لاہور (جدوجہد رپورٹ) بائیں بازو کے امریکی جریدے ’جیکوبن‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں معیشت دان ڈویمینک لیوسڈر کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت کی ترقی سے غریب ترین ممالک کے فائدہ اٹھانے اور بحران کے وقت سب سے زیادہ متاثر ہونے کی دلیل آج سے زیادہ پہلے کبھی اتنی موثر نہیں تھی۔
ابھرتی ہوئی منڈیوں (سوائے چین اور بھارت) میں پہلے سے ہی کمزور ترقی کی ایک دہائی 1980ء کی دہائی کے بعد سے ترقی پذیر دنیا کو درپیش بدترین بحران میں ختم ہو رہی ہے۔
انکا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بحران ان کا اپنا نہیں بلکہ اس کی ابتدا دو غیر اقتصادی جھٹکوں و بائی بیماری اور یوکرین میں جنگ کی صورت میں ہوئی ہے۔ وبائی مرض نے سپلائی چین کے ایک غیر یقینی نظام کو تباہ کر دیا۔ طلب اور رسد میں اس عدم مطابقت کو بڑے معاشی محرک پروگراموں کے ذریعے وسیع کیا گیا۔ خاص طور پر امریکہ، جس میں 2.2 ہزار ارب ڈالر کی امدادی رقم نے لاکھوں گھرانوں کی آمدنی میں نقد اضافہ کیا، نتیجے کے طور پر قلت پھیل گئی اور قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
انکے مطابق جنگ اور اس پر مغربی رد عمل نے ان مسائل کو مزید بڑھا دیا۔ سستے زرعی سامان کے برآمد کنندگان پر حملے اور ایک بڑے اجناس برآمد کنندگان پر بے مثال پابندیوں نے غریب اور درآمد پر منحصر ممالک کی صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔ شدید غذائی عدم تحفظ اور معاشی بدانتظامی کا شکار یہ خطے سماجی بدامنی کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔
یمن، افغانستان، سری لنکا، لبنان اور صومالیہ اشیا کے جھٹکے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان ممالک میں طبی آلات کی عدم موجودگی میں مریض لاعلاج ہیں۔ امتحانات کے پرچے نہ ہونے کی وجہ سے سکول بند، کشتیوں میں ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے ماہی گیر اور ان کے خاندان بھوکے اور قحط پھیلنے کی نوبت بھی پہنچ چکی ہے۔
انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ان جھٹکوں کی بنیاد مہنگائی تھی۔ تونائی، اجناس اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں دنیا کے مرکزی بینکوں کو شرح سود میں اضافے پر مجبور کر رہی ہیں۔ تاہم مہنگائی سے لڑنے کیلئے شرح سود میں اضافے کا سہارا لینا بہت زیادہ سماجی اخراجات کا موجب بنتا ہے۔ بڑھتی ہوئی شرح سود ان کمپنیوں پر دباؤڈالتی ہے، جنہیں زیادہ مالی اعانت اور قرض کی فراہمی کے اخراجات کا سامنا ہوتا ہے، جس سے بیروزگاری میں اضافہ، حقیقی آمدنی کو کم کر کے آپریٹنگ اخراجات کم کئے جاتے ہیں۔ اس کی کوئی تاریخی مثال نہیں ہے کہ سخت مالیاتی پالیسیوں کے چکر کے نتیجے میں کساد بازاری نہ ہو۔
انکا کہنا تھا کہ زیادہ تر تجارت ڈالر میں کی جاتی ہے اور زیادہ تر ملک اپنی کرنسیوں میں اہم قرض نہیں حاصل کر سکتے، اس لئے انہیں ڈالر کے ذخائر حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور ایک ملک کا مرکزی بینک ان ذخائر کو استعمال کرے گا۔ تاہم مندی کی صورت میں مستحکم منڈیوں میں محفوظ پناہ گاہ تلاش کرنے والے سرمایہ کار مقامی کرنسی میں متعین اثاثے فروخت کر دینگے۔ یہی سب کچھ موجودہ وقت میں ہو رہا ہے۔ ترقی پذیر مارکیٹوں میں سرمائے کے بہاؤ کے اچانک رک جانے کے بعد بڑے پیمانے پر فروخت ہوئی اور ترقی پذیر ملکوں کو مئی کے وسط تک 61 ارب ڈالر سے زائد کے اخراج کا سامنا کرنا پڑا۔ کرنسیوں کی قدر میں کمی کے ساتھ غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی اہم سامان درآمد کرنے اور قرض کی ادائیگی کیلئے ان ملکوں کو ڈالر تلاش کرنے کیلئے جدوجہد پر مجبور کر رہی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ سستے پیسے کے دور نے بہت سے غریب ملکوں کو اس صورتحال کا شکار بنایا ہے، جب شرح سود کم تھی، ترقی پذیر ملکوں نے قرض لینے میں اضافہ کیا اور ڈالر کے حساب سے مزید قرض جاری ہوا۔ یہ قرض ان کی زرمبادلہ کی کمائی سے ادا کیا جاتا ہے۔ اب وہ ایسی صورتحال کا شکار ہیں، جس میں آمدنی کم ہو رہی ہے۔ ایسے میں شرح سود بڑھ جاتی ہے تو قرض کی خدمت کے اخرجات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
