خبریں/تبصرے

کمرشل کوہ پیمائی: گندگی کی وجہ سے کے ٹوکچرے کا ڈھیر بن گیا

لاہور (جدوجہد رپورٹ) گزشتہ ماہ پاکستان کی سب سے بلند اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو ابھی تک کے اپنے مصروف ترین سیزن کی وجہ سے سرخیوں میں رہی ہے۔ رواں سیزن میں 200 سے زائد کوہ پیمائی کے اجازت نامے جاری کئے گئے اور بہت سے عالمی ریکارڈ بھی قائم کئے گئے، جن میں سے زیادہ تر خواتین نے بنائے۔ تاہم اب پاکستانی کو پیماہ مصروف کوہ پیمائی کے سیزن کے منفی پہلوؤں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، خاص طور پر کوڑا کرکٹ اور گندگی کی بہتات دکھائی دے رہی ہے۔

’نیا دور‘ کے مطابق ایک پاکستانی کوہ پیما، جو ’ناردرنر‘کے نام سے ٹویٹر پر موجود ہیں، نے اپنے ایک ٹویٹ میں پہاڑ کی ایک ویڈیو فوٹیج شیئر کی ہے۔ ویڈیو میں لاوارث چھوڑے گئے کیمپوں، نیلے آکسیجن ٹینکوں اور شرپا کی رسیوں کے جال دکھائی دیتے ہیں۔

انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ ’کمرشل کوہ پیمائی کا طریقہ کے ٹو کو ’ڈمپسٹر ماؤنٹین‘ (کچرے کا پہاڑ) میں تبدیل کر رہا ہے۔‘

انہوں نے لکھا کہ ’ہر کلائنٹ اپنے ساتھ دو امدادی عملے کے ارکان کو لاتا ہے، جنہیں اپنے اضافی آکسیجن ٹینک، خیمے اور کھانا لانا ہوتا ہے اور انسانی فضلہ پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ پائیدار سیاحت اور ماحولیات کیلئے ہماری درخواست ہے کہ تجارتی تنظیموں پر پابندی لگائی جائے اور اسے صرف ’پیورسٹوں‘ کیلئے رکھا جائے۔‘

انہوں نے اپنے ٹویٹ میں وفاقی حکومت اور گلگت بلتستان کی حکومت کے ٹویٹر اکاؤنٹس کو بھی ٹیگ کرتے ہوئے تجارتی مہمات پر پابندی لگا کر پہاڑی ماحولیاتی نظام اور گلیشیئرز کو بچانے کیلئے فوری اقدامات کی درخواست کی ہے۔

دیگر کوہ پیماؤں نے بھی پہاڑ پر گندگی کی بڑھتی ہوئی مقدار کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نہ صرف ماحولیات کیلئے تباہ کن ہے بلکہ یہ خطرناک بھی ہے۔ بچ جانے والی رسیوں سے یہ جاننا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سی رسیاں اب بھی فعال ہیں اور استعمال کیلئے محفوظ ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts