نقطہ نظر

’ماہواری جسٹس‘: سیلاب زدہ علاقوں میں 8 ملین خواتین پیریڈز سپلائیز سے محروم

حارث قدیر

بشریٰ ماہ نور کہتی ہیں: ماہواری جسٹس مہم‘کے دوران بے شمار مشکلات پیش آئیں اور تنقید کاسامنا کرنا پڑا، تاہم کچھ حوصلہ افزا باتیں بھی تھیں۔ ہم محض 70 ہزار خواتین کو پیریڈ سپلائیز مہیا کر سکے ہیں۔ سیلاب کے آفٹر افیکٹس لاکھوں خواتین کو متاثر کر رہے ہیں۔ ریاستی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس ایشو پر بات ہونی چاہیے۔ اس قدرتی عمل کو شرمندگی اور گندگی سے جوڑنابند کیا جانا چاہیے، نصاب کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر خواتین کے بارے میں پالیسی بنانے میں خواتین کی شرکت کو لازمی کیا جانا ضروری ہے۔

وہ جامعہ پنجاب سے سائیکالوجی میں ایم فل کر رہی ہیں۔ شمالی پنجاب کے شہر اٹک کی رہائشی ہیں اور اس وقت تعلیم کے سلسلہ میں لاہور میں مقیم ہیں جہاں وہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں سرگرم ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خواتین کیلئے ماہواری جسٹس مہم کا انہوں نے آغاز کیا اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں خواتین تک پیریڈ سپلائیز اور دیگر اشیا پر مشتمل امداد پہنچانے میں سرگرم ہیں۔ گزشتہ روز ’جدوجہد‘ نے انکا ایک مختصر انٹرویو کیا جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب میں آپ نے ایک منفرد اور بہت اہم مسئلہ کو ایڈریس کیا اور خواتین کیلئے ’ماہواری جسٹس مہم‘ چلائی، اس سے قبل اس طرح کی مہم پاکستان میں کبھی نہیں چلائی گئی۔ آپ کویہ خیال کیسے آیا؟

بشریٰ ماہ نور: ماہواری جسٹس مہم ہم نے ساڑھے 3 ماہ قبل جب تباہ کن سیلاب آئے اس وقت ہی شروع کر دی تھی۔ اس بات کا خیال اس وجہ سے آیا کہ 2010ء میں جب پاکستان میں سیلاب آیا تو اس وقت میری عمر 10 سال تھی۔ میرے آبائی علاقے اٹک کے آس پاس کے کافی علاقے سیلاب کی زد میں آئے تھے۔ میرے والدین اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے اقدامات کر رہے تھے۔ کپڑے، راشن اور دیگر ضروری اشیا ان تک پہنچا رہے تھے۔ ایک بار میں بھی ضد کر کے ان کے ساتھ گئی، وہاں ریلیف کیمپ میں ایک بچی موجود تھی، جو عمر میں میرے جتنی ہی تھی اور اس کی قمیض پر خون کے دھبے لگے ہوئے تھے۔ میری والدہ نے اسے کپڑے تبدیل کرنے کو دیئے اور اس نے میری والدہ کو بتایا کہ اس کو پہلے ’پیریڈز‘ سیلاب کے دوران ہی آئے، جب وہ سیلاب سے متاثر تھے اور کیمپ میں رہنے پر مجبور تھے۔ اسے نہیں پتہ تھا کہ اس کے جسم کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے، وہ بہت ڈری اور سہمی ہوئی تھی۔

اس واقعہ نے میرے ذہن پر بہت گہرے نقوش چھوڑے اور بہت عرصہ تک یہ واقعہ میرے ساتھ رہا۔ 12 سال بعد جب ایک بار پھر پاکستان سیلاب کی زد میں تھا تو مجھے یہی واقعہ دوبارہ یاد آیا۔ اسی وقت ذہن میں آیا کہ کتنی خواتین اور چھوٹی بچیاں ہونگی جو اس سیلا ب میں اس طرح کے مسائل کے ساتھ نبرد آزما ہونگی اور ان کے پاس کوئی سہولت میسر نہ ہو گی۔ یہ ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے، اتنے زیادہ سٹگماز جڑے ہوئے ہیں کہ ہم پیریڈز کے متعلق بات ہی نہیں کر سکتے۔ جب بھی ایسی صورتحال آتی ہے تو پدر شاہانہ معاشرے میں خواتین کو ویسے ہی نظر انداز کر دیا جاتا ہے، دیگر مسائل میں بھی خواتین کو اولین ترجیح نہیں ہوتی۔ پھر ایسی بات جسے ہم گندہ سمجھتے ہیں، یا اس بارے میں بات کرنا بھی درست نہیں سمجھتے، اس پر رد عمل دینا تو ممکن ہی نہیں ہوتا۔ اس لئے ہم نے جولائی میں ہی اس مہم کا آغاز کیا، جب بلوچستان کے علاقے سیلاب کی زد میں تھے۔

اس وقت میرا ایم فل تھیسز بھی چل رہا تھا، اس معاملہ پر کوئی اور کام بھی نہیں کر رہا تھا۔ اس وجہ سے سوچا کہ ایسے نہیں چھوڑا جا سکتا، کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے میں نے اپنی ایک دوست انعم خالد سے آن لائن رابطہ کیا اور یہ طے کیا کہ ہم مل کر یہ کرینگے۔

ہم نے ابتدا میں ایک ٹویٹر ہینڈل بنایا، جس کا نام ’ماہواری جسٹس‘ رکھا۔ ہم سوشل میڈیا پر ٹویٹس کرتے، ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے یہ آگاہی پھیلانے کی کوشش کرتے کہ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے۔ ہم نے لوگوں کو عطیات دینے کی اپیل کی اور ساتھ ہی امدادی سرگرمیوں میں مصروف لوگوں سے بھی کہہ رہے تھے کہ امداد کے ساتھ خواتین کے پیریڈز کو منظم کرنے کیلئے بھی ضروری اشیا امدادی سامان میں مہیا کرنے کی کوشش کریں۔

سیلاب متاثرہ علاقوں میں کتنی خواتین ہیں، جنہیں ماہواری کے دوران سینیٹری پیڈ اور مناسب حفاظتی سہولیات میسر نہیں تھیں؟

بشریٰ ماہ نور: اس حوالے سے بہت سے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ ایک ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق 6.5 ملین اور ایک ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق 8 ملین خواتین سیلاب متاثرہ علاقوں میں ایسی ہیں جن کے پاس پیریڈز کے ساتھ ڈیل کرنے کیلئے کوئی سہولت میسر نہیں تھی اور اس حوالے سے کوئی بھی کام نہیں کر رہا تھا۔

آپ کے ساتھ اس مہم کے دوران کتنے اور لوگ تھے اور اس مہم کے دوران کتنی خواتین تک سینیٹری پیڈ اور دیگر سہولیات فراہم کیں؟

بشریٰ ماہ نور: ابتدا میں ہم دو ہی تھیں جنہوں نے یہ کام شروع کیا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے ساتھ اور بھی لوگ شامل ہوئے۔ اس کے علاوہ مختلف این جی اوز اور دیگر امدادی سرگرمیاں کرنے والے لوگوں نے بھی خواتین کے مسائل کو ایڈریس کرنے کیلئے پیریڈ سپلائیز فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ’ماہواری جسٹس‘ کے زیر اہتمام اس وقت تک ہم 70 ہزار سے زائد خواتین کو یہ سپلائیز فراہم کر چکے ہیں۔ صرف پیریڈز کو ڈیل کرنے کیلئے ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ کچھ دیگر چیزیں بھی فراہم کر رہے ہیں، تاکہ متاثرہ خواتین اپنی عزت و وقار کو برقرار رکھتے ہوئے سیلاب جیسی آفت کا مقابلہ کر سکیں۔

اس مہم کے دوران آپ نے سیلاب متاثرہ علاقوں میں خواتین کی صحت و صفائی سے متعلق کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کی طرف سے اس طرح کے اقدامات بھی نوٹ کئے یا نہیں؟

بشریٰ ماہ نور: میں نے جیسے پہلے بتایا کہ جب ہم نے مہم شروع کی اور سیلاب متاثرہ علاقوں میں پیریڈ سپلائیز پہنچانا شروع کیں تو اس کے بعد دیگر این جی اوز اور انفرادی حیثیت میں امدادی سرگرمیوں کرنے والے افراد نے بھی امدادی سامان کے ساتھ پیریڈ سپلائیز کو بھی شامل کرنا شروع کیا۔ تاہم سرکاری سطح پر اس طرح کے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے جو بہت تکلیف دہ بات ہے۔ حکومتوں کو اس بارے میں ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں۔

ماہواری جسٹس مہم کے دوران اتنی بڑی تعداد میں اشیا کی خریداری اور کٹس کی تیاری اور تقسیم کا مرحلہ کیسے عبور کیا؟ کچھ تجربات شیئر کریں۔

بشریٰ ماہ نور: اس مہم کے دوران بہت سی چیزوں کو مد نظر رکھنا تھا، بہت سی چیزوں کے بارے میں کوئی آئیڈیا بھی نہیں تھا۔ جولائی میں ہی ایک دوست کے ساتھ میں لاہور کے مختلف بازاروں میں گئی، معلومات حاصل کیں۔ اسی کے ساتھ سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین کے ساتھ رابطے بھی کئے، جو ریلیف کا کام کر رہی تھیں یا ان علاقوں میں دائیاں تھیں۔ اس طرح رابطے ہوتے گئے اور ایک چینل بن گیا۔

جب ہم سیلاب زدہ علاقوں میں کسی مرد سے رابطہ کرتے تو وہ ہمیں کہتے تھے کہ بی بی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے، یہ نہ بھیجو۔ تاہم ایک خاتون سے بات ہوئی جن کی تو بیٹیاں تھیں، انہوں نے بتایا کہ ان کی چھوٹی بیٹی وہی کپڑا استعمال کر رہی ہے، جو بڑی بیٹی نے پیریڈز میں استعمال کیا تھا۔ عورتوں کیلئے یہ بہت بڑا مسئلہ تھا کہ ریلیف کیمپس میں بچیوں کے پیریڈز کو ڈیل کر سکیں۔

تاہم یہ اہم اس لئے ہے کہ جب میں بلوچستان میں گئی تو ایک گاؤں میں ایک خاتون سے ملاقات ہوئی، جن کی پانچ بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں بہت مسائل کا سامنا ہے، انکا گھر بار تباہ ہو چکا تھا، رہنے کی جگہ نہیں تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جب بچیوں کو پیریڈز آتے ہیں تو بہت مسائل ہوتے ہیں۔ وہ باتھ روم کرنے کیلئے اٹھتی بھی نہیں ہیں کہ کپڑوں پر لگے دھبے کوئی دیکھ نہ لے۔ ان کے ساتھ ایک بیٹی تھی، جس کے پاؤں میں جوتے نہیں تھے، خاتون کے اپنے کپڑے بھی پھٹے ہوئے تھے۔ میں نے جب انہیں کچھ پیریڈ کٹس فراہم کیں تو انہوں نے اپنا واحد اثاثہ جو ان کے پاس بچا تھا، وہ ان کی بازو پر چند چوڑیاں تھیں، وہ انہوں نے مجھے اتار کر دینے کی کوشش کی۔ یہ صورتحال دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ خاتون یہ سمجھتی تھیں کہ یہ کتنی بڑی ضرورت ہے، جس کیلئے وہ اپنا واحد اثاثہ چوڑیاں تک دینے پر تیار تھیں۔

لوگوں کو سمجھنا ہو گا کہ یہ آپ کے وقار کا مسئلہ ہے، آپ چل پھر نہیں سکتے، اگر کپڑوں پر خون کے دھبے لگے ہوں تو بچوں کا خیال کیسے رکھا جا سکتا ہے۔ یہ چیز پھر نفسیاتی اثرات بھی مرتب کرتی ہے۔

ہم صرف اور صرف سینیٹری پیڈز نہیں دے رہے ہیں۔ پہلی ریلیف میں صرف یہی تھے، کیونکہ مارکیٹ سے پیک حالت میں مل جاتے ہیں۔ تاہم جب ہم ایک کھیپ بھیج چکے تو ہمارے پاس کچھ وقت تھا، جس دوران خواتین سے رابطہ کیا، ڈاکٹروں سے بھی رابطہ کیا اور ان کی مشاورت سے ہم نے چار اقسام کی پیریڈ کٹس تیار کیں۔ ان کے ساتھ کچھ دیگر ضروری اشیا بھی شامل کیں۔ ہم خواتین سے پوچھ کر ان کی ضرورت اور ان کے علاقے کے حالات کے مطابق پیریڈسپلائیز فراہم کر رہے ہیں۔ ہم یہاں بیٹھ کر خواتین کی ضروریات کا تعین نہیں کر سکتے، اس لئے ان سے پوچھنا بہتر سمجھا ہے اب ہم سویٹر، شال، جرابیں، کنگھی اور کچھ دیگر چیزیں بھی ان سپلائیز کے ساتھ شامل کر رہے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے یہ خواتین کے وقار کی اشیا ہیں تاکہ وہ اپنا وقار برقرار رکھ سکیں اور بحالی اور آبادکاری کی طرف کھل کر جا سکیں۔

