پرویز امیر علی ہود بھائی
پاکستانی سپاہیوں، آئی ایس آئی کے افسران، پولیس اہلکاروں اور عام شہریوں پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملے بڑھتے جا رہے ہیں مگر پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ وہی گھسے پٹے بیان جاری کر رہی ہے۔
پچھلے 50 دنوں میں 100 حملے ہوئے ہیں۔ سب سے اہم واقعہ تھا بنوں کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ پر گذشتہ ہفتے طالبان کا قبضہ۔ چھ لاکھ جوانوں پر مبنی فوج، جس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں اور امریکہ چین کا دیا ہوا جدید ترین اسلحہ بھی، سے پاکستانی سرحدوں کی حفاظت کرنے میں کوتاہی سر زد تو نہیں ہونی چاہئے۔
یہ فوج پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی بھی حامل ہے۔ اس کے پاس غیر روایتی جنگ کا تجربہ بھی ہے۔ ایک بے ہنگم سے دہشت گرد گروہ کو ایسی فوج با آسانی شکست دے سکتی تھی…لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اس کے بر عکس غلط حکمت عملی اور تذویراتی (سٹریٹیجک) حماقتوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دشمن پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔
طالبا ن کو کابل میں حکومت دلانا تذویراتی لحاظ سے سب سے بڑی غلطی تھی۔ سال ہا سال ہمارے سکیورٹی مینیجرز ریاستی پراپیگنڈہ مشینری کے ذریعے ہمیں یہ باور کراتے رہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان میں فرق ہے۔ یہ فریب اب آشکار ہو چکا ہے۔
ایک عالمی طاقت کو شکست دینے کے بعد کابل کے نئے حکمران سر عام پاکستان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر پاکستان کے فضائی یا زمینی حملوں کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ پاکستان نے اپنے لئے ایک اور پڑوسی ملک کو دشمن بنا لیا ہے۔ ایک بھیانک قسم کی نئی مصیبت مول لے لی ہے۔
حکمت عملی کی جو شدید غلطیاں سر زد ہوئیں ان کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے لوگ اب پریشان ہیں۔ ٹی ٹی پی کے مرکزی رہنما، پہلے مسلم خان، بعد ازاں احسان اللہ احسان، چپ چاپ فرار کرا دئے گئے۔ کیوں؟ تا کہ طالبان سے مذاکرات کئے جا سکیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جب بھی طالبان کے مطالبات تسلیم کئے جاتے ہیں، وہ پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو جاتے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے ہتھیار ڈالنے سے صریحاً انکار کر دیا ہے نہ ہی وہ آئین پاکستان کو کوئی وقعت دیتے ہیں۔ الٹا ٹی ٹی پی ایسے مطالبات پیش کر رہی ہے جو کوئی بھی ریاست تسلیم نہیں کر سکتی۔
ادہر، ہمارے یہی سیکورٹی مینیجرز پی ٹی ایم سے مذاکرات کرنے پر ہر گز تیار نہیں حالانکہ پی ٹی ایم کی قیادت طالبان کی شدید مخالف ہے۔ گو پی ٹی ایم نے کبھی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بات نہیں کی مگر ان کی قیادت مسلسل نشانے پر ہے جبکہ پشتون رکن قومی اسمبلی علی وزیر مسلسل جیل میں ہیں۔
اس سے بھی زیادہ حیران کن بات: سوات میں جن لوگوں نے سکول وین پر پاکستانی طالبان کی فائرنگ کے خلاف احتجاج کیا، فوج نے ان کو سزا دی۔ یہ سبق کہ 2006ء تا 2009ء کے عرصے میں مولوی فضل اللہ سے لڑتے ہوئے فوج کے کئی بہادر جوانوں نے جان گنوائی، بالکل بھلا دیا گیا ہے۔
قصہ یوں ہے کہ سب سے اہم سوال کبھی زیر بحث ہی نہیں لایا گیا۔ وہ یہ کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے خلاف جنگ کرے کیوں؟
ٹی ٹی پی کے حوالے سے جو عجیب اور متذبب رویہ اختیار کیا جاتا ہے اس کی وجہ نظریاتی الجھن ہے جس کے نتیجے میں مختلف نوع کے شکوک و شبہات بھی جنم لیتے ہیں۔ اب جبکہ کابل میں بیٹھے طالبان کھل کر ٹی ٹی پی کی حمایت کر رہے ہیں، کیا قبل از 2021ء والی ’گڈ طالبان بیڈ طالبان‘ والی پالیسی پر اب بھی عمل کیا جا رہا ہے؟
اب جبکہ امریکہ اور بھارت افغانستان سے جا چکے ہیں، اب دوست کون ہے اور دشمن کون؟ قیادت جو حکم جاری کرتی ہے کیا نیچے اس پر عمل ہوتا ہے؟ کیا نیکٹا کا وجودکاغذوں کی حد تک ہی رہے گا؟ کیا فوجی جوان اور افسر ایک ہی پیج پر ہیں؟ کیا سیاستدان بھی اس سارے معاملے میں کوئی اہمیت رکھتے ہیں؟
سوال زیادہ ہیں جواب کم۔ میرے علم کے مطابق البتہ کسی قومی رہنما، جرنیل حتیٰ کہ اداری صفحات پر قلم آزمائی کرنے والے سیاسی تجزیہ نگاروں نے بھی کبھی مندرجہ بالا اہم ترین سوال نہیں اٹھایا۔
اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ ٹی ٹی پی کی بربریت نا قابل قبول ہے۔ بات لیکن یہ ہے کہ جنگی تنازعے خونی ہی ہوتے ہیں۔ محض یہ کہہ دینا کہ طالبان بربریت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، کافی نہیں۔ یہ بیان در اصل اصل مسئلے سے جان چھڑانے کے مترادف ہے۔
