اداریہ جدوجہد
دی نیوز اخبار سے وابستہ رہنے والے معروف صحافی احمد نورانی، جو اب امریکہ میں مقیم ہیں، نے دو روز قبل ایک نئی ویب سائٹ فیکٹ فوکس میں جنرل ریٹائرڈ عاصم باجوہ اور ان کے خاندان کی کاروباری ایمپائر بارے جو رپورتاژ کی ہے، اسے پاکستان کا واٹر گیٹ کہا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا تا دم تحریر فیکٹ فوکس میں لپٹا ہوا ہے۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ اس خبر بارے ٹوئٹر پر کچھ دنوں سے چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔ کچھ نامعلوم سے اکاؤنٹ یہ اعلان کر رہے تھے کہ جنرل عاصم باجوہ کی کاروباری ایمپائر بارے خبر بریک کی جائے گی۔
جنرل عاصم نے، جو چند ہفتے قبل بھی اسکینڈل کی زد میں رہ چکے ہیں، فیکٹ فوکس میں شائع ہونے والی تفصیلات کی ایک ٹوئٹر پیغام میں تردید کی ہے۔ ان کی تردید نے ان کے انتہائی قریبی حامیوں کو بھی شائد مطمئن نہ کیا ہو۔
ان کا یہ کہنا کہ یہ خبر کسی نامعلوم ویب سائٹ سے جاری ہوئی ہے، کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے کسی کو قائل کیا جا سکے۔ ویب سائٹ نامعلوم نہیں، نئی ہے۔ اسی طرح ویب سائٹ اگر ’نامعلوم‘ بھی تسلیم کر لی جائے، احمد نورانی پاکستانی صحافت کا جانا پہچانا نام ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کیا مذکورہ رپورتاژ کے مندرجات درست ہیں یا غلط؟
بات صرف جنرل عاصم باجوہ کی ذات تک محدود نہیں۔ یہ انکشاف کہ سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان پچھلے چند دنوں سے اپنا ریکارڈ ویب سائٹ سے ہٹانے میں مصروف تھا اور بھی زیادہ تشویش کا باعث ہے۔ تادم تحریر سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کوئی تردید یا تصدیق سامنے نہیں آئی۔
اندریں حالات، مین سٹریم میڈیا بالکل خاموش ہے۔ ابھی تک حکومت کی جانب سے بھی کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ خاموشی مسئلے کا حل نہیں۔ حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ وہ خاموش رہے کیونکہ فیکٹ فوکس کی اس خبر نے صرف جنرل عاصم کو ہی نہیں حکومت، عدلیہ، میڈیا اور اسٹبلشمنٹ (سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان تو صرف ایک پرزہ ہے) کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کا تو نعرہ ہی بدعنوانی کا خاتمہ، شفافیت اور انصاف تھا۔ اب اگر عمران خان کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں گے تو ان کی رہی سہی ساکھ بھی چلی جائے گی۔ پہلے ہی جہانگیر ترین کی لوٹ مار نے ان کے نعروں کا کھوکھلا پن ظاہر کر دیا ہوا ہے۔
ناقدین میڈیا کو بھی آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ جن ٹاک شوز اور نیوز چینلز پر سیاست دانوں کی بد عنوانی پر ماتم کیا جاتا تھا، ان پر مکمل خاموشی ہے۔
نیب اور عدالتیں بھی زیر بحث آئیں گی۔ نواز شریف کی سیاست کا خاتمہ ہی اس بات پر ہوا کہ وہ بیرون ملک کاروبار کے لئے منی ٹریل نہیں دے سکے۔ لوگ اب جنرل عاصم باجوہ سے بھی منی ٹریل کا مطالبہ کریں گے اور مسلم لیگ ن کے حامی تو بات بے بات دونوں معاملات کا موازنہ کریں گے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ اس معاملے کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ حکومت فوری طور پر سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے وضاحت طلب کرے اور ساتھ ہی ساتھ جنرل باجوہ سے سرکاری عہدے واپس لے کر شہریوں کے خدشات اور تحفظات کو دور کرے۔
آخر میں چند الفاظ پاکستانی صحافت بارے بھی ضروری ہیں۔ صحافت کا مقصد ہے طاقت کا احتساب کرنا۔ ہم نے چند دن پہلے دیکھا کہ اس حکومت کے دو سال پورے ہونے پر اینکر پرسن کامران خان نے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ایک انٹرویو کیا جس مین بقول شخصے کامران خان جواب دے رہے تھے اور عمران کان لقمے دے رہے تھے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان میں جبر کے ماحول نے صحافیوں کو خاموش کرا دیا ہے مگر کتنے ہی اینکر پرسن اور صحافی ہیں جو صحافت کے اصل مقصد سے ہی انحراف کر چکے ہیں۔
فیکٹ فوکس نے ارباب اختیار کو یہ بھی سوچنے پر مجبور کر دیناہے کہ کیا آج کے دور میں ضیا آمریت والے ہتھکنڈے اپنائے جا سکتے ہیں۔