تاریخ

سو سالہ سرمایہ: مارکس پنجابی میں

امر جیت چندن

ترجمہ: حارث قدیر

نوٹ: برطانیہ میں مقیم پنجابی مصنف، ایڈیٹر، مترجم اور کارکن امر جیت چندن کا درج ذیل مضمون انگریزی زبان میں ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ہوا۔ جسے ’جدوجہد‘ کے قارئین کی دلچسپی کیلئے ترجمہ کیا گیا ہے۔

یہ 20 ویں صدی کا اوائل تھا، جب آکسفورڈ، کیمبرج، لندن اور کیلیفورنیا کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے پنجابیوں نے مغربی افکار سے تعامل شروع کیا۔ شاعر پورن سنگھ (1881-1931ء) نے نطشے سے پنجابی میں تعلق قائم کیا۔ عظیم لغت نگار کاہن سنگھ (1861-1938ء) نے اپنی 6 جلدوں پر مشتمل عظیم کتاب ’دی سکھ ریلیجن‘ (سکھ مذہب) کیلئے سکھوں کے صحیفوں کے انگریزی ترجمے پر میکالیف (1837-1913ء) کے ساتھ تعاون کیا۔ یونانی اور سنسکرت کے اسکالر دھرم اننت (سنگھ) نے افلاطون پر کیام کیا، جبکہ سنتوکھ سنگھ (1892-1927ء) نے مارکس کو پنجاب سے متعارف کروایا۔

غدر کے سرگرم رکن اور پنجاب میں کمیونسٹ تحریک کے بانیوں میں سے ایک بھائی سنتوکھ سنگھ پر 29 دیگر غدر رہنماؤں کے ساتھ انڈو جرمن یا سان فرانسسکوہندو سازش کیس میں مقدمہ چلایا گیا اور انہیں 21 ماہ کی سخت قید کی سزا سنائی گئی۔ میک نیل جزیرے کی جیل میں وہ دوسرے سیاسی قیدیوں سے رابطے میں آئے، جن میں سے بہت سے روسی کمیونسٹ جلا وطن تھے اور انہوں نے بائیں بازو کی کتابیں پڑھنا شروع کر دیں، جن میں ’سرمایہ‘ کی تین جلدیں بھی شامل تھیں۔ رہائی کے بعد انہوں نے سوویت یونین کا سفر کیا، جہاں انہوں نے ’KUTV‘ یونیورسٹی آف دی ڈائلرز آف دی ایسٹ میں داخلہ لیا۔ پنجاب واپس آنے کے بعد انہوں نے 1926ء میں ایک پنجابی میگزین کیرتی (دی ورکر) شروع کیا۔

اس کے پہلے شمارے مورخہ فروری 1926ء میں انہوں نے جدلیاتی اور تاریخی مادیت پر ایک مختصر تعارفی مضمون شائع کیا۔ یہ مضمون پنجابی ادب اور سیاسی نثر کی ترقی میں بھی ایک اہم سنگ میل تھا۔ اس سے پہلے تاریخی اور سیاسی تحریریں، یہاں تک کہ روایتی طب کے فارمولے بھی شاعری میں لکھے گئے تھے۔ معاشی اور فلسفیانہ گفتگو کی ایک قائم پنجابی روایت کی کمی کے پیش نظر سنتوکھ سنگھ نے پنجابی میں نئی فلسفیانہ اصطلاحات متعارف کروانے کیلئے سنسکرت پر انحصار کیا۔

بھگت سنگھ نے مارکس کا مطالعہ کیا

دوارکا داس لائبریری، جو تقسیم کے بعد لاہور سے دہلی اور وہاں سے چندی گڑھ منتقل ہو گئی، کی کتب کے مجموعے میں سرمایہ (1887ء) کا پہلا انگریزی ایڈیشن موجود ہے۔ یہ قرین قیاس ہے کہ بھگت سنگھ نے اس تک رسائی حاصل کی ہو گی۔ بھگت سنگھ کے ساتھ بھگوان داس مہاور اپنی یادداشت ’یش کی دھروہر‘ (ہیریٹیج آف آنر 1988ء) میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے ’سرمایہ‘ کو بھگت سنگھ کے مشورے پر پڑھا تھا، لیکن وہ اسے سمجھ نہیں سکے۔ بھگت سنگھ کی جیل نوٹ بک میں مارکس اور اینگلز کی تحریروں کے اقتباسات شامل ہیں۔

