خبریں/تبصرے

جموں کشمیر: بجلی کے بل جمع کرانے سے انکار، ’عوامی حقوق تحریک‘ کا اعلان

راولاکوٹ (نامہ نگار) پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بجلی کے بلات پر ناجائز ٹیکسوں کے خاتمے، بجلی کی لوڈشیڈنگ سے استثنیٰ، گندم پرسبسڈی کی فراہمی سمیت آئینی و سیاسی حقوق کی بازیابی کیلئے ’عوامی حقوق تحریک‘ کے آغاز کا اعلان کیا گیا ہے۔ تمام شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ جب تک بجلی کے بلات سے ہر طرح کے ٹیکسوں کا خاتمہ اور از سرنوٹیرف مرتب نہیں کیا جاتا، تب تک بجلی کے بلات جمع نہ کرواتے ہوئے سول نافرمانی کی تحریک کا حصہ بنیں۔ تحریک کا باضابطہ آغاز یکم ستمبر کو راولاکوٹ میں جلسہ عام سے کیا جائے گا، جس کے بعد پورے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں احتجاجی ریلیاں، جلسے اورجلوس منعقد کئے جائیں گے۔ تحریک کو تمام مطالبات تسلیم ہونے تک ہر صورت جاری رکھنے کا اعلان کیاگیا ہے۔

یہ اعلانات چیئرمین جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سردار محمد صغیر خان، پیپلز ریولوشنری فرنٹ (پی آر ایف) کے ترجمان زاہد اقبال ایڈووکیٹ، نیشنل یوتھ فیڈریشن (این وائے ایف) کے صدر توصیف خالق، جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (جے کے این ایس ایف) کے مرکزی صدر خلیل بابراور جموں کشمیر سٹوڈنٹس لبریشن فرنٹ (جے کے ایس ایل ایف) کے رہنما انوش بٹ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کئے۔ اس موقع پر ان تنظیموں کے درجنوں رہنما اور کارکنان بھی موجود تھے۔

سردار محمد صغیر خان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے 11 رکنی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا۔ انکا کہنا تھا کہ ساڑھے 3 ہزار میگا واٹ ہائیڈل بجلی اس خطے سے پیدا ہوتی ہے، جبکہ اس خطے کی ضرورت محض 430 میگا واٹ ہے۔ اس خطے میں کا اپنا ریاستی گرڈ قائم کرتے ہوئے مقامی ضرورت پوری کرنے کے بعد باقی بجلی نیشنل گرڈ کو فراہم کی جائے۔ اس خطے کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے مکمل مستثنیٰ قرار دیا جائے۔

بجلی کے بلات پر بے جا ٹیکسوں کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جائے اور عوامی نمائندگان کی مشاورت سے بجلی کا ٹیرف مقرر کیا جائے۔ حکومت پاکستان کے اداروں کے ساتھ بجلی کے ٹیرف سے متعلق کئے گئے تمام معاہدے اور نوٹیفکیشن منسوخ کئے جائیں۔ یہ سراسر ظلم ہے کہ 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ بجلی پاکستان سے حاصل کر کے یہاں 7، 10، 13 اور 19 روپے یونٹ تک فراہم کی جا رہی ہے اور اس پر جی ایس ٹی، سرچارجز اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سمیت انکم ٹیکس کے نام پر بھاری بھرکم ٹیکس عائد کر کے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ یہ ظلم اور زیادتی کسی صورت قبول نہیں کی جائیگی۔

انکا کہنا تھا کہ گندم پر سبسڈی فراہم کرتے ہوئے آٹا کی قیمتیں گلگت بلتستان میں مقرر شدہ قیمتوں کے برابر مقرر کی جائیں۔ آٹا کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے غریب کے منہ سے سوکھی روٹی کا نوالہ تک چھینا جا رہا ہے، جبکہ دوسری طرف حکمران اشرافیہ اور نوکر شاہی عیاشیوں میں مصروف ہے۔ تمام بے جا مراعات کا بیک جنبش قلم خاتمہ کرتے ہوئے آٹا پر سبسڈی کیلئے رقم مختص کی جائے۔

