خبریں/تبصرے

عدیم ہاشمی: اردو غزل کا طرح دار شاعر!

قیصر عباس

”نظم یا غزل“ اردو ادب میں کوئی نئی بحث نہیں کہ مختلف ادوار میں کبھی نظم اور کبھی غزل مقبول عام پیرایہ اظہار رہے ہیں۔ ایک دور میں نظم کو ہی اردو شاعری کی مستند صنف تسلیم کیا جاتاتھا کیوں کہ اس میں معاشرے کے سنگین مسائل کے گوناگوں پہلوؤں کو بخوبی موضوع سخن بنایا جا سکتا تھا۔ تحریک آزادی میں برطانوی استعمارکے خلا ف نظم نے اپنا کردار ادا کیا اور عوامی سطح پر مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔ جوش ملیح آبادی، جان نثار اختر، عبدالحمیدعدم اور ان جیسے کئی اور ترقی پسند شعرا نے نظم ہی کے ذریعے عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے جدوجہد آزادی کا حصہ بنے۔

غزل بنیادی طور پر اور تاریخی لحاظ سے بھی واردات قلب اوررومانوی جذبوں کی ترجمان رہی ہے لیکن ایک زمانے میں یہی طرز اظہار ان دائروں میں مقید ہو کر مقبولیت کھو بیٹھا بلکہ کچھ ناقدین کے نزدیک غزل جدت اور اختراع کے بجائے اپنے آپ کو دہرانے لگی اور سطحی عشقیہ موضوعات اس کی پہچان بن گئے۔

آزادی کے بعد اردو غزل نے نئی کروٹ لی اور عشقیہ موضوعات سے باہر نکل کر ارد گرد کے ماحول کو اس طرح اپنا یا کہ ایک بار پھر ادبی محازوں پر فاتح بن کر ابھری۔ اسی صنف نے ہندوستان میں معاشرتی اور مذہبی تناؤ کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے گھٹے ہوئے سیاسی ماحول میں لوگوں کے عام مسائل، سماجی استحصال اور اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ کو بھی اجاگر کیا۔ اس پس منظرمیں اردو غزل نے رومانوی رشتوں کو اظہار کے نئے پہلوؤں سے دیکھنا شروع کیا اور آج کی جدید غزل نہ صرف ارد گرد کے ماحول بلکہ رومانویت کے حقیقی احساسات کو بھی ہمراہ لے کر چل رہی ہے۔

در حقیقت اردو غزل کی مقبولیت میں کئی سماجی اور ادبی روایات کا ہاتھ ہے۔ پہلے تو یہ کہ اسے موسیقی کی محفلوں نے دانشورانہ حلقوں سے نکال کر عام لوگوں کے قریب ترکیا اور برصغیر میں پنپنے کے مزید مواقع فراہم کئے۔ موسیقی اور شاعری تو عرصے سے برصغیر کے مزاج کا حصہ ہیں لیکن ان دونوں کے امتزاج نے غزل کوبلا شبہ ایک نئی زندگی دی۔ مشاعروں کی روایت نے بھی، جو آج برصغیر سے نکل کر دنیا کے کئی ملکوں میں تارکین وطن کی ذہنی آسودگی کا اثاثہ ہیں، غزل کے سحرکو قائم و دائم رکھنے میں مدد کی۔

آزادی کے بعد غزل کو نئی زندگی دینے والوں میں فیض احمد فیض، احمد فراز، ناصر کاظمی، بشیر بدر، جاوید اختر، عباس تابش، عدیم ہاشمی، عشرت آفرین، پروین شاکر اور دوسرے شعرا سرفہرست ہیں جنہوں نے غزل کو نئے معانی اور اچھوتے طرز بیان کے ذریعے ایک نیا چہرہ عطا کیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ جدیدارد و غزل کا یہ نیا چہر ہ ہی اس کی بقا اور مقبولیت کا ضامن ہے اور اسی نے غزل کواکیسویں صدی میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ مختصراً یہ کہ غزل گوئی کے جدید رجحانات، شاعری اورموسیقی کاسحر انگیزتاثر اور عوامی سطح پر مشاعروں کی روایات، ان سب نے مل کر اس منفرد ادبی صنف کو مقبولیت کے سنگھاسن سے اترنے نہیں دیا۔

