خبریں/تبصرے

ملکی اثاثے فروخت کرنے کیلئے تمام ’قوانین سے بالا‘ آرڈیننس منظور

لاہور (جدوجہد رپورٹ) ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے نام پر وفاقی کابینہ نے ریاستی اثاثے بیرونی ملکوں کو فروخت کرنے کیلئے تمام رائج الوقت طریقہ کار کوبائی پاس کرنے کیلئے ایک آرڈیننس کی منظوری دی ہے۔ آرڈیننس کے اطلاق سے 6 متعلقہ قووانین کے اطلاق سمیت ریگولیٹری چیک بھی ختم ہو جائیگا۔

’انٹر گورنمنٹل کمرشل ٹرانزکشن آرڈیننس‘ کے ذریعے مرکز نے خود کو اختیار دیا ہے کہ وہ صوبائی حکومتوں کو حصول اراضی کیلئے ہدایات جاری کر سکے۔ تاہم صدر مملکت نے ابھی تک اس آرڈیننس پر دستخط نہیں کئے ہیں۔

’ٹربیون‘ کے مطابق حکومت نے آرڈیننس کے تحت ملکی عدالتوں کو بھی روک دیا ہے کہ وہ سرکاری کمپنیوں کے اثاثوں اور حصص کی بیرونی ملکوں کو فروخت کے خلاف کسی بھی درخواست پر سماعت نہیں کر سکیں گی۔

کابینہ نے جمعرات کو یو اے ای کو تیل اور گیس کمپنیوں اور حکومتی ملکیتی پاور پلانٹس کے حصص فروخت کرنے کیلئے آرڈیننس کی منظوری دی تھی تاکہ ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے 2 سے 2.5 ارب ڈالر اکٹھے کئے جا سکیں۔

یو اے ای نے مئی میں گزشتہ قرضوں کی واپسی میں ناکامی کی وجہ سے نقد رقم دینے سے انکار کر دیا تھا، اس کی بجائے سرمایہ کاری کیلئے اپنی کمپنیاں کھولنے کو کہا تھا۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے رواں ہفتے کہا تھا کہ نجکاری کے ایک لین دین کو مکمل کرنے میں عموماً 471 دن لگتے ہیں۔ حکومت کو فوری طور پر فنڈز اکٹھا کرنے کیلئے دنوں میں بیرونی ملکوں کے ساتھ معاہدے کرنا ہونگے۔

آئی ایم ایف نے شرط رکھی ہے کہ پاکستان کا کیس اس وقت تک بورڈ میں نہیں لے جایاجا سکتا، جب تک وہ دوست ملکوں سے 4 ارب ڈالر کا بندوبست نہیں کر لیتا تاکہ فنانسنگ کے فرق کو پر کیا جا سکے۔

تاہم آرڈیننس نے شفافیت کے حوالے سے بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے، جن میں ماڑی گیس کمپنی، آئل گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ اور پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے حصص کی قیمتوں کا تعین ان کی کتابی قیمتوں کے مقابلے میں کم مارکیٹ قیمت پر کیا گیا ہے۔

دستاویزات کے مطابق آرڈیننس ایک بین الحکومتی فریم ورک معاہدے کے تحت تجارتی لین دین کیلئے ایک طریقہ کار فراہم کرے گا تاکہ غیر ملکی ریاستوں کو پاکستان کے ساتھ اقتصادی اور کاروباری تعلقات کو فروغ دینے، راغب کرنے کے علاوہ ان کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔

بین الحکومتی تجارتی لین دین پر کابینہ کمیٹی تشکیل دی جائیگی، جس کے پاس پارلیمنٹ کے 6 ایکٹ بائی پاس کرنے سمیت وسیع اختیارات ہونگے۔

آرڈیننس وفاقی کابینہ کو اتنا طاقتور بناتا ہے کہ وہ صوبوں کو زمین کا کوئی بھی ٹکڑا حوالے کرنے اور کسی غیر ملکی ریاست کیساتھ لین دین کرنے کی پابند ہدایات بھی جاری کر سکتی ہے۔

آرڈیننس کے مطابق کابینہ کمیٹی کے فیصلوں کو نہ تو عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی تحقیقاتی ایجنسی ان سودوں کی تحقیقات کر سکتی ہے۔

