نقطہ نظر

خیبر پختونخواہ:’10 سال پہلے روز گن شپ ہیلی کاپٹر مارنے آتے تھے، اب سیلاب سے بچانے کوئی نہیں آیا‘

حارث قدیر

غفران احد ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے 34 اضلاع سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، پہاڑی علاقوں میں سیلابی پانی نے چند گھنٹوں میں اتنی تباہی مچائی کہ جو راستے میں آیا سب کچھ بہا لے گیا۔ 10 سال قبل ہر روز درجن بھر گن شپ ہیلی کاپٹر اور جیٹ طیارے لوگوں کو مارنے کیلئے تو آتے تھے، لیکن اب جب سیلابی پانی نے لوگوں کو گھیرے میں لیا تو وہ دو دن تک انتظار کرتے رہے، کوئی ہیلی کاپٹر، کوئی سرکاری عہدیدار انہیں اس آفت سے بچانے کیلئے نہیں پہنچ سکا۔ غفران احد ایڈووکیٹ کا تعلق مالاکنڈ سے ہے، وہ انقلابی سوشلسٹ ہیں، ماضی میں دو مرتبہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے ہیں، ایک مرتبہ یونین کونسل ناظم اور ایک مرتبہ مالاکنڈ سے ضلع ناظم منتخب ہو چکے ہیں۔

دریں اثنا، پاکستا ن بھر میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کو دس ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ ادہر، این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق 14 جون سے اب تک ملک بھر میں مجموعی طور پر 1033 افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ 1527 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ سندھ کے بعد سب سے زیادہ ہلاکتیں خیبرپختونخوا میں رپورٹ ہوئی ہیں۔ خیبرپختونخوا میں اب تک 226 افراد ہلاک اور 282 زخمی ہو چکے ہیں۔ 7 پل سیلابی پانی اپنے ساتھ بہا لے گیا ہے، 33 ہزار 236 مکانات اور دکانیں سیلاب سے تباہ ہو چکی ہیں۔ 1266 مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخواہ کے 34 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، مجموعی طور پر 50 ہزار کی آبادی متاثر ہوئی ہے، 2015 لوگوں کو ریسکیو کیا گیا ہے اور صرف 1000 افراد کو ریلیف کیمپ میں جگہ دی جا سکی ہے۔ این ڈی ایم اے کی طرف سے ابھی تک 1400 ٹینٹ، 1400 ترپال، 1200 مچھر دانیاں، 900 کمبل، 1150 ہائی جین کٹس، 1200 کچن سیٹ، 1000 فوڈ پیک، 500 فرسٹ ایڈ کٹس، 6 جنریٹر، 1000 جیری کین، 6 ڈی واٹرنگ پمپس فراہم کئے جا سکے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کی طرف سے 1447 ٹینٹ، 503 کمبل، 126 ترپال، 600 پلاسٹک میٹ، 1 واٹر ٹینک، 611 فوڈ پیک، 137 کچن سیٹ، 403 چارپائیاں فراہم کی جا سکی ہیں۔ یہ کسی بھی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اپنے صوبے میں فراہم کیاگیا سب سے کم امدادی سامان ہے جو خیبرپختونخوا کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے سیلاب متاثرین کو فراہم کیا ہے۔ دریائے کابل میں اونچے درجے کے سیلاب سے کے پی کے میدانی اضلاع کے مزید متاثر ہونے کا خطرہ موجود ہے۔

غفران احد ایڈووکیٹ سے خیبرپختونخوا میں سیلابی صورتحال سے متعلق مختصر انٹرویو کیا گیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

خیبر پختونخوا میں سیلاب سے کتنے اضلاع متاثر ہیں، سرکاری اعداد و شمار اور زمینی صورتحال میں کتنی ایک مطابقت ہے؟

غفران احد: خیبر پختونخوا میں سیلا ب سے 34 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ کوہستان سے لیکر ڈی آئی خان تک یہ اضلاع ہیں۔ دریائے اباسین، دریائے سوات، دریائے پنجگوڑا اور دریائے کابل میں سیلاب آیا ہے۔ سب سے زیادہ ضلع سوات متاثر ہوا ہے۔ 25 اگست کو بہت اونچے درجے کا سیلاب آیا، جو 24 گھنٹے تک رہا ہے۔ سیلاب کے راستے میں جو کچھ بھی آیا اسے بہا کر لے گیا۔ یوں کہیں کہ یہ سیلاب زندگی ہی بہا کر لے گیا۔ سرکاری اعداد و شمار اور زمینی صورتحال میں زمین آسمان کا فرق ہے، اس بات کا انداز لگا لیں کہ صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے 25 اگست کو کہا کہ جو سوشل میڈیا پر تصویریں اور ویڈیوز چل رہی ہیں، یہ سب جعلی ہیں۔ سوات دریا برد ہو رہا تھا، سیلاب زدگان آہ و بکاہ کر رہے تھے، تو اس وقت حکومت اور ترجمان بے خبر تھے۔ صرف سوات ضلع میں 100 سے زائد گھر اور 50 ہوٹل مکمل تباہ ہو چکے ہیں، 15 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ پورے کے پی میں بہت بڑی تباہی اور بربادی ہوئی ہے۔ ضلع کوہستان کے علاقے دوبیر میں سیلابی ریلے میں 5 نوجوان 5 گھنٹے تک انتظار کرتے رہے، کسی ادارے، کسی حکومت نے ان کی فریاد نہیں سنی، مقامی آبادی ایک نوجوان کو تو بچانے میں کامیاب ہوئی، لیکن بالآخر 5 گھنٹے بعد باقی 4 نوجوان سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔

ساتھ کے لوگوں کا یہ شکوہ بھی ہے جو بالکل برحق ہے کہ 10 سال پہلے ہر دن درجن بھر گن شپ ہیلی کاپٹر اور جیٹ طیارے لوگوں کو مارنے کیلئے آتے تھے، لیکن اب جو صورتحال بنی، اس میں لوگ دو دن تک انتظار کرتے رہے، کوئی ہیلی کاپٹر مدد کو نہیں آ سکا۔ کوئی بھی سرکاری عہدیدار یا حکومتی نمائندہ یہاں لوگوں کی تکالیف کو جاننے نہیں پہنچ سکا۔ وزیر اعلیٰ کا اپنا آبائی علاقہ سوات مٹہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے، لیکن وہ اپنے علاقے میں بھی مدد نہیں پہنچا سکے۔

سیلاب کی پیشگی اطلاع دیکر آبادیوں کو محفوظ مقامات پر کیوں منتقل نہیں کیا جا سکا؟

غفران احد: سیلابی صورتحال لوگوں کیلئے تو بہت اچانک تھی، سوات، دیر، چترال اور مانسہرہ میں آناً فاناً سلابی صورتحال بن گئی جو بہت خوفناک تھی۔ جن اداروں کا یہ کام ہے، جو سالانہ اربوں روپے بجٹ لیتے ہیں، انہوں نے اس کی پیشگی اطلاع اور آبادیوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کئے۔ این ڈی ایم اے، یا پی ڈی ایم اے نے کوئی الرٹ جاری نہیں کیا۔ اب یہ بھی نہیں پتہ کہ انہیں بھی اس سیلاب کی خبر نہیں تھی، یا جان بوجھ کر بے خبر رہے۔ جب سیلابی ریلے کالام سے شروع ہوئے تو سوشل میڈیا پر لوگوں نے اطلاعات دینا شروع کر دیں، جس کے بعد دریائے سوات، پنجگوڑہ اور اباسین کے کناروں سے لوگ خود ہی دور منتقل ہونا شروع ہو گئے۔ اسی وجہ سے نقصانات خاص کر کے جانی نقصانات بھی کم ہوئے۔ البتہ کسی حکومتی ادارے نے اس روز بھی کوئی اطلاع نہیں دی۔

کے پی چونکہ پہاڑی اور میدانی دونوں طرح کے علاقوں پر مشتمل ہے، پہاڑی علاقوں اور میدانی علاقوں میں سیلاب سے ہونے والی تباہی میں کیا فرق ہے؟

غفران احد: سیلاب کا منبع پہاڑی علاقے اپر دیر، لوئر دیر، سوات، شانگلہ، مانسہرہ وغیرہ ہیں۔ یہ سب پہاڑی علاقے ہیں۔ اسی طرح چارسدہ، پشاور، نوشہرہ، ٹانک، بنوں اور ڈی آئی خان میدانی علاقے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں جب سیلاب آتا ہے تو چار سے پانچ گھنٹوں کی بات ہوتی ہے۔ سیلاب آتا ہے اور نکل جاتا ہے، جو کچھ اس سیلاب کی زد میں آتا ہے وہ سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے، یہ کام منٹوں اور سیکنڈوں میں ہوتا ہے۔ البتہ جب دریاؤں میں تغیانی آتی ہے تو میدانی علاقوں تک پہنچنے میں 14 سے 20 گھنٹے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ پانی کے بہاؤ کی شدت بھی پہاڑی علاقوں میں بہت تیز ہوتی ہے، لیکن جب وہ میدانی علاقوں میں پہنچتا ہے تو وہ پھیل جاتا ہے، اس میں وہ تیزی نہیں رہتی۔ اس لئے میدانی علاقوں میں پانی کئی کئی ہفتوں اور دنوں تک کھڑا رہتا ہے۔ کچی آبادیاں بیٹھ جاتی ہیں، مویشی ہلاک ہو جاتے ہیں، انفراسٹرکچر کا نقصان ہوتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں چند سیکنڈوں میں انفراسٹرکچر اور پل وغیرہ برباد ہو جاتے ہیں، پھر سیلاب کا پانی اتر جاتا ہے۔ میدانی علاقوں میں کئی روز تک لوگوں کی زندگی اجیرن رہتی ہے اور لوگ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ابھی تک کی امدادی سرگرمیاں کس نوعیت کی ہیں اور لوگوں کو کس طرح کی مشکلات ہیں؟

غفران احد: ابھی تک تو سرکاری سطح پر کوئی امدادی سرگرمی شروع ہی نہیں ہوئی البتہ عوامی سطح پر سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں، اس وقت لوگوں کو سیلاب سے بچانا اور محفوظ مقامات پر منتقل کرنا پہلی ضرورت ہے۔ ادویات اور خوراک کی ضرورت ہے کیونکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے، سیلابی پانی نے تمام پینے کے پانی کے قدرتی ذرائع آلودہ کر دیئے ہیں۔ سیلابی پانی استعمال کرنے سے ہیضہ اور دیگر بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔ متاثرین کیلئے ادویات موجود نہیں ہیں۔ ابھی تک سرکاری امدادی سرگرمیاں تو شروع نہیں ہو سکی ہیں۔ فلاحی سرگرمیاں فی الحال کچھ فلاحی تنظیمیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لارج سکیل پر کوئی خاص سرگرمی لوگوں کی مشکلات کم کرنے کے حوالے سے نہیں ہو رہی ہے۔

فوری طور پر سیلاب متاثرین کو کس طرح کی امداد درکار ہے؟

غفران احد: جو لوگ متاثر ہوئے ہیں، انہیں فوری طور پر محفوظ مقامات پر منتقل کرنے، ٹینٹ مہیا کرنے، طبی امداد، خوراک اور صاف پانی مہیا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ فی الحال متاثرین بے یار و مدد گار ہیں، انکا کوئی آسرا نہیں ہے۔

غیر سرکاری تنظیموں، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی کوئی ریلیف مہم چل رہی ہے یا نہیں؟ اگر چل رہی ہے تو کس حد تک سود مند ہے؟

غفران احد: سیلاب زدگان کی امداد کیلئے غیر سرکاری تنظیموں، سول سوسائٹی یا سیاسی جماعتوں کی طرف سے ریلیف مہم تو چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ دیہی اور علاقائی سطح پر بھی ریلیف کی سرگرمیاں ہو رہی ہیں، لیکن یہ ساری سرگرمی ڈونیشن پر ہے، وہ ڈونیشن اکٹھا کر کے لوگوں تک ٹینٹ، خوراک اور دیگر اشیا پہنچائیں گے۔ یہ چھوٹے پیمانے کا ریلیف ہوتا ہے، یہ اس طرح سے سود مند اور موثر بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ لارج سکیل پر نہیں ہو سکتا۔ سرکاری سطح پر ابھی تک کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ متاثرین اور علاقہ زیادہ ہے، لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، جو ان تنظیموں اور انفرادی طور پر کام کرنے والوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ متاثرین کی تکالیف کو دور کرنے کیلئے صوبائی حکومت کو ایک موثر ریلیف فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ خیمے، ادویات اور خوراک کا بندوبست فوری ہونا چاہیے۔

حکومت کی جانب سے 25 ہزار نقد امدادی رقوم کا جو اعلان کیا گیا ہے، وہ کتنے لوگوں کو مل رہی ہیں اور اس سے کچھ مسائل حل بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں؟

غفران احد: مرکزی حکومت کی جانب سے سیلاب زدگان کی مالی امداد کا جو اعلان کیا گیا ہے، وہ بھی ابھی تک شروع نہیں ہوا۔ اصل میں وہ ایک بیوروکریٹک ڈھانچہ ہے، جو اسلام آباد سے کام شروع کرے گا، پھر پشاور جائے گا، پھر وہاں سے متاثرہ اضلاع اور تحصیلوں تک رقوم پہنچیں گی، اس کام میں کم از کم ہفتہ تو لگے گا۔ ابھی تک یہ 25 ہزار بھی نہیں ملے، لیکن یہ بھی بہت معمولی رقم ہے۔ یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہے۔ آج کل ایک بکری کی قیمت بھی 40 سے 50 ہزار ہے۔ لوگوں کے ہوٹل، کاروباری مراکز، مکانات سب کچھ پانی میں بہہ گیا ہے۔ انہیں 25 ہزار کی معمولی رقم دینا انکے ساتھ سنگین مذاق اور ان کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔

آپ کے خیال میں بائیں بازو کی تنظیمیں اور سیاسی کارکنان کو اس صورتحال میں کس طرح سے رسپانس کرنا چاہیے؟

غفران احد: اس وقت جو انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، اس نے سیلاب کی شکل میں پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بائیں بازو کی تنظیموں اور سیاسی کارکنوں کو متاثرین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ان کی تکالیف اور دکھ درد میں انکا ساتھ دینا چاہیے، انکی آواز بننا چاہیے۔ جس قدر ہو سکے ان کی امداد کرنی چاہیے۔ سب سے بڑھ کر لوگوں کے ساتھ جڑت ہونی چاہیے تاکہ ہم انہیں کسی بھی لمحہ اجنبی نہ لگیں۔ ہم ان کے دکھ درد کے اور تکلیف کے ساتھی بنیں اور انقلابی امدادی اور احتجاجی مہم چلائیں۔ اس جدوجہد کو ایک انسان دوست سماج کے قیام تک جاری رکھیں۔

حکومت کو رکے ہوئے پانی کو نکالنے اور تعمیر نو و بحالی کیلئے کس نوعیت کے اقدامات فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے؟

غفران احد: رکا ہوا پانی نکالنے اور تعمیر نو و بحالی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ فوری طور پر تو رکا ہوا پانی نکالنے کیلئے واٹر پمپنگ کرنے کے ساتھ ساتھ بند نالوں اور ندیوں کو کھولنے کی ضرورت ہے۔ تعمیر نو اور بحالی کیلئے فوری طور پر مواصلات کے شعبے کو جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سیلاب کی نظر ہونے والے مکانات کی تعمیر کرنے کے علاوہ دیگر ریلیف کی سرگرمیاں فوری طور پر شروع کرنی چاہئیں۔ اندرون و بیرون ملک سے جمع ہونے والی امدادی رقوم کو بنا خرد برد کے سیلاب زدگان کی بحالی و آبادکاری پر صرف کیا جانا چاہیے۔ تاہم یہ ریاست جس حد تک بوسیدہ، ناکارہ اور ناکام ہے، یہ حکمران طبقات جس قدر نااہل اور لٹیرے ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے لگتا یہی ہے کہ اس آفت کو بھی یہ ایک لوٹ مار کے موقع کے طور پر استعمال کریں گے۔ غریب اور مفلوک الحال انسان ایک بارپھر تباہ ہو کر سسک سسک کر مرتے رہیں گے اور حکمران اس سے عیاشیاں کریں گے۔ البتہ ہم یہ بات کہتے ہیں کہ یہ لوٹ مار اور خرد برد کا سلسلہ زیادہ عرصہ چلنے والا نہیں ہے۔ نسل در نسل سے تباہیاں اور بربادیاں سہنے والے محنت کش، غریب عوام اس نظام کو للکاریں گے اور اس زمین پر موجود تمام وسائل کو اپنے تصرف میں لاتے ہوئے نسل انسانی کے منصفانہ مستقبل کی بنیادیں رکھنے کیلئے سفر کا آغاز کرینگے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