پسماندہ معاشروں میں خواتین کی صحت و صفائی سے متعلق مسائل کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہاں تک کہ ان مسائل کے حوالے سے بات کرنا بھی ٹھیک نہیں سمجھا جاتا۔ خاص کر کوئی خاتون اگر مہم چلائے تو اسکے لئے کس طرح کی مشکلات ہوتی ہیں؟

بشریٰ ماہ نور: اس دوران بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ سب سے زیادہ تنقید تو گھر سے ہی سامنے آئی۔ والدہ بہت اپ سیٹ تھیں کہ میں اس مسئلے پر کیوں کام کر رہی ہوں۔ میں ایک چھوٹے شہر اور مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہوں۔ وہاں بھی اسی طرح کے مسائل ہیں کہ ہم اس مسئلے پر بات نہیں کر سکتے، بلکہ چھپا کر رکھتے ہیں۔ گھر والوں کیلئے یہ مشکل تھی کہ میں اس پر کیوں بات کر رہی ہوں۔ والدہ کہتی تھیں کہ ساری دنیا میں تم ہی ایک رہ گئی ہواس ایشو پر بات کرنے کیلئے۔ میں نے انہیں کہا کہ میں بھی نہیں کروں گی تو کون کرے گا۔ خالہ نے تو مجھے کال کر کہ یہاں تک کہہ دیا کہ تمہارا کوئی رشتہ نہیں آئے گا اور تم بہنوں کیلئے بھی مسائل پیدا کرو گی۔ اس طرح کی باتیں بہت دکھی کرتی ہیں۔

یہی سب کچھ تو تبدیل کرنا ہے اور یہ کام پھر گھر سے ہی شروع کرنا تھا۔ آپ تصور کریں کہ ہم 5 بہنیں ہیں، لیکن پھر بھی ہمارے خاندان میں پیریڈز پر کوئی کھل کر بات نہیں کر سکتا۔ خاندان کے علاوہ باقی لوگوں نے بھی بہت تنقید کی۔ لوگ یہ کہتے تھے کہ یہ اہم ضرورت نہیں ہے۔ کھانا، پانی، کپڑے اور دیگر چیزیں بھیجنی چاہئیں۔ ہم کہہ رہے تھے کہ یہ سب چیزیں بھی بھیجیں، ساتھ پیریڈ کٹس بھی بھیجیں، کیونکہ خواتین ان مشکلات سے دو چار ہیں اور وہ معاشرتی مسائل کی وجہ سے اس بارے میں بتا بھی نہیں سکتیں۔ صدیوں سے ہم نے اس ایک قدرتی عمل کے ساتھ ایسے ٹیبوز جوڑے ہوئے ہیں کہ اب انہیں توڑنا مشکل ہو رہا ہے۔

اس کے علاوہ سیلاب زدہ علاقوں کے مرد کہتے تھے کہ یہ امدادی فنڈز کو ضائع کر رہی ہیں۔ تاہم ہمیں یہ معلوم تھا کہ جنہیں ضرورت ہے، وہی اس بارے میں جانتے ہیں۔ مجھے بلوچستان میں ایک خاتون ملیں جن کی گود میں دس روز کی بچی تھی، سیلاب کے دوران پیدا ہونے والی بچی کا نام بھی قسمت رکھا گیا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ بچے کی پیدائش کے بعد بہنے والے خون کو کس طرح سے ڈیل کر رہی ہیں، تو انہوں نے بہت اندوہناک کہانی سنائی۔ انکا کہنا تھا کہ وہ جانوروں کا ’گوبر‘ سکھا کر رکھتی ہیں تاکہ خون سے کپڑے خراب نہ ہوں۔ یہ بہت تکلیف دہ صورتحال تھی، تاہم جنہیں اس کا اندازہ نہیں وہ تنقید کرتے ہیں۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