پاکستان

دیوتاؤں کی لڑائی میں عوام کی قربانی

التمش تصدق

پاکستانی ریاست کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اپنے آغاز سے ہی یہ ریاست معاشی، سیاسی اور نظریاتی بحران کا شکار نظر آتی ہے۔ تاہم بحران کی جو شدت اور انتشار کی جو کیفیت آج ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ہے۔ معاشی بحران اور سیاسی و سماجی انتشار اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے۔ حکمران طبقے کی لڑائی خفیہ سازشوں اور الزام تراشیوں سے نکل کر سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے گھروں پر حملوں اور گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے تک پہنچ چکی ہے۔ ریاستی اداروں میں پھوٹ اور دھڑے بندی،جو پہلے ڈھکی چھپی تھی، اب بالکل واضح ہو چکی ہے۔

عدلیہ اور فوج جیسے اداروں کے اہم عہدوں پر تعینات افراد کھلم کھلا اپنی سیاسی وابستگی ظاہر کر رہے ہیں اور سر عام پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ حکمران طبقے کی ریاست کے درمیان تضادات کی شدت اس حد بڑھ چکی ہے کہ اس کا سماجی کنٹرول مسلسل کم ہو رہا ہے اور انتشار میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ کیفیت ریاست اور اس کے مقدس اداروں کی اصلیت اور کردار کو تیزی سے محنت کش عوام کے سامنے بے نقاب کر رہی ہے۔ معاشی بحران جہاں سیاسی انتشار کو جنم دے رہا ہے، وہاں سیاسی انتشار معاشی بحران میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ معاشی اور سیاسی استحکام کی امید حکمران طبقے کے اپنے دانشور بھی چھوڑ چکے ہیں۔

عمران کی گرفتاری کے بعد پرتشددواقعات کی صورت میں جو ردعمل سامنے آیا،اس نے ریاست کی ساخت بالخصوص فوج کے خوف اور رعب و دبدبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ تحریک لبیک کے پر تشدد احتجاج ہوں یا تحریک انصاف کے حالیہ احتجاجی مظاہرے، یہ معاشی بحران کے نتیجے میں درمیانی طبقے اور محنت کشوں کی پسماندہ اور پچھڑی ہوئی پرتوں کی بے چینی اور ہیجان کا فسطائی اظہار ہیں۔

حکمران طبقے کی امریکی سامراج کی اطاعت اور فوج کی سیاست اور معیشت میں مداخلت کی وجہ سے ان کے خلاف سماج میں بڑے پیمانے پر نفرت پائی جاتی ہے۔ عمران خان نے اقتدار سے بے دخلی کے بعد بڑی حد تک اس نفرت کو اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کی بحالی کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ امکانات موجود ہیں کہ تحریک انصاف نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فوجی املاک کو نشانہ بنایا ہے، لیکن ان واقعات کی ایک وجہ عمران خان کی جانب سے اسٹبلیشمنٹ مخالف جذبات کو مسلسل ابھارنے کا عنصر بھی ہے۔

فوج اپنی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سزاؤں اور جبر کا استعمال کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ ملزمان کے خلاف آرمی ایکٹ 1952ء اور سیکرٹ ایکٹ 1923ء کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے۔ تحریک انصاف کارکنان کو مسلسل اشتعال دلا کر ریاستی املاک پر حملے کروانے کے بعد ریاستی جبر کے خوف سے تشدد میں ملوث افراد سے لاتعلقی کا اظہار کر چکی ہے۔

سویلین پر فوجی عدالتوں میں مقدمات اور سزائیں پاکستان میں پہلے سے محدود جمہوری حقوق کو مزید محدود کریں گی۔ ان قوانین کو مستقبل میں ترقی پسند کارکنوں کے خلاف بھی جبر کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ریاست کی داخلی کمزوری کی وجہ سے اس کو سماج پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر جبر کی ضرورت ہے۔ ریاستی جبر سے انتشاری کیفیت میں مزید اضافہ ہو گا اور ریاست کی ٹوٹ پھوٹ بھی بڑھے گی۔ محنت کشوں کی انقلابی تحریک کے بغیر ریاست کی ٹوٹ پھوٹ بہت بڑے پیمانے کی بربادی اور جانہ جنگی کو جنم دے سکتی ہے۔ سرمایہ داری کے عالمی معاشی بحران، ریاست کی تاریخی پسماندگی، داخلی تضادات اور سامراجی طاقتوں کی آپسی لڑائی میں اس تناظر کو مکمل رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔

حکمران اتحاد پی ڈی ایم میں شامل مذہبی، قوم پرست، نام نہاد جمہوریت پسند اور سوشلسٹ پارٹیاں محنت کش عوام کی حمایت سے مکمل محروم ہیں اور ریاست کے ایک دھڑے کی پشت پناہی سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ کھوکھلی بڑھک بازی کے علاوہ ان کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی قسط کے حصول کے لیے ہر روز نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔

مہنگائی پہلے سے ہی آسمان سے باتیں کر رہی جس کی وجہ سے ہر روز لاکھوں افراد سطح غربت سے نیچے گر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف قسط جاری کرنے کے لیے مزید محصولات میں اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے، جس کا نتیجہ مہنگائی میں مزید اضافے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ بجٹ سے قبل آئی ایم ایف کی قسط نہ ملنا حکمران اتحاد کی انتخابات سے پہلے عوام کوریلیف دینے کی آخری امید بھی ختم ہو رہی ہے۔ توانائی کی بلند تر قیمتوں کی وجہ سے بڑی صنعتیں اپنے پیدواری یونٹس بند کرنے پر مجبور ہیں۔ مہنگی توانائی کی وجہ سے ان کے لیے عالمی منڈی میں مسابقت پیدا کرنا ممکن نہیں ہے۔

وفاقی اداراہ شماریات کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 مہینوں میں بڑی صنعت کی پیداوار میں 8 فیصد سے زائد جبکہ مارچ میں سالانہ بنیادوں پر 25 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ ٹیکسٹائل، کیمیکل، فارماسیوٹیکل اور گاڑیوں کی صنعت شدید متاثرہ صنعتوں میں سرفہرست ہیں۔ یہی صورتحال کھیلوں کے سامان اور سرجیکل آلات کی صنعتوں کی ہے۔ نوجوان نسل بیروزگاری کی دلدل میں دھنس چکی ہے۔ صنعت کی بندش سے بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

حکمران طبقے کی اس لڑائی میں ہمیں محنت کش طبقے کی لاتعلقی اور خاموشی نظر آتی ہے۔ حکمران طبقے کی لڑائی جن مسائل کے گرد ہے، ان مسائل کا محنت کش عوام کی زندگیوں سے براۂ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ انتخابات کی تاریخ کیا ہو گی یہ سوال محنت کشوں کے لیے نہیں بلکہ حکمران طبقے کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ محنت کشوں کے لیے یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ روٹی کا بندوبست کیسے ہو گا، بچوں کی فیس اور بزرگوں کی ادویات کے پیسے کہاں سے آئیں گے؟

تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی سیاست محنت کشوں کے مسائل سے بیگانہ ہے اور محنت کش طبقہ اس سیاست سے بیگانہ ہے۔ حکمران طبقے کے مسلسل معاشی حملوں کے خلاف محنت کشوں کا پہلا ردعمل بڑی بغاوت کے بجائے انفرادی بقا کی جدوجہد میں تیزی، مایوسی اور بیگانگی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ خود غرضی اور انفرادت کی نفسیات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ غریب 20 کلو آٹے کے سستے تھیلے کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔

نوجونوں کے پاس انفرادی طور پر بیروزگاری کی دلدل سے نکلنے کی واحد صورت روزگار کے حصول کے لیے بیرون ممالک ہجرت ہے۔ پاکستان سے نوجوانوں اور محنت کشوں کی ہجرت کرنے والوں کی تعداد جنگ زدہ اور قحط زدہ علاقوں کے قریب ہے۔ ہر روز ہزاروں کی تعداد میں نوجوان ملک چھوڑ رہے ہیں اور لاکھوں نوجوان ایسے ہیں، جو قانونی اور غیر قانونی طور پر ملک چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہجرت کرنے والے ان افراد میں ہنر مند محنت کشوں کی بھی بہت بڑی تعداد شامل ہے۔

عالمی سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے انفرادی بقاء کا یہ طریقہ بھی عارضی ہے۔ واقعات تیزی کے ساتھ نظام کے دیوالیہ پن کو محنت کش عوام کے سامنے آشکار کر رہے ہیں، جو محنت کشوں کے شعور میں معیاری جست لگا سکتے ہیں اور جلد یا بدیر انقلابی کیفیت کو جنم دے سکتے ہیں۔ انقلابی پارٹی اگر محنت کشوں بدلتی نفسیات اور شعور کو مد نظر رکھتے ہوئے پروگرام پیش کرتی ہے، تو انقلابی طریقے سے نظام کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ کروڑوں محکوم انسانوں کو بربریت اور سرمائے کی زنجیروں سے آزاد کیا جا سکتا ہے۔

Altamash Tasadduq
+ posts

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