فاروق سلہریا
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 8 مارچ کے سلسلے میں تیاریاں جاری ہیں۔ اس موقع پر ہمیں ایران کی 24 سالہ یاسمان آریانی، ان کی والدہ منیرہ عربشاہی اور ان کی دوست مژگان کیشدرز کے ساتھ یکجہتی کو 8 مارچ کے موقع پر ہر پروگرام کاحصہ بنانا چاہئے۔
گذشتہ سال 8 مارچ کے موقع پر یاسمان آریانی، منیرہ اور مژگان نے تہران کی ایک میٹرو میں خواتین والے کمپارٹمنٹ میں خواتین میں پھول بانٹے، مظاہرہ کیا اور بغیر حجاب کے سفر کیا۔
ایران میں قائم مذہبی آمریت کے قوانین کے مطابق خواتین سر سے حجاب نہیں اتار سکتیں۔ یہ ایک جرم ہے۔ جب اِس مظاہرے کی ایک ویڈیو سامنے آئی تو ان خواتین کو گرفتار کر لیا گیا اور مجموعی طور پر ان کو 55 سال کی قید سنائی گئی۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ ان خواتین نے عورتوں کو بے حیائی اور جسم فروشی کی دعوت دی۔ جب عالمی سطح پر ان سزاؤں کے خلاف احتجاج ہوا تو قید کی مدت کم کر دی گئی مگر اس کے باوجود لمبی سزائیں دی گئی ہیں۔ یاسمان جو ایک سال سے قید میں ہیں انہیں ابھی نو سال مزید جیل کاٹنی ہے۔ یہ سراسر ظلم ہے۔
ایران، سعودی عرب اور بعض دیگر ممالک میں ڈریس کوڈ (یعنی ریاست کی طرف سے لازمی پردہ کرانا) اتنا ہی غلط ہے جتنا فرانس یا دیگر یورپی ممالک میں برقعے پر پابندی البتہ مسلم دنیا کے رجعت پسند اور مذہبی حلقے یورپ پر تنقید کریں گے لیکن مسلمان ملکوں میں عورت کی معمولی سی آزادی کو بھی برداشت نہیں کرتے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے بدن کو ڈھانپ سکیں۔
ان حلقوں کی طرف سے کہا یہ جاتا ہے کہ مسلمانوں کی ثقافت اور روایات اجازت نہیں دیتیں کہ عورت لباس کے معاملے میں ”مادر پدر“ آزاد ہو جائے۔ پہلی بات تو یہ کہ مادر پدر آزادی دنیا کے کسی معاشرے میں نہیں ہوتی۔ لباس اور انسانی تعلقات، بشمول جنسی تعلقات، دنیا بھر میں اور ساری انسانی تہذیبوں میں ہمیشہ حدود و قیود کا شکار ہوتے ہیں۔ دوم، اگر مسلم دنیا کو کلچر کے نام پر ڈریس کوڈ لاگو کرنے کا حق ہے تو پھر یہ حق یورپ کو بھی ہے۔ اسی طرح مسلم دنیا میں کچھ لبرل حضرات مسلمان ملکوں میں تو ڈریس کوڈ کی مخالفت کرتے ہیں مگر یورپ میں برقعے پر پابندی لگے تو چپ ہو جاتے ہیں۔
ہر دو حلقوں کا موقف منافقت اور دوغلے پن کا شکار ہے۔ ایک درست اور اصولی موقف یہ ہونا چاہئے کہ ریاست ایران اور سعودی عرب کی ہو یا فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی، ریاست کو حق نہیں کہ وہ لوگوں کے لباس کا فیصلہ کرے یا ان کے گھر کے اندر جھانکے۔ برقعہ پہننا چاہئے یا نہیں، اس پر بحث اسی وقت ہو سکتی ہے جب فرد کو بنیادی شخصی آزادی کا تحفظ ریاست کی جانب سے حاصل ہو۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