ٹورازم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کی کوششیں فوری طور پر ترک کی جائیں۔ سیاحتی مقامات تک رسائی کیلئے جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر کرتے ہوئے مقامی آبادیوں کو امپاور کیا جائے۔ حکومت اور مقامی آبادیوں کے اشتراک سے سیاحت کے فروغ کی پالیسی مرتب کی جائے۔ نجی بینکوں کو ڈیپازٹس کا 25 فیصد مقامی آبادیوں کو کارپوریٹ قرضے فراہم کرنے کا پابند کرنے کیلئے فوری احکامات جاری کئے جائیں، تاکہ سیاحت، باغبانی، زراعت اورچھوٹی انڈسٹری کے قیام میں مقامی آبادیوں کو خودکفیل کیا جا سکے۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں تعمیر ہونے والے تمام ٹیموں کی ملکیت مقامی حکومت کو فراہم کی جائے۔ بالخصوص ہولاڑ ڈیم کی سو فیصد اور آزاد پتن ڈیم کی پچاس فیصد ملکیت حکومت پنجاب کے حوالے کئے جانے کے معاہدوں کو فی الفور منسوخ کیا جائے۔ دونوں ڈیموں کی ملکیت مقامی حکومت کے نام منتقل کی جائے۔ ڈیموں پر ملازمتوں، فشنگ اور بوٹنگ کیلئے جموں کشمیر کے لوگوں کو ترجیحی مواقع فراہم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کیا جائے۔

انکا کہنا تھا کہ اس خطے میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان عرب سے یورپ، امریکہ اور افریقہ تک محنت فروخت کرنے کیلئے معاشی ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ بھاری رقوم غیر ملکی زرمبادلہ کی مد میں بھیجی جاتی ہیں، لیکن ان رقوم سے نجی بینکوں کے کاروبار عروج پر ہیں، جموں کشمیر بینک کو شیڈول بینک کا درجہ دیتے ہوئے اسے اسٹیٹ بینک قرار دیا جائے تاکہ غیر ملکی زرمبادلہ براہ راست اس بینک کے ذریعے بھیجا جا سکے اور اس زرمبادلہ کو استعمال کرتے ہوئے اس خطے میں معاشی خوشحالی کیلئے اقدامات کئے جا سکیں۔

چپڑاسی کی ملازمت سے لیکر 21 ویں گریڈ تک کی ملازمت کے حصول سمیت سیاسی جماعت کی رجسٹریشن اور انتخابات میں حصہ لینے تک کیلئے جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر یقین رکھنے کا حلف اٹھانے اورحلف نامہ جمع کروانے کی شرط فوری طور پر ختم کی جائے۔ یہ ایک غیر انسانی اور غیر آئینی اقدام ہے جو اس خطے کے لوگوں پر بزور طاقت مسلط کیا جا رہا ہے۔ یہ قبیح شرط آئین پاکستان کے بھی منافی ہے، بنیادی انسانی حقوق کے بھی منافی ہے۔

مہنگائی کے تناسب سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، یہ 15 اور 20 فیصد اضافے کے نام پر ملازمین کے ساتھ مذاق بند کیا جانا چاہیے۔ مہنگائی کے تناسب میں 40 سے 50 فیصد تک کا اضافہ ہو چکا ہے، تنخواہوں میں گزشتہ 9 سال سے چند فیصد ہی اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یوں مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ کمی ہو رہی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ جموں کشمیر کی تقسیم کو مستقل کرنے کے کسی منصوبے کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ بدترین نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ کرنے کیلئے معاہدہ کراچی اور ایکٹ 74 کو فی الفور منسوخ کیا جائے۔ ایکٹ کو عبوری آئین کے لبادے میں لپیٹ کر غلامی کی اس بدترین دستاویز کو آئین قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 4 اور 24 اکتوبر 1947ء کی حکومت کے اعلامیہ کے مطابق آئین سازی اور حکومت سازی کا اختیار دیا جائے۔ گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں آئین سازی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد کیا جائے تاکہ منتخب عوامی نمائندگان آئین سازی کا فریضہ سرانجام دے سکیں۔

سردار صغیر خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ان تمام مطالبات کے گرد یکم ستمبر کو راولاکوٹ میں ایک بڑے عوامی جلسے سے تحریک کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ تمام ترقی پسند، روشن خیال اور انسان دوست شہری اور نوجوان اس جلسہ میں بھرپور شرکت کریں۔ اس تحریک کو تمام 10 اضلاع میں شہروں اور دیہاتوں تک پھیلایا جائے گا اور یہ تحریک تمام مطالبات کی منظوری تک بہر صورت جاری و ساری رکھی جائے گی۔

انکا کہنا تھا کہ عوامی ایکشن کمیٹیوں کے چند روز قبل جاری کئے گئے اعلامیہ کی ہم مکمل تائید و حمایت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ یکجہتی کرتے ہیں۔ ایکشن کمیٹیوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ بل جمع نہ کروانے کی اس مہم کو آگے بڑھائیں اور اس تحریک کو تیز کرنے میں بھرپور کردار ادا کریں۔ انکا کہنا تھا کہ جو کوئی بھی مثبت انداز میں ان مطالبات پر آگے بڑھے گا، ہم اس کے ساتھ ہونگے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts