پاکستان

ڈیل یا ڈیفالٹ: کیا یہ پاکستان کے لیے ’اینڈ گیم‘ ہے؟

عبدالخالق

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تین ہفتوں کی درآمدات کیلئے بھی بمشکل کافی ہیں، تجارتی خسارے کے بڑھتے ہوئے بحران اور بیرونی فنانسنگ حاصل کرنے کی بے تابی میں قرض پروگرام کو بحال کرنے کیلئے پاکستان نے بالآخر آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی کڑوی گولی نگلنے کی تیاری کر لی ہے۔ تجزیہ کاروں نے تکنیکی سطح کی بات چیت کو اب تک کی سب سے مشکل بات چیت قرار دیا ہے، کیونکہ آئی ایم ایف نے قرض کی سہولت کی بحالی کیلئے مقرر کردہ شرائط میں کوئی نرمی دکھانے سے انکار کر دیا ہے۔

حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے آغاز پر مائع پٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی قیمت میں 30 فیصد اور بجلی کے اوسط نرخوں میں کم از کم 6 روپے فی یونٹ اضافہ کر دیا تھا۔ یہ پٹرولیم کی قیمتوں میں پہلے 16 فیصد اضافے اور ایکسچینج ریٹ کی حد کو ہٹانے کے سب سے بلند سطح ہے، جس کے نتیجے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں 14 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے قیمتوں پر عائد کردہ حد ہٹانے کے بعد پاکستانی روپیہ ایک ہفتے کے اندر امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کا تقریباً 20 فیصد کھو چکا ہے۔

پاکستان کی معاشی صورتحال اس قدر مخدوش ہے کہ دو طرفہ اور کثیر الجہتی ترقیاتی شراکت داروں نے بھی مالی مدد فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ دوست ملکوں نے بھی وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان جاری تعطل کی وجہ سے اضافی امداد کو روک رکھا ہے، جس کے تحت سعودی عرب سے تقریباً 2 ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات سے 1 ارب ڈالر اورچین سے تقریباً 2 ارب ڈالر کی رقم ملنا تھی۔ قرضوں کے ماہرین کا خیال ہے کہ قرضوں میں دھنسا ہوا پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔

رپورٹس کے مطابق (آئی ایم ایف) مشن نے پاکستان سے بجٹ کے اہداف کو پورا کرنے کیلئے مالیاتی اقدامات پر عملدرآمد کرنے، بجلی اور توانائی کے شعبوں میں اصلاحات متعارف کرانے، کاشتکاری اور برآمدی شعبوں کو دی جانے والے سبسڈی پرنظر ثانی کرنے اور نجکاری پروگرام کو نافذ کرنے کو کہا ہے۔ کوئی دوسرا آپشن موجود نہ ہونے کی وجہ سے حکومت بڑی برآمدی صنعتوں کو دی جانے والے توانائی کی سبسڈی واپس لینے کیلئے تیار ہے، اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی معاشی بیل آؤٹ پر رضامندی کیلئے نان سیلری، غیر ضروری سول اور سکیورٹی اخراجات میں کٹوتی کیلئے درکار سخت اصلاحات کرنے کو بھی تیار ہے۔

بکھرتی ہوئی معیشت، مالیاتی صورتحال، تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ایک غیر فعال حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے، جہاں اس کے پاس کام کو رواں رکھنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ حکومت عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کیونکہ تمام آپشنز ختم ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو جاتا ہے، تو زیادہ تر معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ ملکی معیشت کو دوبارہ کھڑا ہونے میں برسوں لگیں گے۔

پاکستان کا ڈیٹ ٹو جی ڈی پی تناسب 70 فیصد کے خطرے کے زون میں ہے اور رواں سال سود کی ادائیگی کیلئے مختص سرکاری محصولات کا 40 اور 50 فیصد کے درمیان ہے۔ صرف دیوالیہ ہو جانے والاسری لنکا، گھانا اور نائیجیریا اس سے بری صورتحال میں ہیں۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ صورتحال آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور یقینی ڈیفالٹ کے درمیان ہے، جس میں پہلی صورت میں افراط زر کی شرح 35 فیصد اور دوسری صورت میں 70 فیصد سے زائد ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ایک ایسے موقع پر جاری ہیں، جس پاکستان کے کل بیرونی قرضے اور واجبات 127 ارب ڈالر (جی ڈی پی کا 41 فیصد) تک پہنچ چکے ہیں، خود مختار بانڈز اپنی مالیت کا 60 فیصد سے زائد کھو چکے ہیں، برآمدات کم ہو کر 7 فیصد رہ گئی ہیں، ترسیلات زر 11 فیصد تک گر گئے ہیں اور فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ 59 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کو 3 سال (مالی سال 23 اور 25) کے اندر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے 73 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ تازہ ترین شائع شدہ آئی ایم ایف کنٹری رپورٹ کے مطابق موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر 4 سے 5 ارب ڈالر ہیں۔

وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان ہر ماہ قرضوں کی ادائیگی اور سود کی مد میں 1 ارب ڈالر سے زائد ادا کرتا ہے۔ تاہم 2017ء کے بعد سے ایک اور بڑا مسئلہ ابھر کر سامنے آیا ہے، جو بیرونی قرضوں کا رول اوور ہے۔ 2015ء میں 1.3 ارب ڈالر سے 2022ء میں تقریباً 12 ارب ڈالر (سرکاری و پرائیویٹ دونوں) کے ساتھ اس تعداد میں 9 گنا اضافہ ہوا ہے۔

حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے کامیاب جائزے کے مطالبات کے سامنے مکمل سرتسلیم خم کرنے کے بعد تیزی سے بڑھتی ہوئی افراط زر کی شرح میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے مطابق سالانہ افراط زر جنوری 2023ء میں 27.55 فیصد کی دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، جو مئی 1975ء کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان بیورو آف شماریات (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق شہری اور دیہی علاقوں میں افراط زر میں سال ہا سال بالترتیب 24.38 اور 32.26 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ افراط زر کا رجحان تقریباً تمام ذیلی اشاریوں میں دوہرے ہندوسوں میں اضافے سے ہوا ہے، خاص طور پر خوراک اور ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کی برآمدت کا 60 فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہونے کے دہانے پر ہے۔ ریاست درآمدات کیلئے فنڈز فراہم کرنے سے قاصر ہے، ضروری اشیائے خوردونوش، خام مال اور طبی آلات کے کنٹینرز بندرگاہ پر رکے ہوئے ہیں۔ بینکوں نے درآمد کنندگان کیلئے نئے لیٹرآف کریڈٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے، جس سے ملک میں گندم کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ گندم کا آٹا، جو پاکستانیوں کی خوراک کا اہم حصہ ہے، اس کی قیمتیں جاری بحران میں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ شہریوں کو آٹے کے سبسڈی والے تھیلوں کیلئے لمبی قطاروں میں انتظار کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کیونکہ سبسڈی والے آٹے کی سپلائی بہت کم ہے۔ پاکستان دنیا کا 8 واں سب سے بڑاگندم پیداکرنے والا ملک ہے، جو اب اس کی کمی کو پورا کرنے کیلئے 75 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کر رہا ہے۔

ان موجودہ حالات میں مہنگائی سے متاثرہ عوام مفت کھانے کے مراکز کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔ فلاحی تنظیموں کے مفت کھانا فراہم کرنے والے مراکز کے باہر لمبی قطاریں گزشتہ چند مہینوں سے طویل ہوتی جا رہی ہیں، کیونکہ لوگ اپنے خاندانوں کو کھانا فراہم کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطمئن ہونے تک ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ نہیں رکے گا، اس لئے اجناس اور توانائی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ اب بھی حالات کی سنگینی کا ادراک کرنے سے انکاری ہے اور ان مراعات کو قربان کرنے کیلئے تیار نہیں، جو وہ کئی دہائیوں سے حاصل کر رہی ہے۔ غیر ضروری فائدے کم کرنے کی بجائے ایک بار پھر اس کا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالنے کا عزم کر لیا گیا ہے۔ ملک ڈوب رہا ہے، لیکن قرضوں میں لت میں مبتلا حکمران اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ ان شورش زدہ پانیوں سے تیر کر نکلے گا، کیونکہ دنیا اسے ڈوبتا ہوا دیکھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ تاہم اس بار دنیا پاکستان کو اس وقت تک بیل آؤٹ کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی، جب تک کہ اس کی حکمران اشرافیہ اپنی مدد کیلئے خود تیار نہ ہو۔

گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب، بیمار معیشت، دہشت گردی کی تازہ لہر اور گہری سیاسی عدم استحکام کے ساتھ حالات اب نہ صرف معاشی لحاظ سے بلکہ سماجی اور سیاسی لحاظ سے بھی ایک فلیش پوائنٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

کارٹون: بشکریہ فرائیڈے ٹائمز

Khaliq Shah
+ posts

خالق شاہ انسٹیٹیوٹ فار سوشل اینڈ اکنامک جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ وہ تیسری دنیا کے قرضے منسوخ کروانے کے لئے سرگرم عالمی تنظیم’سی ٹی ڈی ایم‘ کے پاکستان میں فوکل پرسن بھی ہیں۔ پاکستان پر عالمی قرضوں کے حوالے سے ان کی تحقیق پاکستانی اور عالمی میڈیا میں شائع ہو چکی ہے۔