نئے دور میں غزل کو جن شعرا نے جدیدموضوعات سے سنوارا ا ن میں عدیم ہاشمی ایک اہم نام ہے۔ انیس سو ستر اور اسی کی دہا ئیوں میں عدیم ہاشمی اردو شاعری کے ایک نئے روپ کے ساتھ نمودار ہوئے اور بہت جلد اد بی افق پر چھا گئے۔ برصغیرکے بٹوارے میں فیروز پور سے ہجرت کر کے خاندان کے ساتھ پاکستان آئے اور ابتدائی تعلیم و تربیت فیصل آباد میں حاصل کی۔ بعد میں لاہور منتقل ہوئے اور ادبی جریدوں کے ذریعے جدید شاعری کی پہچان بن گئے۔ اس دوران انہوں نے ریڈیو، ٹی وی کے لئے گیت لکھے اور پی ٹی وی کے لئے ڈرامے تخلیق کئے۔’ترکش‘، ’مکالمہ‘، ’چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے‘،’فاصلے ایسے بھی ہوں گے‘ اور’بہت نزدیک آتے جارہے ہو‘عدیم کے شعری مجموعے ہیں۔ ایک عرصے تک عارضہ قلب میں گرفتار رہے اور علاج کرانے اپنے دوست اور نامور شاعر افتخار نسیم کے پاس امریکہ آئے۔ شکاگو میں انتقال ہوا اور وہیں سپرد خاک ہیں۔

عدیم نے اردو غزل کے آزمودہ رومانوی موضوعات کو جدید لہجے دیے۔ ان کے نزدیک محبوب تک رسائی اور اظہار عشق کافی نہیں، اس کی قربت بھی ضروری ہے۔ اسی احساس کو اپنے ایک مشہور شعر میں اس طرح بیان کرتے ہیں:

وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کرسکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

ان کی یہ غزل اس زمانے ادبی حلقوں ادر یونیورسٹی کے نوجوانوں میں خاصی مقبول تھی۔

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

خود چڑھا رکھے تھے اس نے اجنبیت کے نقاب
ورنہ کب ایک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا

وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کرسکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

عکس تو موجو دتھا پر عکس تنہائی کا تھا
ائینہ تو تھا مگر اس میں ترا چہرانہ تھا

آج اس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لئے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا

یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلا یا نہ تھا

سینکڑوں طوفان لفظوں کے دبے تھے زیر لب
ایک پتھر تھا خموشی کا کہ جوہلتا نہ تھا

وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کرسکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

معاشرے میں سچ اور جھوٹ کی تمیزکے مٹتے فاصلوں کے درمیان قول و فعل کے دہرے معیار عدیم کی فطرت کا حصہ نہیں تھے۔ یہ غزل عدیم کے ان ہی احساسات کی ترجمانی کرتی ہے:

کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا
مجھے گھر کاغذی پھولوں سے مہکانا نہیں آتا

میں جو کچھ ہوں وہی کچھ ہوں جو ظاہر ہے وہ باطن ہے
مجھے جھوٹے درو دیوار چمکانا نہیں آتا

میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب
مجھے دنیا کی پستی میں اتر جانا نہیں آتا

(یہ غزل پرویز مہدی کی آواز میں اس وڈیو لنک پر دیکھی جا سکتی ہے)۔

عدیم کا مزاج رومان پرور ضرور تھا لیکن غزل کا روایتی انداز بیاں عدیم ہاشمی کی شاعری سے کوسوں دور رہا کہ وہ عشق کو وفاداری کے انوکھے پیمانوں سے دیکھتے ہوئے عاشق کی انا کو اولین فوقیت دیتے ہیں:

شام کے ہاتھ نے جس وقت لگا لی مہندی
مجھے اس وقت ترا رنگ حنا یاد آیا

کتنی دنیا تھی مرے گرد تجھے کیا معلوم
بڑی مشکل سے مجھے تیرا پتا یاد آیا

حسن وعشق کی واردات کے علاوہ عدیم نے چاروں اور پھیلے گھپ اندھیروں کو بھی محسوس کیا اور انہیں مزاحمتی لہجے میں للکارنے کی کوشش بھی کی:

زباں نے جسم کا کچھ زہر تو اگل ڈالا
بہت سکون ملا تلخی نوا سے مجھے

رچا ہوا ہے بدن میں ابھی سرور گناہ
ابھی تو خوف نہیں آئے گا سزا سے مجھے

عدیم ہاشمی کانام ان شعراکی فہرست میں شامل رہے گا جنہوں نے غزل کے آزمودہ موضوعات کو نئے اسلوب دے کراسے نئی زندگی دی:

آؤ پھر دل کے سمندر کی طرف لوٹ چلیں
وہی پانی، وہی مچھلی، وہی جال اچھا ہے

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