پہلا پنجابی ترجمہ

1939-1947ء کے دوران سی پی آئی کے ایک ہول ٹائمر مکھن سنگھ (1913-1973ء) نے اپنا وقت مارکس کی ’سرمایہ‘ کے کچھ حصوں کو گورمکھی رسم الخط میں پنجابی میں ترجمہ کرنے میں صرف کیا۔ 1942ء میں سی پی آئی آرگن ’جنگ آزادی‘ کے ایڈیٹر جگجیت سنگھ آنند کو مکھن سنگھ کا ’جدلیاتی مادیت‘ کا پنجابی ترجمہ ملا جو ’داس کیپیٹل‘ میں ایک باب ہے۔ اپنی یادداشت میں جگجیت سنگھ آنند نے مکھن سنگھ کی مارکسی تھیوری پر گہری گرفت کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان پر ان کی مہارت کے بارے میں اپنے گہرے تاثرات کو رقم کیا ہے۔ دونوں افراد نے جنگ آزادی کے ادارتی بورڈ میں 1947ء تک کام کیا، اس کے بعد مکھن سنگھ پنجاب سے کینیا چلے گئے۔

جنگ آزادی کا ادارتی بورڈ کمیونسٹ کارکنوں اور مارکسی ادب کے سرخیل پنجابی مترجموں پر مشتمل تھا، جن میں بھاگ سنگھ (برکلے یونیورسٹی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی)، تیجا سنگھ سوتنتر (ایک عظیم سیاسی رہنما اور یونیورسٹی آف دی ٹائلرز آف ایسٹ ماسکو کے گریجویٹ تھے)، سوہن سنگھ جوش، مکھن سنگھ، جگجیت سنگھ آنند اور رندھیر سنگھ شامل تھے۔

مئی 1937ء میں کیرتی میں شائع ہونے والے سرمایہ داری، سامراج اور سوشلزم پر مضامین کا مجموعہ ہرکشن سنگھ سرجیت نے مرتب کیا تھا۔ 100 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا نام ’پرانی تے نوی دنیا (پرانی اور نئی دنیا) ساتھی (کامریڈ) کارل مارکس نے رکھا تھا۔ یہ پنجابی میں پہلا مارکسی متن تھا، جو معاشیات اور فلسفے کی نئی اصطلاحات سے بھرا ہوا تھا، اس وقت زیادہ تر پنجابی قارئین اس سے واقف نہیں تھے۔ زیادہ تر نئی وضع کردہ اصطلاحات پھنس گئیں۔ تاہم سو سال گزرنے کے بعد بھی بعض الفاظ اور تصورات کے بارے میں کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔ مثال کے طور پر لفظ ’کیپٹل‘ کا ترجمہ ’پونجی‘ (سنسکرت اوریجن) اور ’سرمایہ‘ (فارسی اوریجن) دونوں کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔

’سرمایہ‘ کا پہلا مستند پنجابی ترجمہ 1975ء میں نویوگ پبلشرز دہلی نے شائع کیا تھا۔ تین جلدوں کا ترجمہ سوویت سفارت خانے کے محکمہ اطلاعات کے کل وقتی ملازمین کی ایک ٹیم نے کیا۔ مارکس کی کتاب ’فلسفے کی غربت‘ (پاورٹی آف فلاسفی) کے علاوہ کسی اور کتاب کا پنجابی میں ترجمہ نہیں ہواتھا۔

مارکس اور اینگلز کے کمیونسٹ مینی فیسٹو کا پہلی بار پنجابی میں گورمکھی رسم الخط میں ترجمہ رندھیر سنگھ نے کیا اور 1946ء میں لاہور سے شائع ہوا۔ اس کے پنجابی ورژن کو لاہور میں فارسی رسم الخط میں ظاہر ہونے میں 70 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا، جس کا ترجمہ مشتاق صوفی (سانجھ پبلیکیشنز) نے کیا۔

عصری مارکسزم کے بارے میں ایک کتابچہ، جس کا عنوان ’نروار‘ (تجزیہ) تھا، راشد الزماں نے 1970ء میں لاہور میں فارسی رسم الخط میں شائع کیا۔ مشرقی پنجابی ترجمے کے برعکس، جو زیادہ تر سنسکرت پر مبنی ہے، زمان کا ترجمہ عربی اور فارسی سے بہت زیادہ مستعار ہے۔ دو رسم الخط اور دو لغات والی ایک زبان کا یہ دوغلا پن پنجاب کی منقسم سرزمین کے دونوں طرف کے ماہرین لسانیات اور ادیبوں کے درمیان ایک سنگین تنازعہ رہا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts