لاہور (جدوجہد رپورٹ) میانمار کی فوج نے 4 جمہوریت پسند کارکنوں کو پھانسی دے دی ہے۔ سابق رکن پارلیمنٹ فاؤزیاتھاؤ سمیت ان چاروں پر دہشت گردی کی کارروائیوں کا الزام لگایا تھا گیا۔
’بی بی سی‘ کے مطابق انہیں بند کمرے میں ٹرائل کے بعد موت کی سزا سنائی گئی، جس پر انسانی حقوق کے گروپوں نے تنقید کی کہ وہ نا انصافی ہے۔
یہ میانمار میں کئی دہائیوں کے بعد دی جانے والی پہلی موت کی سزا ہے، جس کی دنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔
پھانسی کی سزا پانے والے کوجمی 1988ء کی طلبہ بغاوت کا حصہ رہنے والے ایک سرگرم جمہوریت نواز کارکن تھے۔ وہ اپنی اہلیہ، ساتھی کارکن نیلرتھین کے ساتھ جمہوریت نواز تحریک کے علمبرداروں میں شمار کئے جاتے تھے۔ 2007ء کے مظاہروں میں بھی وہ سرگرم رہے تھے۔ 2012ء میں رہا ہونے سے قبل وہ اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے جیلوں میں رہے۔
انہیں گزشتہ سال اکتوبر میں ینگون کے ایک اپارٹمنٹ میں اسلحہ اور گولہ بارود چھپانے اور قومی اتحاد کی حکومت کا مشیر ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
سزا پانے والے 41 سالہ فاؤزیاتھاؤ ایک سابق ہپ ہاپ سٹار تھے، جو این ایل ڈی کے قانون ساز بنے۔ ان کے بینڈ ایسڈ نے میانمار کا پہلا ہپ ہاپ البم ریلیز کیا، ان کی دھنوں میں فوج پر باریک تنقید کی وجہ سے فوجی جنتا کو ان پر غصہ تھا۔ وہ آہستہ آہستہ جمہوریت کی حامی آنگ سان سوچی کے قریبی اتحادی بن گئے اور اکثر بین الاقوامی ملاقاتوں میں ان کے ساتھ جاتے تھے۔ انہیں نومبر میں انسداد دہشت گردی کے مبینہ جرائم میں گرفتار کیا گیا تھا۔
جمی کو اور فاؤزیا تھاؤ کی جون میں سزا کے خلاف اپیلیں مسترد ہو گئی تھیں۔
سزا پانے والے 2 دیگر کارکنوں کے بارے میں کم معلومات ہیں۔ ہلامیو آنگ اور آنگ تھورازاؤ کو ایک خاتون کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔ اس خاتون سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مبینہ طور پر جے یو کی مخبر تھی۔