شرح سود میں اضافے کیوجہ سے ترقی پذیر ملکوں کا قرضہ عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے تیزی سے بڑھ کر 30 فیصد زیادہ ہو گیا ہے۔ نتیجتاً ترقی پذیر ممالک کی وجہ سے دنیا میں قرضوں کی پریشانی میں اضافہ ہوا اور قرضوں کا ذخیرہ حکومتی محصولات کے 250 فیصد تک بڑھ گیا، جو کہ پچاس سال کی بلند ترین سطح ہے۔
آنے والے مہینوں میں اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے قرضوں کے بحران کی طرف تبدیلی نظر آئے۔ معاشی واقعات سے عالمی سماجی بے چینی اور بدترین صورتحال میں قحط جیسی صورتحال ابھر سکتی ہے۔ اس وقت چاول، گندم اور مکئی کی قیمتیں تاریخی بلندیوں پر ہیں۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈویڈ بیسلی نے مارچ کے آخر میں متنبہ کیا تھا کہ ”اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہمیں اب زمین پر جہنم مل گئی ہے تو آپ تیار ہو جائیں۔“
عالمی بینک کے ایک مطالعے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ’خوراک کی قیمتوں میں ہر ایک فیصد اضافے کیلئے دنیا بھر میں 10 ملین لوگ انتہائی غربت میں دھکیلے جاتے ہیں۔‘
اس نظام کی اصلاحات کے امکانات کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ ڈالر کے دنیا کی کلیدی کرنسی کے طور پر خطرے سے دو چار ہونے کے حالیہ اعلانات کے باوجود دنیا کی کلیدی کرنسی کے طور پر آج سے زیادہ ڈالر کبھی مضبوط نہیں ہوا۔ اس کی بڑی وجہ کسی حقیقی متبادل کی عدم موجودگی، یورپ کے پاس مساوی محفوظ اثاثہ نہ ہونے اور چین کے سرمائے پر کنٹرول برقرار رکھنے کی وجہ سے ہے۔
تاہم اہم سوال ڈالر کے نظام کے مستقبل کی حیثیت سے نہیں بلکہ یہ ہے کہ کیا ذمہ دار معاشی اداکار اب اس نظام کے اندر رہتے ہوئے بہت سارے ممالک کو بہتر بنانے کے قابل ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ غریب ممالک جن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں وہ بہت بڑے ہیں اور عالمی مالیاتی اداروں کا مجموعہ (آئی ایم ایف وغیرہ) بہت چھوٹے ہیں۔ یعنی ان کے پاس اتنی مالی طاقت نہیں ہے جو کہ سرحد پار سرمائے کے بہاؤ کے حجم اور عالمی قرضوں کے ذخیرے کے لحاظ سے ان ممالک کو لیکویڈیٹی فراہم کرنے کیلئے ضرورت ہے۔ اداروں کے سیاسی و معاشی وزن اور مسائل کے حجم میں عدم مطابقت کی وجہ سے یہ ادارے ترقی پذیر ملکوں کی معیشتوں سے غیر متعلق ہوتے جا رہے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ وبائی بیماری اور جنگ نے ایک فعال نظام میں خلل نہیں ڈالا، تاہم بحران نے اس نظام کے ڈھانچے کو ظاہر کرنا تھا جس کے ذریعے سے اس وقت پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وبا اور جنگ نے اس نظام کی عدم موجودگی کو ظاہر کیا، بحران کو عیاں کیا ہے۔ کسی بھی بین الاقوامی اقتصادی آرڈر کی بات کرنا اس حقیقت کو جھٹلاتا ہے کہ عالمی معیشت ایک انتشاری یا اپنی مدد آپ کا نظام بنی ہوئی ہے، جس میں ریاستوں کو تحفظ پسند معاشی پالیسیوں میں شامل ہونے کی ترغیب دی جاتی ہے اور وہ اس پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ ڈالر کا نظام اور یقینا یہ پورا نظام جان بوجھ کر امریکی ریاستی دباؤ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ آزاد سرمائے کی عالمی معیشت کا نتیجہ ہے۔