آرڈیننس کا دائرہ کار تمام تجارتی لین دین تک بڑھایا جائیگا، جس میں فروخت، خریداری، سرمایہ کاری، تقسیم، خریداری، لائسنسنگ، لیز، مشترکہ منصوبہ، اسائنمنٹس، مراعات، خدمات کے معاہدے، انتظامی معاہدے یا دیگر سودے شامل ہیں۔

بین الحکومتی تجارتی لین دین کی کابینہ کمیٹی وفاقی حکومت اور غیر ملکی ریاست کی حکومت کے درمیان جی ٹو جی معاہدے کے لئے مذاکرات کی اجازت دے گی۔ یہ تجارتی معاہدوں کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے گی اور قیمت دریافت کرنے کے طریقہ کارکی منظوری بھی دے گی۔

ٹربیون کے ذرائع کے مطابق پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں گراوٹ کی وجہ سے شفافیت کی عدم موجودگی اور اسٹاک کی کم قیمتوں کی وجہ سے قیمتوں کی دریافت کا طریقہ کار متنازعہ بن سکتا ہے۔

کابینہ کمیٹی کو رکاوٹوں یا مشکلات کو دور کرنے کیلئے ضروری ہدایات دینے کا اختیار ہو گا۔ وفاقی حکومت صوبائی حکومت، مقامی حکومت یا ایجنسی یا متعلقہ اتھارٹی کو بین الحکومتی تجارتی لین دین کے مقصد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مناسب ہدایات جاری کر سکتی ہے، جس میں زمین کا حصول، بحالی اور آبادکاری، یوٹیلٹی سروسز کی فراہمی، رسائی کے لئے شاہراہوں اور دیگر ذرائع کی تعمیر وغیرہ شامل ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ ایل این جی سے چلنے والے دو پاور پلانٹس کی زمین مشینری سمیت ایک ملک کو فروخت کرنے کیلئے اختیارات حاصل کر لئے گئے تھے۔

وفاقی حکومت کسی بھی بین الحکومتی تجارتی لین دین کو اس آرڈیننس کے مقاصد کیلئے کسی بھی قانون کیلئے ضروری ریگولیٹری ضرورت یا آپریشن سے مستثنیٰ قرار دے سکتی ہے۔

یہ واضح شق کمپنیز ایکٹ، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن ایکٹ، پرائیویٹائزیشن آرڈیننس اور دیگرمتعلقہ قوانین سے تجاوز کرتے ہوئے حکومتی حصص کی فروخت کو مختصر کرنے کیلئے متعارف کروائی گئی ہے۔

آرڈیننس کے مطابق ملک کی کوئی بھی عدالت غیر ملکی ادارے کو اثاثوں کی فروخت کے کسی عمل کے خلاف درخواست، پٹیشن یا مقدمہ نہیں سن سکتی، تاہم ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ عدالتیں ایسی بے دخلی کی شقوں کو قبول نہیں کرتیں۔

آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی عدالت کسی تجارتی لین دین یا معاہدے کیلئے کئے گئے کسی عمل کے خلاف حکم امتناعی یا حکم امتناعی کی درخواست پر غور نہیں کرے گی۔ جو لوگ ان اثاثوں کو بیچنے میں ملوث ہونگے ان کے خلاف کوئی مقدمہ، استغاثہ یا کوئی دوسری قانونی کارروائی یا ہرجانے کی کارروائی کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح کوئی بھی تفتیشی ایجنسی، اینٹی گرافٹ ایجنسی، قانون نافذ کرنے والی ایجنسی یا عدالت آرڈیننس کے تحت کسی تجارتی لین دین یا معاہدے میں کسی بھی شخص کی طرف سے کسی طریقہ کی خرابی یا بے ضابطگی کی انکوائری یا تحقیقات شروع نہیں کر سکتی، جب تک کہ معاہدے کے کسی بھی فریق کو دیئے گئے ناجائز فائدے سے اس طرح کے مالیاتی فائدے کے درمیان تعلق کے تصدیقی ثبوت کے ساتھ فائدہ موجود نہ ہو۔

کسی بھی شخص کے خلاف اس کی ذاتی حیثیت میں اس کی سرکاری حیثیت میں کی گئی کارروائی پر مقدمہ نہیں کیا جائیگا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts