلیمنٹ لاجز کے سی بلاک میں علی وزیر کیلئے سب جیل قرار دیئے گئے فلیٹ میں ان سے ملاقات ممکن ہو جائیگی۔ تاہم ایسا نہ ہوا اور پارلیمنٹ لاجز کو جانے والے راستوں پر پولیس کی رکاوٹوں نے ہمارے اس اندازے کو خاک میں ملا دیا۔
ناکے پر کھڑے پولیس اہلکاران نے دو سے تین گھنٹے بعد گزرنے کی اجازت دینے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے اس ملاقات کو مزید مشکل بنا دیا تھا۔ تاہم کامریڈ چنگیز ملک کی رہنمائی کی بدولت متبادل راستے کا انتخاب کرتے ہوئے ہم بالآخر 9 بجے پارلیمنٹ لاجز میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ علی وزیر ہمارا انتظار کرنے کے بعد لاجز سے باہر جا چکے تھے، لیکن دوبارہ کئے گئے وعدے کے مطابق وہ پورے 10 بجے ہم سے ملاقات کیلئے دوبارہ پارلیمنٹ لاجز میں اپنے فلیٹ پر پہنچ گئے۔
ملاقات میں جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر خلیل بابر، سابق مرکزی صدور راشد شیخ اور بشارت علی خان اورسابق تحصیل چیئرمین سلمان فاروق بھی ہمراہ تھے، پی ٹی یو ڈی سی کے جوائنٹ سیکرٹری ڈاکٹر چنگیز ملک، راولپنڈی اسلام آباد سے آر ایس ایف کے آرگنائزر عمر عبداللہ اور عروبہ ممتاز بھی ہمارے ساتھ پارلیمنٹ لاجز میں پہنچ چکے تھے۔
علی وزیر نے ساتھیوں کے ساتھ گرمجوشی سے ملاقات کرنے کے بعد اپنے حلقہ انتخاب سے آنیوالے بزرگوں اور جوانوں کی خیریت معلوم کی اور ان سے جموں کشمیر سے آئے دوستوں کے ساتھ گفتگو کی اجازت لے کر ہمارے ساتھ محو گفتگو ہوئے۔ اس دوران انہوں نے جموں کشمیر کی سیاست اور مسائل جاننے کی کوشش بھی کی اور پارلیمان میں جاری صورتحال اور نئی حکومت کو درپیش چیلنجوں اور خدشات پر سیر حاصل گفتگو کی۔
سب سے پہلے انہوں نے کہا کہ میں اسمبلی سیشن میں اپنے خطاب کے دوران جموں کشمیر کی صورتحال پر بات رکھوں گا۔ دونوں اطراف کشمیریوں کے ساتھ ایک ہی جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ٹریڈ یونین کے حق پر پابندی کا خاتمہ ہونا چاہیے، گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں فورتھ شیڈول اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کو سیاسی کارکنوں کے خلاف استعمال کرتے ہوئے آزادی اور انقلاب کی آوازوں کو دبانا کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ جمہوریت تو پھر یہ بھی ہے کہ تمام مظلوم قومیتوں کو حق خودارادیت فراہم کیا جائے۔
علی وزیر نے یہ بھی بتایا کہ ان کے ساتھ نئی حکومت کی اہم شخصیات نے ملاقات میں سابق فاٹا کے مسائل حل کرنے کیلئے کام کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے، اس کے علاوہ بلوچ، پشتون اور دیگر قومیتوں کے سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں، غداری اور بغاوت کے مقدمات کا سلسلہ بند کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ہے۔ تاہم ان کے مطابق اس پر کس حد تک عملدرآمد ہو سکتا ہے، یہ آنے والے چند روز میں واضح ہو جائے گا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایسے مضحکہ خیز مقدمات بھی ہیں کہ جن لوگوں نے ہمیں چائے پلائی، یا مختصر وقت میں ان کے گھر پر رکے، یا پھر انہوں نے ہمارے ساتھ تصویر بنوائی ہو، ان پر مقدمہ بنا دیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ انہوں نے چائے کی دعوت میں بیٹھ کر بغاوت یا غداری کا منصوبہ بنایا۔ گھر میں بیٹھ کر یہ منصوبہ بنایا گیا، یا پھر منصوبہ بنانے کے بعد تصویر بنائی گئی۔ جمہوری حقوق مانگنے والوں کو ہراساں کرنے کیلئے اس حد تک چلے جانا تشویشناک عمل ہے۔
علی وزیر کا خیال ہے کہ نئی حکومت زیادہ عرصہ چلتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ اتحادی جماعتوں کے مابین جلد اختلافات سامنے آنے کا امکان بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سابق فاٹا کے اضلاع میں اختیارات سول انتظامیہ کو نہ دیئے جانے کیوجہ سے ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی۔ ترقیاتی منصوبوں میں مکمل طور پر ان اضلاع کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ہمارے لوگوں کو ابھی تک انسان ہی نہیں سمجھا جا رہا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ برابر کا انسان سمجھے جانے کا ہے، روزگار اور ترقی کے مسائل تو بہت دور کی بات ہے۔ ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، ہمارے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں ہے۔ ہم تو مسلسل اس جبر کو برداشت کر رہے ہیں، لیکن یہ اعصاب کی جنگ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس اعصابی جنگ میں ہم ضرور فتحیاب ہونگے۔
انکا یہ بھی کہنا تھا کہ انکا پروڈکشن آرڈر تو لامحدود ہے۔ نئی حکومت کی کچھ شخصیات نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ جب تک چاہیں پارلیمنٹ لاجز میں رہ سکتے ہیں۔ تاہم میں نے انہیں منع کر دیا ہے، جونہی اجلاس ختم ہو گا میں واپس جیل جاؤں گا اور مقدمات کا سامنا کروں گا۔
علی وزیر کو الوداع کہتے ہوئے انہیں ڈاکٹر لال خان کی تین جلدوں پر مبنی منتخب تصانیف بطور تحفہ پیش کی گئیں۔ انہوں نے اس امید اور یقین کے ساتھ ہمیں الوداع کیا کہ اس ظلم اور نا انصافی کے نظام کے خلاف جدوجہد کو مشترکہ طور پر نہ صرف جاری رکھا جائے گا بلکہ وہ وقت دور نہیں جب ہم اس جدوجہد میں فتح یاب ہونگے۔