خبریں/تبصرے

پروفیسر گوپی چند نارنگ: جب وہ سٹیج پر آتے تو لگتا متحدہ ہندوستان مخاطب ہے

لاہور (جدوجہد رپورٹ) ممتاز اردو اسکالر پروفیسر گوپی چند نارنگ بدھ کے روز امریکی ریاست نارتھ کیرولینا میں مختصر علالت کے بعد فوت ہو گئے۔ وہ 91 سال کے تھے اور ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ منورما نارنگ، دو بیٹے ارون نارنگ، ترون نارنگ اور پوتے پوتیاں ہیں۔

’ٹربیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال کئی اردورسائل نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی زندگی اور ادب میں ان کی خدمات کو سراہنے کیلئے کئی شمارے شائع کئے۔ دور درشن اور بی بی سی سمیت بہت سے معروف میڈیا اداروں نے ان کے کام اور خدمات پر نایاب ریکارڈنگز اور دستاویزی فلمیں تیار کیں۔

ان کے کام کی تنقیدی تعریف اور جائزہ پیش کرنے کیلئے درجنوں کتابیں اور مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ پروفسیر نارنگ نے حالیہ برسوں میں مصنف اور مترجم سریندر دیول کے ساتھ کام کرتے ہوئے میر تقی میر، غالب اور اردو غزل پر اپنی اہم تخلیقات کے انگریزی ترجمے شائع کئے ہیں۔

انعامات و اعزازات

گوپی چند نارنگ کو اپنی خدمات کے عوض متعدد اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ بھارت میں پدم بھوشن کے خطاب کے علاوہ پاکستان میں بھی انہیں متعدد انعامات اور اعزازت سے نوازا گیا تھا۔ 2012ء میں انہیں پاکستان میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔ چند ماہ قبل تک وہ ساہتیہ اکادمی کے صدر تھے، جو بھارت کی 24 زبانوں میں ہندوستانی ادب کے فروغ کیلئے وقف ہے۔

ساہتیہ اکادمی نے نارنگ کی پروفائلز میں رقم کیا کہ ”پروفیسر گوپی چند نارنگ ایک ممتاز نظریہ نگار، ادبی نقاد اور سکالر ہیں، جن کی ادراک پر مبنی تحریروں میں توجہ مرکوز تنقیدی ذہانت کے ثمرات ہیں، انہوں نے اردو تنقید کو تھیوری سے گریز کرنے میں خود کو تھیم پر مبنی تشخیص کے بندھن سے باہر نکالنے میں مدد فراہم کی۔ تنقید کو ایک آرام دہ سرگرمی کے طور پر سمجھنے سے دور پروفیسر نارنگ نے اسلوب نگاری، ساختیات، مابعد ساختیات اور مشرقی شاعری کو قابل ذکر گہرائی اور تخیل کے ساتھ جوڑ کر ادبی تشخیص کے علمی اور نظریاتی فریم ورک کو تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔“

زندگی اور میراث

پروفیسر گوپی چند نارنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ممتاز ناول نگار انتظار حسین نے ایک بار کہا تھا کہ ”جب وہ پاکستان آتے ہیں تو پروفیسر گوپی چند نارنگ متحدہ ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ میں یہ کسی اور کے بارے میں نہیں کہہ سکتا۔ جب وہ اسٹیج پر آتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہندوستان پوری طرح ہم سے مخاطب ہے۔“

ہندی کے ممتاز ادیب کملیشور نے اردو زبان میں پروفیسر نارنگ کی تنقیدی ادبی خدمات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر ہندوستانی زبان کو ایک گوپی چند نارنگ کی ضرورت ہے۔ افسانہ نگار قرۃ العین حیدر نے پروفیسر نارنگ کو اردو کا احیا کار قرار دیا ہے۔

معروف شاہر گلزار نے انہیں کہا تھا کہ ”دو پاؤں سے چلتا دریا، ایک پاؤں پر ٹھہری جھیل، جھیل کی نابی پر رکھی ہے، اردو کی روشن قندیل۔“

سفر زندگی

پروفیسر نارنگ 1930ء میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع بلوچستان کے چھوٹے سے قصبے دکی میں پیدا ہوئے۔ 1958ء میں دہلی یونیورسٹی سے اردو ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پروفیسر نارنگ نے دہلی کے سینٹ سٹیفنز کالج میں ایک تعلیمی پوزیشن حاصل کی جو 1959ء میں دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں مستقل جگہ کیلئے سنگ میل ثابت ہوئی۔

انہوں نے متعدد غیر ملکی یونیورسٹی میں بطور وزٹنگ اسکالر کام کیا، جن میں میڈیسن کی وسکونسن یونیورسٹی، مینیاپولس کی مینیسوٹا یونیورسٹی اور ناروے کی اوسلو یونیورسٹی شامل ہیں۔ دہلی یونیورسٹی سے وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی چلے گئے، جہاں انہوں نے شعبہ اردو کی سربراہی کی۔

وہ جامعہ ملیہ اور دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ایمیریٹس کے عہدے پر فائز رہے۔ تدریس کے علاوہ پروفیسر نارنگ 1996ء سے 1999ء تک دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئرمین رہے، 1998ء سے 2004ء تک اردو زبان کی قومی کونسل برائے فروغ اردو (ایچ آر ڈی) کے وائس چیئرمین رہے اور ساہتیہ اکیڈمی کے 1998ء سے 2002ء تک نائب صدر اور 2003ء سے 2007ء تک صدر بھی رہے ہیں۔

خدمات پر خراج عقیدت

پروفیسر گوپی چند نارنگ کی وفات پر برصغیر پاک و ہند سمیت دنیابھر سے لوگوں نے رنج و غم کا اظہار کیا اور ان کی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ ٹویٹر اور سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس پر صارفین ان کی خدمات پر انہیں خراج پیش کر رہے ہیں۔

ایک صارف نے لکھا کہ ”پروفیسر صاحب ایک انڈوپاک تھیورسٹ، ادبی نقاد اور سکالر تھے، جنہوں نے اردو اور انگریزی میں لکھا“۔

ایک صارف نے لکھا کہ ”اردو کے عظیم ادیب، نقاد اور ماہر لسانیات پروفیسر گوپی چند نارنگ کی وفات اردو اور تمام ہندوستانی زبانوں کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ یہ آزاد ہندوستان میں تحریروں کے ایک عظیم باب کا خاتمہ ہے۔ میرے لئے ایک ذاتی نقصان، جیسا کہ وہ کئی دہائیوں سے خاندانی دوست تھے۔“

ایک ٹویٹ میں لکھا گیا کہ ”اردو کے صف اول کے سکالرز، نقادوں اور نظریہ نگاروں میں سے ایک گوپی چند نارنگ نہیں رہے۔ 91 سالہ گوپی چند نارنگ نے آج امریکہ میں آخری سانس لی۔ ان کی اردو ادبی تنقید میں نظریاتی ڈھانچے کو شامل کیا گیا ہے۔ سٹائلسٹکس، ساختیات، مابعد ساختیات وغیرہ۔“

آل انڈیا ریڈیو نے بھی ٹویٹر پر ان کی وفات کا اعلان کیا اور ٹویٹ میں لکھا کہ ”اردو کے سب سے قابل احترامنقاد، نظریہ دان اور ماہر لسانیات پروفیسر گوپی چند نارنگ فوت ہو گئے۔ وہ 91 برس کے تھے۔“

Roznama Jeddojehad
+ posts