لاہور (جدوجہد رپورٹ) اپنے پیش رو کی طرح قومی اسمبلی کے موجودہ سپیکر راجہ پرویز اشرف بھی رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے ہچکچاتے نظر آ رہے ہیں۔
’ڈان‘ کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی کی اس ہچکچاہٹ کی وجہ سے انکی اپنی پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل کو عوامی فورم پر جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا پڑا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل فرحت اللہ خان بابر نے نئی مخلوط حکومت کی طرف سے ایوان زیریں میں وفاقی بجٹ پیش کرنے کے ایک دن بعد ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ”میں قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کریں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے ہم نے ہمیشہ اس کا مطالبہ کیا ہے اور بلاول بھٹو زرداری نے اس وقت سپیکر کو خط بھی لکھا۔ پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کی کوئی وجہ، کوئی وضاحت کافی نہیں ہے۔“
علی وزیر کراچی میں مبینہ ریاست مخالف تقاریر کے الزام میں گزشتہ 17 ماہ سے جیل میں ہیں۔ وہ جنوبی وزیرستان کے قبائلی ضلع کے حلقہ این اے 50 سے آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہوئے تھے۔ انکی گرفتاری کے بعد ان کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کا معاملہ ہر اسمبلی اجلاس میں ہی اٹھایا جاتا رہا۔ تاہم رواں سال اپریل میں سپریم کورٹ کی مداخلت پر ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے گئے تھے۔
تاہم نئی حکومت میں بھی علی وزیر جیل میں ہی ہیں اور ان کی درخواست ضمانت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے منظور ہونے کے باوجود نئے مقدمات میں ان کی گرفتاری ظاہر کی گئی ہے۔ عدالتی تاخیری حربوں کے باعث ضمانت کی درخواست پر سماعت کا سلسلہ مسلسل موخر کیا جا رہا ہے۔
علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے کے بعد ان کے مسلسل جیل میں رہنے کا معاملہ ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا کی زینت بن چکا ہے۔ مختلف سیاسی و سماجی شخصیات انصاف کے دہرے معیار پرذمہ داران کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
سینئر صحافی و اینکر پرسن حامد میر نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ”قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر کو سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت مل چکی ہے لیکن وہ بدستور جیل میں ہیں، انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا، صرف ایک تقریر کی تھی، افسوس پولیس کانسٹیبل کا محب وطن قاتل رہا ہو گیا لیکن علی وزیر رہا نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے مخالف قانون سے زیادہ طاقتور ہیں۔“
ایڈووکیٹ شفیق احمد نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ”ماڈل ٹاؤن واقعہ میں پولیس کانسٹیبل کمال احمد کے قاتل میجر (ر) ساجد حسین کو صرف 20 دن کے اندر ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے اور یہ سہولت صرف فوجیوں کو حاصل ہے ورنہ اس وقت پاکستانی جیلوں میں بکری چوری جیسے معمولی اور جھوٹے مقدمات میں ہزاروں افراد کئی کئی سال سے جیل میں بند ہیں۔“