آئیے ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ ٹی ٹی پی چاہتی کیا ہے۔ سب سے پہلے تو اس کی کوشش ہے کہ افغان سرحد سے متصل علاقے میں پاکستانی ریاست کے جواز کو متنازعہ بنایا جائے۔ بہ الفاظ دیگر، سابق فاٹا والا سٹیٹس بحال کیا جائے تا کہ ریاست کی براۂ راست رٹ محدود ہو جائے۔ سرحد سے باڑ ہٹانے کی تو افغان طالبان بھی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔ یہ مطالبہ ایسا ناجائز بھی نہیں۔ گذشتہ صدی کی سامراجی قوتوں نے بے پناہ مصائب وراثت میں چھوڑے ہیں۔
یہ سرحدی تنازعہ 129 سال پرانا ہے جب مورٹیمر ڈیورنڈ نامی درمیانی عمر کے ایک انگریز افسر کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ ایک نقشہ تیار کرے جس کے مطابق روس اور برطانیہ کے زیر اثر علاقوں کا تعین ہو جائے۔ وہسکی کے رسیا، سستی کے مارے اس افسر نے پنسل اور پیمانہ ہاتھ میں لیا اور ایک لکیر کھینچ دی جس نے پشتون آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
اس افسر کے پیدا کئے اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟ حتمی حل، جو اس وقت ذرا نا ممکن لگتا ہے، یہی ہے کہ بدگمانیاں دور کی جائیں، تشدد کا راستہ ترک کیا جائے، سرحد کے آر پار جانا آنا آسان بنایا جائے۔ سو سال پرانی ایک غیر فطری سرحد تا قیامت پاک افغان تنازعہ کا سبب نہیں بننی چاہئے۔
ٹی ٹی پی کا دوسرا مطالبہ زیادہ نا قابل عمل ہے۔ ابتدائی طور پر وہ افغان طرز پر سابقہ فاٹا میں شریعت لاگو کرنا چاہتی ہے۔ بعد میں وہ اس کا دائرہ کار پورے پاکستان تک بڑھانا چاہتی ہے۔ اس کا مطلب ہے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، انصاف کے نام پر ہاتھ کاٹنا، جمہوریت کی بجائے ایک ایسا شورائی نظام جس کی قیادت امیر المومنین کے پاس ہو، گویا پاکستان جدید دنیا سے ترک تعلق کر لے۔
غیر مسلم، اہل تشیع، (سنی) بریلوی اور جدید سوچ رکھنے والے مسلمانوں کے لئے یہ سارے مطالبات انتہائی عجیب ہیں۔
دوسری جانب، پاکستانی شہروں اور پسماندہ علاقوں میں انتہا پسند سوچ رکھنے والے حلقے اس نوع کی شریعت کے حامی ہیں۔ پاکستان کے سیکورٹی مینیجرز کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے۔ 2002ء کے بعد، جب فوج جنوبی وزیرستان میں تعینات کی گئی تو فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ علاقہ القاعدہ اور طالبان کی پناہ گاہ بن چکا تھا۔ جلد ہی شمالی وزیرستان بھی لڑائی کی لپیٹ میں آ گیا۔
فوجی قیادت جو اس تنازعے سے دور محفوظ بیٹھی تھی، مسلسل بیان دے رہی تھی کہ یہ ”چند غیر ملکی شر پسند عناصر ہیں“۔ عام سپاہی کے حوصلے البتہ مسلسل پست ہو رہے تھے۔ سپاہیوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ طالبان اور دیگر اسلامی گروہوں یعنی اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف کیوں لڑیں۔ کبھی ہتھیار ڈالنے کی خبریں آتیں تو کبھی یونٹ سے فوجیوں کے فرار کی۔
اردو اخبارات سے پتہ چل رہا تھا کہ وزیرستان اور سوات میں مولوی ایسے سپاہیوں کا جنازہ پڑھانے سے انکار کر رہے تھے جو طالبان کے خلاف لڑائی میں ہلاک ہوئے۔ 2012ء میں بنوں جیل پر حملہ ہوا اور ٹی ٹی پی 384 دہشت گردوں کو چھڑا کر لے گئی جبکہ جیل کا عملہ ایک جانب کھڑا طالبان زندہ باد اور شریعت نافذ کرو کے نعرے لگا رہا تھا۔
اب وقت ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اور جرنیل ہمیں بتائیں کہ ٹی ٹی پی کو تباہ کرنا کیوں ہے؟ جنگوں کی تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے کہ جنگ محض ہتھیاروں سے نہیں جیتی جا سکتی۔ جنگ جیتنے کے لئے جذبہ بھی اہم ہوتا ہے۔ ہمارے کیڈٹ کالجز اور ڈیفنس کالجز میں صرف انڈیا کے خلاف جنگ کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہمارے افسر ایک اور خوفناک دشمن سے لڑنے کے لئے ذہنی و فکری طور پر تیار ہی نہیں۔
ذرا موازنہ کیجئے: 2002ء تا 2014ء ستر ہزار پاکستانی دہشت گردی کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ ہندوستان کے خلاف چار جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 18 ہزار ہے۔
اگر تو پاکستان نے ٹی ٹی پی اور کابل سے ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو شکست دینی ہے تو ہمارے سپاہیوں کو پتہ ہونا چاہئے کہ وہ کس مقصد کے لئے لڑ رہے ہیں۔ نظریاتی الجھن کا شکار فوج لڑ سکتی ہے نہ جیت سکتی ہے۔ جب تک ایک واضح مقصد موجود نہ ہو، ایک شدید جذبہ مفقود رہتا ہے۔ ایسا نہ ہوا تو پاکستان ہار جائے گا، ٹی ٹی پی جیت جائے گی۔